تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
فرعون کے ساتھ زبردست مقابلہسعادت مند وشقاوت مندیا مشکلات؟

اس سورہ کی آیات میں گذشتہ اقوام میں سے سات کی سرگزشت بیان کی گئی ہے اور کچھ حصّہ ان کے انبیاء کی تاریخ کا بھی بیان ہوا ہے، ان میں سے ہر سرگزشت بھرپور انسانی زندگی کے مختلف زاویوں کا اہم حصّہ واضح کرتی ہے اور ہر ایک میں عبرت کے بہت سے درس ہیں، یہاں ان تمام واقعات کی طرف مجموعی طور پر اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: یہ شہروں اور آبادیوں کے واقعات کا ایک حصّہ ہے کہ جو ہم تجھ سے بیان کررہے ہیں (ذٰلِکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الْقُریٰ نَقُصُّہُ عَلَیْکَ) ۔ وہی شہر اور آبادیاں جن کے کچھ حصّے ابھی قائم ہیں اور حصّے کشتِ زار کی طرح کٹ چکے ہیں اور تباہ ہوچکے ہیں (مِنْھَا قَائِمٌ وَحَصِیدٌ) ۔
”قَائِمٌ“ گزتہ اقوام کے ان شہروں اور آبادیوں کی طرف اشارہ ہے جو ابھی باقی ہیں، مثلاً سرزمینِ مصر کہ جہاں فرعونی رہا کرتے تھے اور یہ علاقہ اس ظالم قوم کے غرق ہوجانے کے بعد بھی اسی طرح باقی رہے، اس کے باغات، کھیت اور بہت سی خیرہ کن عمارتیں ابھی تک باقی ہیں ۔
”حَصِیدٌ“ کا معنی ہے ”کٹ جانے والی“ یہ ایسی سرزمینوں اور بستیوں کی طرف اشارہ ہے جو قومِ نوح اور قوم لوط کے علاقوں کی طرح ہیں کہ جن میں سے ایک بستی پانی میں غرق ہوگئی اور دوسری زیر وزبر ہوگئی اور ان پر سنگباری ہوئی ۔
لیکن یہ گمان نہ کرنا کہ ہم نے ان پر ظلم کیا ہے بلکہ انھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے (وَمَا ظَلَمْنَاھُمْ وَلَکِنْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَھُمْ) ۔
انھوں نے بتوں اور جھوٹے خداوٴں کی پناہ لی لیکن وج جن خداوٴں کو پروردگار کے مقابلے میں پکارتے تھے انھوں نے ان کی کوئی مشکل حل نہ کی (فَمَا اٴَغْنَتْ عَنْھُمْ آلِھَتُھُمْ الَّتِی یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ شَیْءٍ لَمَّا جَاءَ اٴَمْرُ رَبِّکَ) ۔
جی ہاں! ان مکار اور دھوکا باز خدداوٴں نے ان کے ضرر، نقصان، ہلاکت اور بدبختی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کیا (وَمَا زَادُوھُمْ غَیْرَ تَتْبِیبٍ)(۱) ۔
جی ہاں! تیرے پروردگار کی سزا ان شہروں اور آبادیوں کے لئے اسی طرح تھی جنھوں نے ظلم کیا کہ جب الله نے انھیں سپرد ہلاکت کیا (وَکَذٰلِکَ اٴَخْذُ رَبِّکَ إِذَا اٴَخَذَ الْقُریٰ وَھِیَ ظَالِمَةٌ) ۔ یقناً الله کی سزا اور عذاب دردناک اور شدید ہے (إِنَّ اٴَخْذَہُ اٴَلِیمٌ شَدِیدٌ) ۔
یہ خدا کا الیک عمومی قانون ہے، یہ ایک ہمیشگی مناسبت اور دائمی طریقہ ہے کہ جو قوم ملت اپنے ہاتھ آلودہٴ ظلم کرے، آلودہٴ ظلم کرے، خدائی فرامین کی سرحد سے تجاوز کرے اور انبیاء الٰہی کی رہبری، رہنمائی اور پند ونصائح کی پرواہ نہ کرے تو خدا آخرکار انھیں سختی سے جکڑلیتا ہے اور پنجہٴ عذاب میں پکڑ لیتا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مندرجہ بالا طریقہٴ کار ایک عمومی طرزِ عمل ہے اور دائمی سنت ہے، یہ سنت دیگر قرآن آیات سے بھی اچھی طرح معلوم ہوسکتی ہے، یہ حقیقت دراصل تمام اہلِ دنیا کو خبردار کرتی ہے کہ تم خیال نہ کرو کہ تم اس قانون سے مستثنیٰ ہو یا یہ کہ حکم گزشتہ اقوام کے ساتھ مخصوص تھا ۔
البتہ ”ظلم“ کے وسیع معنی میں تمام گناہ شامل ہیں ۔
نیز جو ”ھِیَ ظَالِمَة“ کہہ کر بستی، شہر اور ابادی کو ظالم کہا گیا ہے حالانکہ یہ صفت شہر اور آبادی کے ساکنوں سے مربوط ہے، یہ گویا اس لطیف نکتے کی پرطرف اشارہ ہے کہ وہ ظلم وستم اور بیدادگری میں اتے ڈوبے ہوئے ہیں کہ گویا شہر کا شہر ظلم وستم کا حصّہ بن گیاہے، یہ تعبیر فارسی زبان کی اس تعبیر سے ملتی ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ فلاں شہر کے در ودیوار سے ظلم برستا ہے، اور یہ چونکہ ایک عمومی قانون ہے اس لئے بلافاصلہ فرمایا گیا ہے: یہ عبرت انگیز سرگزشتیں اور دردناک شوم اور منحوس حوادث کہ جو گزشتہ لوگوں پر گزرے ہیں اِن میں اُن راہِ حق پانے والوں کے لئے نشانی ہے کہ عذاب آخرت کے مقابلے سے ڈرتے ہیں (إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ) ۔ کیونکہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی ہر چیز حقیر اور معمولی ہے یہاں تک کہ اس سزائیں اور عذاب بھی، دوسرا جہان ہر لحاظ سے وسیع تر ہے اور وہ لوگ جو قیامت پر ایمان رکھتے ہیں دنیا کے یہ نمونے دیکھ کر ہل جاتے ہیں، عبرت حاصل کرتے ہیں اور ان کے سامنے راستہ کھل جاتا ہے ۔
آیت کے آخر میں روزِ قیامت کے دو اوصاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ ایسا دن ہے کہ جس میں سب لوگ جمع ہوں گے (ذٰلِکَ یَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَہُ النَّاسُ) ۔ وہ ایسا دن ہے کہ جو تمام لوگوں کا مشہود ہے (وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَشْھُودٌ) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جیسے اس جہان میں خدائی قوانین وسنن عمومی اور سب کے لئے ہیں اُس عدالت میں بھی لوگوں کا اجتماع ہوگا، یہاں تک کہ ایک ہی وقت اور زمانے میں ہوگا، ایسا دن جو سب کے لئے واضح اور آشکار ہے، اس طرح کہ تمام انسان اس میں حاضر ہوں گے اور اسے دیکھیں گے ۔
یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ فرمایا گیا ہے: ”یَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَہُ النَّاسُ“ یعنی ایسا دن جس کے لئے لوگ جمع ہوں گے، یہ نہیں کہا کہ ”فیہ النَّاس“ یعنی اس میں لوگ جمع ہوں گے، یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کا دن صرف ایسا ظرف نہیں ہے کہ جس میں لوگ جمع ہوں گے بلکہ ایک ہدف اور مقصد ہے کہ جس کیں طرف انسان اپنے تکامل وارتقاء کے لئے بڑھیں گے ۔
سورہٴ تغابن کی آیت۹ میں بھی ہے:
<یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ
وہ دن کہ جو جمع کرنے اور اجتماع کا دن ہے، جو تم سب کو اکھٹا کرے گا اور وہ ایسا دن ہے کہ جس میں سب احساسِ زیاں کریں گے ۔
چونکہ ممکن ہے بعض لوگ کہیں کہ اس دن کے بارے میں گفتگو کرنا ادھار والی بات ہے، معلوم نہیں وہ کب آئے گا؟ لہٰذا قرآن بلافاصلہ کہتا ہے: اس دن کو ہم صرف ایک محدود زمانے کے لئے تاخیر میں ڈالیں گے (وَمَا نُؤَخِّرُہُ إِلاَّ لِاٴَجَلٍ مَعْدُودٍ) ۔
وہ بھی ایک مصلحت کے لئے جو واضح ہے تاکہ عالمِ دنیا کے لوگ آزمائش اور پرورش کے میدان دیکھ لیں اور انبیاء کا آخری پروگرام عمل شکل اختیار کرلے اور یہ جہان تکامل وارتقاء کے جس آخری سلسلے کی استعداد رکھتا ہے وہ ظاہر ہوجائے اور پھر اس جہان کے اختتام کا اعلان کیا جائے ۔
”معدود“ (یعنی شمار کیا ہوا)، یہ تعبیر قیامت کے نزدیک ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جوچیز قابلِ شمار اور گِنی جاسکے وہ محدود اور نزدیک ہے ۔
خلاصہ یہ کہ اس دن کی تاخیر ظالموں کو ہرگز مغرور نہ کردے کیونکہ اگرچہ دیر ہوجائے قیامت آکر رہے گی یہاں تک کہ اس کے لئے دیر سے آنے کی تعبیر بھی صحیح نہیں ہے ۔

 

۱۰۵ یَوْمَ یَاٴْتِ لَاتَکَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِہِ فَمِنْھُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ
۱۰۶ فَاٴَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِ لَھُمْ فِیھَا زَفِیرٌ وَشَھِیقٌ
۱۰۷ خَالِدِینَ فِیھَا مَا دَامَتْ السَّمَاوَاتُ وَالْاٴَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّکَ إِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِمَا یُرِیدُ
۱۰۸ وَاٴَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الْجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیھَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْاٴَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّکَ عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوذٍ

ترجمہ

۱۰۵۔ اور جس روز (قیامت آجائے گی، کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرے گا، ان میں سے ایک گروہ شقی ہے اور ایک گروہ سعادتمند (ایک گروہ بدبخت ہے اور ایک نیک بخت ہے)
۱۰۶۔ جو شقی ہیں وہ آگ میں ہیں اور ان کے لئے زفیر وشہیق (طویل اور دم گھٹنے والے نالے) ہیں ۔
۱۰۷ جب تک زمین وآسمان قائم ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، مگر جو کچھ تیرا پروردگار چاہے کیونکہ تیرا پروردگار جس چیز کا اراہ کرتا ہے اسے انجام دیتا ہے ۔
۱۰۸۔ لیکن جو سعادت مند ہیں وہ جب تک آسمان وزمین قائم ہیں ہمیشہ جنت میں رہیں گے مگر جو کچھ تیرا پرودگارچاہے، بخشش ہے منقطع نہ ہونے والی ۔

 

 


۱۔ ”تتبیب“ کا مادہ ”تب“ ہے اس کا معنی ہے نقصان اور خسارے میں استمرار، نیز یہ لفظ ہلاکت اور نابودی کے معنی میں بھی آیا ہے ۔

 

فرعون کے ساتھ زبردست مقابلہسعادت مند وشقاوت مندیا مشکلات؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma