نماز کی انتہائی اہمیت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
نماز اور صبرمعاشروں کی تباہی کا سبب

متعدد روایات جو مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں ان میں کچھ ایسی تعبیرات نظر آتی ہیں جو مکتبِ اسلام میں نماز کی اہمیت سے پردہ اٹھاتی ہیں ۔
ابوعثمان کہتا ہے: مَیں سلمان فارسی کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا، انھوں نے درخت کی ایک خشک شاخ پکڑکر ہلائی یہاں تک کہ اس کے سارے پتے جھڑگئے، اس کے بعد میری طرف رخ کرکے کہا: تُو نے پوچھا نہیں کہ مَیں نے یہ کام کیوں کیا ہے؟ میں نے کہا: بتائیے آپ کی اس کام سے کیا مراد تھی؟ انھوں نے کہا: یہی کام ایک مرتبہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے انجام دیا تھا، جب میں ان کی خدمت میں ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا، اس کے بعد رسول نے مجھ سے کہا: سلمان پوچھتے نہیں ہو کہ میں نے ایسا کیوں کیا، میں نے عرض کیا: فرمائیے آپ نے کیاس کیوں کیا تو آپ نے فرمایا:
انّ المسلم اذا توضاٴ فاٴحسن الوضوء ثمّ صلی الصلوات الخمس تحاتت خطایاہ کما تحات ہذا الورق ثمّ قرء ھذہ الآیة وَاٴَقِمْ الصَّلَاةَ....
جب مسلمان وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر وہ پنجگانہ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑجاتے ہیں جیسا کہ اس شاخ کے پتے جھڑگئے ہیں، اس کے بعد آپ نے یہ آیت ”وَاٴَقِمِ الصَّلَاةَ....“کی تلاوت فرمائی ۔ (۱)
ایک اور حدیث رسول الله کے صحابی ابی امامہ سے مروی ہے، ابی امامہ کہتے ہیں: ایک دن میں مسجد میں رسول الله کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا، اس نے عرض کی: اے الله کے رسول! میں نے ایک گناہ کیا ہے کہ جس کی وجہ سے مجھ پر حد لازم ہوجاتی ہے، وہ حد مجھ پر جاری کیجئے، فرمایا: کیا تُو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ اُس نے عرض کی: جی ہاں یا رسول الله! فرمایا: خدا نے تیرا گناہ یا تیری حد بخش دی ہے ۔ (2)
نیز حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے، آپ فرماتے ہیں: مَیں رسولِ خدا کے ساتھ مسجد میں نماز کے انتظار میں تھا کہ ایک شخص کھڑا ہوگیا، اس نے عرض کیا: اے الله کے رسول! مَیں نے ایک گناہ کیا ہے، رسول الله نے اس سے منھ پھیر لیا، جب نماز ختم ہوئی تو وہی شخص پھر کھڑا ہوا اور پھلی بات دُہرائی، رسول خدا نے فرمایا: کیا تُونے ہمارے ساتھ نماز یہ نماز ادا کی ہے؟ اور اچھی طرح وضو نہیں کیا؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں، آپ نے فرمایا: یہ تیرے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ (3)
نیز حضرت علی علیہ السلام ہی کے واسطے سے پیغمبر اکرم سے منقول ہے، آپ نے فرمایا:
انّما منزلة الصلوٰات الخمس لاٴمِتی کنھر جار علیٰ باب اٴحدکم فمایظن اٴحدکم لو کان فی جسدہ درن ثمّ اغتسل فی ذٰلک النھر خمس مرّات لو کان یبقی فی جسدہ درن فکذلک والله الصلوٰت الخمس لاٴمتی.
پنجگانہ نماز میری امت کے لئے پانی کی جاری نہر کی طرح ہے کہ جو کسی شخص کے گھر کے دروازے سے گزرتی ہے، کیا تم گمان کرتے ہو کہ اگر اس کے بدن پر میل کچیل ہو اور پھر وہ پانچ مرتبہ روزانہ اس نہر میں غسل کرے تو پھر بھی کوئی میل کچیل اس کے بدن پر رہ جائے گی؟ (یقیناً نہیں) خدا کی قسم اسی طرح میری امت کے لئے پنجگانہ نماز ہے ۔ (4)
بہرحال اس میں شک وشبہ نہیں کہ جب نماز اپنی شرائط کے انجام پائے تو انسان کو معنویت اور روحانیت کے ایک ایسے عالم میں لے جاتی ہے کہ اس کے ایمانی رشتے خدا کے ساتھ ایسے مستحکم کردیتی ہے کہ آلودگیوں اور گناہوں کے آثار اس کے قلب وجان سے دُھل جاتے ہیں ۔
نماز انسان کا گناہ کے مقابلے میں بیمہ کردیتی ہے اور گناہ کا زنگ آئینہٴ دل سے صاف کردیتی ہے ۔
نماز ملکاتِ عالی کے پودے انسانی روح کی گہرائیوں میں اُگاتی ہے، نماز ارادے کو قوی، دل کو پاک اور روح کو طاہر کرتی ہے اور اگر نماز جسمِ بے روح کی صورت میں نہ ہو تو تربیت کا اعلیٰ مکتب ہے ۔
قرآن کی نہایت امید افزا آیت
زیرِ بحث آیت کی تفسیر میں حضرت علی علیہ السلام سے ایک عمدہ اور جاذبِ نظر حدیث منقول ہے، جو اس طرح ہے:ایک دن آپ نے لوگوں کی طرف رخِ انور کرکے فرمایا: تمھاری نظرمیں قرآن کی کونسی آیت زیادہ امید بخش ہے؟
بعض نے کہا:
<إِنَّ اللهَ لَایَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَاءُ(5)
(خدا شرک کو ہرگز نہیں بخشتا اور اس سے کم تر جس شخص کے لئے چاہے بخش دیتا ہے) ۔
امام(علیه السلام) نے فرمایا: خوب ہے لیکن جو میں چاہتا تھا وہ نہیں ہے ۔
بعض نے کہا:
<وَمَنْ یَعْمَلْ سُوئًا اٴَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرْ اللهَ یَجِدْ اللهَ غَفُورًا رَحِیمًا (6)
(جو شخص کوئی برا عمل انجام دے یا اپنے اوپر ظلم کرے اس کے بعد خدا سے بخشش طلب کرے تو خدا کو غفور ورحیم پائے گا) ۔
بعض نے کہا:
<قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلیٰ اٴَنْفُسِھِمْ لَاتُقْنِطُوا مِنْ رِحْمَةِ اللّٰہ(7)
(کہہ دو! اے میرے بندو! کہ جنھوں نے اپنے نفسوں پر اسراف کیا ہے! خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا)
فرمایا: اچھی ہے لیکن جو میں چاہتا تھا وہ نہیں ہے ۔
بعض دیگر نے کہا:
<وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً اٴَوْ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِھِمْ وَمَنْ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللهُ(8)
(پرہیزگار وہ لوگ ہیں جو جب تک بُرا کام انجام دیں یا اپنے اوپر ظلم کریں تو خدا کی یاد میں پڑجاتے ہیں اور اپنے اوپر گناہوں کو بخشش طلب کرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کون ہے جو گناہوں کو بخشے گا ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ بھی اچھی ہے لیکن جو میں چاہتا تھا وہ نہیں ہے ۔
اس وقت لوگ ہر طرف سے امام کی طرف متوجہ ہوئے اور ہمہمہ کیا تو فرمایا: کیا بات ہے مسلمانو! تو وہ عرض کرنے لگے: خدا کی قسم! ہماری نظر میں اس سلسلے میں اور کوئی آیت نہیں ۔
امام نے فرمایا: میں نے اپنے حبیب رسول اللہ سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
قرآن کی امید بخش ترین آیت یہ ہے:
وَاٴَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّھَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذٰلِکَ ذِکْریٰ لِلذَّاکِرِینَ(9)
البتہ جیسا کہ ہم ہے سورہٴ نساء کی آیت ۸۴ کے ذیل می کہا ہے کہ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ قرآن کی زیادہ امید بخش آیت یہ ہے:
إِنَّ اللهَ لَایَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَاءُ
یعنی ۔ خدا شرک کو نہیں بخشتا اور اس سے کمتر جتنے گناہ ہیں جسے چاہے بخش دے ۔
لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ان آیات میں سے ہر ایک اس بحث کے ایک زاویے کے بارے میں ہے اور اس کے پہلووٴں میں سے ایک پہلو کو بیان کرتی ہے، لہٰذا ان کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے در حقیقت زیر بحث آیت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو اپنی نمازیں اچھی طرح سے بجالاتے ہیں ۔ ایسے نماز جو حضور قلب کے ساتھ ہوتی ہے وہ ان کے قلب و روح سے گناہوں کے آثار دھویتی ہے ۔
جبکہ دوسری آیت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو ایسی نماز کے حامل نہیں اور صرف توبہ کا راستہ اپنا تے ہیں لہٰذا یہ آیت اس گروہ کیلئے اور وہ آیت اس گروہ کے لیے زیادہ امید بخش ہے ۔
اس سے زیادہ امید افزاء بات کیا ہوگی کہ انسان جان یے کہ جس وقت اس پاؤں پھسلے یا ہوا و ہوس کا اس پر غلبہ ہو(جبکہ وہ گناہ پر اصرار نہ کرے اور نہ اس پاؤں گناہ کی طرف کھینچا رہے) وقت نماز آپہنچے تو وہ وضو کرے اور بارگاہ معبود میں راز و نیاز کے لیے کھڑا ہوجائے، گزشتہ اعمال کے بارے میں احساسِ شرمندگی اس میں موجود ہو۔ وہ احساس ندامت کو جو خدا کی طرف توجہ کے لوازمات میں سے ہے، تو اس کا گناہ بخشا جائے گا اور اس گناہ کی تاریکی اس کے دل سے ہٹ جائے گی ۔
نماز کو جو انسان ساز پرواگرام ہے اور حسنات کی یہ تاٴثیر کہ وہ برائیوں کو ختم کردیتی ہیں، کے ذکر کے بعد اگلی آیت میں ”صبر“ کا حکم دیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہوتا ہے: صبر کرو کہ خدا نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا (وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لَایُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ) ۔
اگر چہ بعض مفسرین نے یہاں صبر کو نماز کے معنی میں یا رسول اللہ کے سامنے جو دشمن تھے ان کی اذیت کے مقابلے کے مفہوم میں محدود کردیا ہے لیکن واضح ہے کہ محل بحث آیت میں صبر کے معنی کو محدود کرنے کیلئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اس کا ایک عمومی اور جامع مفہوم ہے کہ جس مشکلوں، مخالفتوں، ایذاؤں، ہیجانوں، طغیانوں اور طرح طرح کی مصیبتوں کے مقابلے میں صبر کرنے کا معنی شامل ہے اور ان تمام حوادث کے مقابلے میں پامردی اور قیام صبر کا جامع مفہوم اس میں مندرج ہے ۔
صبر کو جو اسلام کا ایک اساسی حکم ہے قرآن میں کئی مواقع پر اس کا ذکر نماز کے ساتھ آیا ہے ۔ شاید ایسا اس بناء پر ہے کہ نماز انسان میں حرکت پیدا کرتی ہے اور صبر کا حکم مقاومت جب دوش بدوش ہوں تو ہر قسم کی کامیابی اصلی عامل عامل بن جاتے ہیں ۔
اصولی طور پر کوئی نیکی صبر اور استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ نیک کاموں کے اختتام پذیر ہونے پر حتمی طور پر استقامت لازمی ہے ۔ اسی بناء پر مندرجہ بالا آیت میں صبر کا حکم دیتے کے بعد فرمایا گیا ہے: وہ نیکوں کاروں کی جزااٴ ضائع نہیں کرتا ۔ یعنی نیکی صبر اور قیام کے بغیر میسر نہیں آتی ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ناگوار حوادث کے مقابلے میں مختلف لوگ ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
۱۔ کچھ لوگ فوراً اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں اور قرآنی ارشاد کے مطابق یہ ہے کہ وہ واویلا شروع کردیتے ہیں ۔ قرآنی الفاظ میں:
<اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوعاً
یعنی جب اسے کوئی تکلیف چُھوتی ہے تو جزع وفزع شروع کردیتا ہے ۔ (معارج/۲۰)
۲۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو حواس نہیں گنوا بیٹھتے بلکہ حادثے کے مقابلے میں تحمل وبردباری سے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
۳۔ بعض لوگ تحمل وبردباری کے ساتھ شکرگزاری بھی کرتے ہیں ۔
۴۔ کچھ لوگ ایسے حوادث کے مقابلے میں والہانہ جد وجہد کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور حادثے کے منفی اثرات ختم کرنے کے لئے انتظامات کرتے ہیں اور ایسا جہاد شروع کردیتے کہ تھکنے کا نام نہیں لیتے اور جب تک کہ مشکل کو سامنے سے ہٹا نہیں دیتے چین نہیں لیتے ۔
خدا نے ایسے صابروں کے لئے کامیابی کا وعدہ کیا ہے:
<إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ
اور اگر تم لوگوں میں ثابت قدم رہنے والے بیس بھی ہوئے تو دو سو پر غالب آجاوٴگے ۔ (انفال/۶۵)
اور ان کے لیے دوسرے جہاں کی جزاء نعماتِ بہشت کو قرار دیا گیا ہے:
<وَجَزَاھُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِیرًا
اور ان کے صبر کے بدلے خدا انھیں باغ بہشت اور ریشمی پوشاک عطا کرے گا ۔ (دہر/۱۲)

 

۱۱۶ فَلَوْلَاکَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ اٴُوْلُوا بَقِیَّةٍ یَنْھَوْنَ عَنْ الْفَسَادِ فِی الْاٴَرْضِ إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّنْ اٴَنْجَیْنَا مِنْھُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مَا اٴُتْرِفُوا فِیہِ وَکَانُوا مُجْرِمِینَ
۱۱۷ وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُریٰ بِظُلْمٍ وَاٴَھْلُھَا مُصْلِحُونَ

ترجمہ
۱۱۶۔ تم سے پہلے کے زمانوں (اور قوموں) میں طاقتور علماء کیوں نہیں تھے کہ جو زمین میں فساد کو روکتے مگر یہ کہ ان میں سے بہت کم تھے کہ جنھیں ہم نے نجات دی اور جو ظلم و ستم کرتے تھے انھوں نے عیش و عشرت اور لذتوں کی پیروی کی اور وہ گنہ گار تھے (اور وہ نابود ہوگئے) ۔
۱۱۷۔ اور ایسا نہ تھا کہ تیرا پروردگار آبادیوں کو ظلم و ستم کے باعث نابود کرتا جبکہ ان کے باسی اصلاح کے درپے ہوتے ۔

 


۱۔ مجمع البیان: مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔
2۔ مجمع البیان: مذکورہ آیت کے ذیل میں.
3 مجمع البیان: مذکورہ آیت کے ذیل میں.
4۔ مجمع البیان: مذکورہ آیت کے ذیل میں.
5۔ سورہٴ نساء: آیت۱۱۶.
6۔ سورہٴ نساء: آیت۱۱۰.
7۔ سورہٴ زمر: آیت۵۳.
8۔ سورہٴ آل عمران: آیت۱۳۵.
9۔ مجمع البیان، مذکورہ آیت کے ذیل میں.

 

نماز اور صبرمعاشروں کی تباہی کا سبب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma