منحوس سازش

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
چند نکاترُسوا کُن جُھوٹ

یوسف (علیه السلام) کے بھائیوں نے جب یوسف کو کنویں میں ڈالنے کی آخری سازش پر اتفاق کرلیاتو یہ سوچنے لگے کہ یوسف (علیه السلام) کو کس طرح لے کر جائیں لہٰذا اس مقصد کے لئے انھوں نے ایک اور منصوبہ تیار کیا، اس کے لئے وہ باپ کے پاس آئے اور اپنے حق جتانے کے انداز میں، نرم ونازل لہجے میں محبت بھرے شکوے کی صورت میں کہنے لگے:ابا جان! آپ یوسف کو کیوں کبھی اپنے سے جدا نہیں کرتے اور ہمارے سپرد نہیں کرتے،آپ ہمیں بھائی کے بارے میں امین کیوں نہیں سمجھتے حالانکہ ہم یقینا اس کے خیر خواہ ہیں(قَالُوا یَااٴَبَانَا مَا لَکَ لَاتَاٴْمَنَّا عَلیٰ یُوسُفَ وَإِنَّا لَہُ لَنَاصِحُونَ) ۔
آئےے! جس کا آپ متہم سمجھتے ہیں اسے جانے دیجئے، علاوہ ازیں ہمارا بھائی نو عمر ہے، اس کا بھی حق ہے، اسے بھی شہر سے باہر کی آزاد فضا میں گھومنے پھرنے کی ضرورت ہے، اسے گھر کے اندر قید کردینا درست نہیں، کل اسے ہمارے ساتھ بھیجئے تاکہ یہ شہر سے باہر نکلے، چلے پھرے، درختوں کے پھل کھائے، کھیلے کودے اور سیر وتفریح کرے (اٴَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَرْتَعْ وَیَلْعَب) ۔ (۱)
اور اگر آپ کو اس کی سلامتی کا خیال ہے اور پریشانی ہے تو” ہم سب اپنے بھائی کے محافظ ونگہبان ہوں گے“کیونکہ آخر یہ ہمارا بھائی اور ہماری جان کے برابر ہے ( وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ) ۔
اس طرح انھوں نے بھائی کو باپ سے جدا کرنے کا بڑا ماہرانہ منصوبہ تیار کیا، ہو سکتا ہے انھوں نے یہ باتیں یوسف (علیه السلام) کے سامنے کی ہوں تاکہ وہ بھی باپ سے تقاضا کریں اور ان سے صحرا کی طرف جانے کی اجازت لے لیں ۔
اس منصوبے میں ایک طرف باپ کے لئے انھوں نے باپ کے لئے یہ مشکل پیدا کردی تھی کہ اگر وہ یوسف کو ہمارے سپرد نہیں کرتا تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہمیں متہم سمجھتا ہے اور دوسری طرف کھیل کود اور سیر وتفریح کے لئے شہر سے باہر جانے کی یوسف (علیه السلام) کے لئے تحریک تھی ۔
جی ہاں! جو لوگ غفلت میں ضرب لگانا چاہتے ہیں ان کے منصوبے ایسے ہی ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے تمام نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں سے کام لیتے ہیں لیکن صاحبانِ ایمان افراد کو ”المومن کیس“ (مومن ہوشیار ہوتا ہے) کے مصداق ایسے خوبصورت ظواہر سے دھوکا نہیں کھانا چاہیئے اگرچہ ایسی سازش بھائی کی سے کیوں نہ ہو۔
حضرت یعقوب (علیه السلام) نے برادرانِ یوسف کی باتوں کے جواب میں بجائے اس کے کہ انہیں بُرے ارادے کا دیتے کہنے لگے مَیں تمہارے ساتھ یوسف کو بھیجنے پر تیار نہیں ہوں تو اس کی دو وجوہ ہیں:
پہلی یہ کہ یوسف کی جدائی میرے لئے غم انگیز ہے (قَالَ إِنِّی لَیَحْزُنُنِی اٴَنْ تَذْھَبُوا بِہِ ) ۔
اور دوسری یہ کہ ہوسکتا ہے کہ ان کے ارد گرد کے بیابانوں میں خونخوار بھیڑےے ہوں” اور مجھے ڈر ہے کہ مبادا کوئی بھیڑیامیرے فرزندِ دلبند کو کھاجائے اور تم اپنے کھیل کود ، سیر وتفریح اور دوسرے کاموں میں مشغول ہوں“(وَاٴَخَافُ اٴَنْ یَاٴْکُلَہُ الذِّئْبُ وَاٴَنْتُمْ عَنْہُ غَافِلُونَ) ۔
یہ بالکل فطری امر تھا کہ اس سفر میں بھائی اپنے آپ میں مشغول ہوں اور اپنے چھوٹے بھائی سے غافل ہوں اور بھڑیوں سے بھرے اس بیابان میں کوئی بھیڑیا یوسف کو آلے، البتہ بھائیوں کے پاس باپ کی پہلی دلیل کا کوئی جواب نہ تھا کیونکہ یوسف کی جدائی کا غم ایسی چیز نہ تھی کہ جس کی وہ تلافی کرسکتے بلکہ شاید اس بات نے بھائیوں کے دل میں حسد کی آگ کو اور بھڑدیا ہو۔
دوسری طرف بیٹے کو باہر لے جانے کے بارے میں باپ کی دلیل کا جواب تھا کہ جس کے ذکر کی چندان ضرورت نہ تھی اور وہ یہ کہ آخرکار بیٹے کو نشوونما اور تربیت کے لئے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے باپ سے جدا ہونا ہے اور اگر وہ نورستہ کے پودے کی طرح ہمیشہ باپ کے زیرِ سایہ رہے تو نشوونما نہیں پاسکے گااور بیٹے کے تکامل اور ارتقاء کے لئے باپ مجبور ہے کہ یہ جدائی برداشت کرے، آج کھیل کود ہے کل تحصیلِ علم ودانش ہے، پرسوں زندگی کے لئے کسب وکار اور سعی وکوشش ہے، آخرکار جدائی ضروری ہے ۔
لہٰذا اصلاً انھوں نے اس کا جواب نہیں دیا بلکہ دوسری دلیل کا جواب شروع کیا کہ جو ان کی نگاہ میں اہم اور بنیادی تھی”کہنے لگے: کیسے ممکن ہے ہمارے بھائی کوبھیڑیا کھاجائے حالانکہ ہم طاقتور گروہ ہیں،اگر ایسا ہوجائے تو ہم زیا کاروبد بخت ہوںگے“(قَالُوا لَئِنْ اٴَکَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُون
یعنی کیا ہم مُردہ ہیں کہ بیٹھ جائیں اور دیکھتے رہیں گے اور بھیڑیا ہمارے بھائی کو کھاجائے گا، بھائی کو بھائی سے جو تعلق ہوتا ہے اس کے علاوہ جو بات اس کی حفاظت پر ہمیں ابھارتی ہے یہ ہے کہ ہماری لوگوں میں عزت وآبرو ہے، ؛لوگ ہمارے متعلق کیا کہیں گے، یہی ناکہ طاقتور موٹی گردنوں والے بیٹھے رہے اور اپنے بھائی پر بھیڑے کو حملہ کرتے دیکھتے رہے، کیا پھر ہم لوگوں میں جینے کے قابل رہیں گے ۔
انھوں نے ضمناً باپ کی اس بات کا بھی جواب دیا کہ ہوسکتا ہے تم کھیل کود میں لگ جاؤ اور یوسف سے غافل ہوجاؤ اور وہ یہ کہ یہ مسئلہ گویا ساری دولت اور عزت وآبرو کے ضائع ہونے کا ہے ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ کھیل کود ہمیں غافل کردے کیونکہ اس صورت میں ہم لوگ بے وقعت ہوجائیں گے اور ہماری کوئی قدروقیمت نہیں ہوگی ۔
یہاں سوال سامنے آتا ہے کہ تمام خطرات میں سے حضرت یعقوب (علیه السلام) نے صرف بھیڑےے کے حملے کے خطرے کی نشاندہی کیوں کی تھی ۔
بعض کہتے ہیں کہ کنعان کا بیابان بھیڑیوں کا مرکز تھا، اس لئے زیادہ خطرہ اسی طرف سے محسوس ہوتا تھا ۔
بعض دیگر کہتے ہیں کہ یہ ایک خواب کی وجہ سے تھا کہ جو حضرت یعقوب (علیه السلام) نے پہلے دیکھا تھا کہ بھیڑیوں نے ان کے بیٹے یوسف پر حملہ کردیا ہے ۔
یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت یعقوب (علیه السلام) نے کنائے کی زبان میں بات کی تھی اوران کی نظر بھیڑیا صفت انسانوں کی طرف تھی، جیسے یوسف کے بعض بھائی تھے ۔
بہرحال انھوں نے بہت حلیے کےے، خصوصا حضرت یوسف (علیه السلام) کے معصوم جذبات کوتحریک کی اور انھیں شوق دلایا کہ وہ شہر سے باہر تفریح کے لئے جائیں اور شاید یہ ان کے لئے پہلا موقع تھا کہ وہ باپ کو اس کے لئے راضی کریں اور بہر صورت اس کام کے لئے ان کی رضامندی حاصل کریں ۔

 


 

۱۔ ”یرتع“ ”رتع“ (بروزن” قطع“) کے مادہ سے دراصل جانوروں کے چرنے اور خوب کھانے کے معنی میں ہے لیکن کبھی انسان کے لئے تفریح کرنے اور کوب کھانے پینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

چند نکاترُسوا کُن جُھوٹ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma