۳۔طوفان نوح میں عبرت کے درس

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۲۔ کیا نزول عذاب کے بعد توبہ ممکن ہے؟:ایک داستان کا اختتام

جیسا کہ ہم جانتے ہیں قرآن گذشتہ لوگوں واقعات درس عبرت دینے کے لئے اور اصلاح وتربیت کے لئے بیان کرتا ہے، ہم نے حضرت نوح (علیه السلام) کی داستان کا جتنا حصہ پڑھا ہے اس میں بہت سے درس پوشیدہ ہیں، ان میں سے ہم بعض کی ذیل میں اشارہ کرتے ہیں ۔
الف۔ روئے زمین کو پاک کرنا:یہ صحیح ہے کہ خدا رحیم اور مہربان ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ وہ اس کے باجود حکیم بھی ہے، اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی قوم وملت فاسد ہوجائے اور نصیحت کرنے والوں اور تربیت کرنے والے خدائی نمائندوں کی دعوت ان پر اثر نہ کرے تو انھیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، ایسے مواقع پر خدائے تعالیٰ بالآخر معاشرتی یا طبیعی اور فطری انقلابات کے ذریعے ان کی زندگی کے کارخانے کو درہم برہم کر کے انھیں نابود کردیتا ہے ۔
یہ بات نہ قوم نوح میں منحصر تھی اور نہ کسی اور زمانے یا معین وقت میں، یہ ہرزمانے اور ہرقوم کے لئے ایک خدائی سنت ہے یہاں تک کہ ہمارے زمانے کے لئے بھی اور ہوسکتا ہے پہلی اور دوسری عالمی جنگیں اس پاک سازی کی مختلف شکلیں ہوں ۔
ب۔طوفان کے ذریعے انقلاب کیوں؟: یہ صحیح ہے کہ ایک فاسد اور بری قوم کو نابود ہونا چاہیئے چاہے وہ کسی ذریعے سے نابود ہو اس میں فرق نہیں پڑتا لیکن آیاتِ قرآنی میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ عذاب وسزا اور قوموں کی گناہوں میں ایک قسم کی مناسبت تھی اور ہے ۔ (غور کیجئے )
فرعون نے عظیم دریائے نیل اور اس کے پر برکت پانی کو اپنی قوت وطاقت کا ذریعہ بنا رکھا تھا ، یہ بات جاذب نظر ہے کہ وہی اس کی نابودی کا سبب بنا ۔
نمرود کو اپنے عظیم لشکر پر بھروسہ تھا اور ہم جانتے ہیں کہ حشرات الارض کے چھوٹے سے لشکر نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو شکست دی ۔
قوم نوح زراعت پیشہ تھی ان کی کثیر دولت کا دارومدار زراعت پر ہی تھا ہم جانتے ہیں کہ ایسے لوگ اپنا سب کچھ بارش کے حیات بخش قطروں کو سمجھتے ہیں لیکن آخرکاربارش ہی نے انھیں تباہ وبرباد کردیا ۔
یہاں سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ خدائی فیصلوں میں کس قدر تدبیر اور تدبر کارفرما ہوتا ہے، اسی طرح اگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے سرکش انسان پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اپنے جدید ترین اسلحوں کے ذریعے نیست ونابود ہوتے ہیں تو یہ بات ہمارے لئے باعث تعجب نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پسے ہوئے محروم انسانوں کے وسائل لوٹنے کے لئے ان کی استعماری طاقتوں نے اپنی اس ٹیکنالوجی اور مصنوعات پر ہی بھروسہ کررکھا تھا ۔
ج۔خدا کا نام۔ہر حالت میں او رہر جگہ: مندرجہ بالا آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ حضرت نوح (علیه السلام) نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ خدا کا نام کشتی کے رکتے اور چلتے وقت فراموش نہ کریں، سب کچھ اس کے نام سے، اس کی یاد کے ساتھ اور اس کی پاک ذات سے مدد طلب کرتے ہوئے ہونا چاہیئے، ہر حرکت، ہر سکون میں، حالت آرام میں اور طوفان میں سب کچھ اسی کے نام سے شروع ہونا چاہیئے کیونکہ جو کام اس کے نام کے بغیر شروع ہوگا وہ ابتر اور دم بریدہ ہوگا، جیسا کہ رسول اللہ کی مشہور حدیث میں ہے:
کل امر ذی بال لم یذکر فیہ بسم اللّٰہ فھوابتر۔
ہر اہم کام جس میں نام خدا نہ لیا جائے بد انجام اور دم بریدہ ہوگا ۔ (1)
اہم بات یہ ہے کہ نام خدا کا ذکر تکلفات اور تشریفات کے لئے نہ ہو بلکہ مقصد کے طور پر ہو یعنی جو کام خدائی مقصد کے تحت نہیں ہوگا اور اس کا ہدف خدا نہیں ہوگا وہ ابتر اور دم بریدہ ہوگا کیونکہ سارے مقاصد تو ختم ہوجاتے ہیں لیکن الٰہی مقاصد ختم ہونے والے نہیں ہوتے، مادی اہداف جب اپنے کمال کو پہنچ جائیں تو ختم ہوجاتے ہیں لیکن خدائی اہداف اس کی پاک ذات کی طرح دائمی اور جاوداں ہوتے ہیں ۔
د۔ کمزور سہارے: عام طور پر ہر شخص اپنی زندگی کی مشکلات میں کسی چیز کا سہارا لیتا ہے اور پناہ گاہ ڈھونڈتا ہے، کچھ لوگ اپنی دولت وثروت کو سہارا سمجھتے ہیں، کچھ مقام ومنصب کو، کچھ اپنی جسمانی طاقت کو اور بعض اپنی قوت فکر کو، لیکن جیسا کہ مندرجہ بالا آیات کہتی ہیں اور تاریخ نشاندہی کرتی ہے حکم خدا کے سامنے ان میں سے کسی چیز کی ذرہ برابر حیثیت نہیں ہے، ارادہ الٰہی کے سامنے ان میں سے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی جیسے تار عنکبوت شدیدآندھی میں فوراً درہم برہم ہوجاتی ہے ۔
پیغمبر خدا حضرت نوح (علیه السلام) کا نادان اور سرپھرا بیٹا بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھا، اس کا خیال تھا کہ خدا کے طوفان غضب کے مقابلے میں پہاڑ اسے پناہ دے گا لیکن یہ اس کا کتنا بڑا اشتباہ تھا، طوفان کی ایک لہر نے اس کا کام تمام کردیا اور اسے ملک عدم میں پہنچا دیا، یہی وجہ ہے کہ ہم بعض دعاؤں میں پڑھتے ہیں :
ھا رب منک الیک۔ (2)
میں تیرے غضب سے تیری طرف بھاگتاہوں ۔
یعنی اگر تیرے غضب کے مقابلے میں کوئی پناہ گا ہے تو وہ بھی تیری ذات پاک ہے اور بازگشت تیری ہی طرف ہے نہ کہ کسی اور کی طرف۔
ر۔کشتئی نجات: کشتئی نجات کے بغیرکسی طوفان سے نہین بچا جاسکتا، ضروری نہیں کہ وہ کشتی لکڑی اور لوہے کی بنی ہو بلکہ بعض اوقات یہ کشتی ایک کارساز، حیات بخش اور مثبت مکتب ومذہب ہوتا ہے جو انحرافی افکار کی طوفانی موجوں سے مقابلہ کرتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو ساحل نجات تک پہنچا دیتا ہے، اسی بنا پر شیعہ اور سنی کتب میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے جو روایات نقل ہوئی ہیں ان میں آپ کے خاندان یعنی ائمہ اہل بیت (علیه السلام) اور حاملین مکتب اسلام کا”کشتئی نجات“ کی حیثیت سے تعارف کروایا گیا ہے ۔
حنش بن مغیرہ کہتا ہے:
میں ابوذر کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس آیا ، ابوذر نے بیت اللہ کے دروازے کے حلقہ میں ہاتھ ڈالا اور بلند آواز سے کہا:
میں ابوذر ہوں جو شخص مجھے نہیں پہچانتا پہچان لے، میں وہی جندب ہوں (ابوذر کا اصلی نام جندب تھا)، میں رسول اللہ کا صحابی ہوں ، میں نے اپنے کان سے آپ کو کہتے ہوئے سنا کہ آپ فرما رہے تھے:
مثل اھل بیتی مثل سفینة نوح من رکبھا نجیٰ۔
یعنی ۔ میرت اہل بیت کی مثال کشتیٴ نوح کی سی ہے جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی ۔ (3)
حدیث کے دوسرے طرق میں اس جملے کا اضافہ ہوا ہے:
فمن تخلف عنھا غرق۔
اور جو اس سے دور رہا اور جس نے تخلف کیا وہ غرق ہوا ۔ (4)
بعض جگہ یہ جملہ بھی ہے:
من تخلف عنھا ھلک۔ (5)
یعنی ۔ جو اس سے دور رہا وہ ہلاک ہوا ۔
رسول خدا کی یہ حدیث صراحت سے کہتی ہے کہ جس وقت فکری، عقائدی اور معاشرتی طوفان اسلامی معاشرے کا رخ کریں تو ایسے میں واحد راہ نجات اس میں مکتب میں پناہ لینا ہے، اس مسئلے کو ہم نے ملت ایران کے عظیم الشان انقلاب میں اچھی طرح سے آزمایا ہے کہ غیر اسلامی مکاتب کے پیروکاروں نے طاغوت کے مقابلے میں شکست کھائی اور صرف وہی لوگ کامیاب ہوئے جنھوں نے پناہ گاہ اسلام اور اہل بیت (علیه السلام) کے مکتب اور ان کے انقلابی پروگراموں کو بنایا ۔

 

۴۴ وَقِیلَ یَااٴَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ وَیَاسَمَاءُ اٴَقْلِعِی وَغِیضَ الْمَاءُ وَقُضِیَ الْاٴَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیِّ وَقِیلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ۔
ترجمہ
۴۴۔اور کہا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان رک جا، اور پانی نیچے چلا گیا اور معاملہ ختم ہوگیا اور وہ (کشتی) جودی (پہاڑ کے دامن) میں ٹھہرگئی اور (اس وقت )کہا گیا: دور ہو ظالم قوم۔

 


1۔ سفینة البحار، ج۱، ص ۶۶۳۔
2۔ دعائے ابوحمزہ ثمالی ۔
3۔ ابن قیتبہ دینوری جو مشہور علماء اہل سنت میں سے ہیں انھوں نے یہ حدیث عیون الاخبار ، ج۱، ص ۲۱۱ پر لکھی ہے ۔
4۔ معجم الکبیر تالیف حافظ طبرانی، ص۱۳۰، (مخطوط)
5۔ یہ حدیث بہت سے علماء اہل سنت مثلا ًحاکم نیشاپوری نے مستدرک میں ، ابن منازلی نے مناقب امیرالمومنین میں، علامہ خوارزمی نے مقتل الحسین میں، حموینی نے فرائد المسلمین۰ میں اور دیگر بہت سے علماء نے اپنی کتب میں نقل کی ہے (مزید وضاحت کے لئے احقاق الحق ، ج۹، ص ۲۸۰، طبع جدید کی طرف رجوع فرمائیں ۔
۲۔ کیا نزول عذاب کے بعد توبہ ممکن ہے؟:ایک داستان کا اختتام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma