قوم ثمود کی داستان شروع ہوتی ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۱۔ قوم عاد تاریخ کی نگاہ میںتفسیر

قوم عاد کے حالات اپنے تمام تر عبرت انگیزدرس کے ساتھ بطور اختصار تمام ہوئے، اب قوم ثمود کی باری ہے، تواریخ کے مطابق یہ قوم مدینہ اور شام کے درمیان وادی القریٰ میں رہتی تھی، یہاں ہم پھر دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید جب ان پیغمبر حضرت صالح (علیه السلام) کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو انھیں ”بھائی“ کے طور پر یاد کرتا ہے، یہ کتنی عمدہ، موثر اور خوبصورت تعبیر ہے، اس کے بعض مطالب ہم نے گزشتہ آیات کے ذیل میں اشارہ کیا ہے، دردِ دل رکھنے والا مہربان بھائی کہ جو خیر خواہی کے سوا کچھ نہیں چاہتا، ” ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا “(وَإِلیٰ ثَمُودَ اٴَخَاھُمْ صَالِحًا ) ۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت صالح (علیه السلام) کااصولی لائحہ عمل بھی دیگر انبیاء جیساہے، وہ لائحہ عمل جس کا آغاز توحید سے اور ہر قسم کے شرک اور بت پرستی کی نفی سے ہوتا ہے، وہ شرک اور بت پرستی جو انسان کی تمام مشکلات کا خمیر ہے ۔
اس نے کہا: اے میری قوم! خدا کی پرستش کرو کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں( قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ) ۔
اس کے بعد ان میں حق شناسی کی تحریک پیدا کرنے کے لئے انھیں پروردگار کی اہم نعمتیں کہ جو ان کے پورے وجود پر محیط ہیں کا ایک پہلو یاد دلایا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: وہ ایسی ذات ہے جس نے تمھیں زمین سے پیدا کیا ہے ( غَیْرُہُ ھُوَ اٴَنشَاٴَکُمْ مِنَ الْاٴَرْضِ) ۔
بے قدر وقیمت خاک کہاں اور یہ وجود عالی اور بدیع و عمدہ خلقت کہاں، کیا کوئی عقل اجازت دیتی ہے کہ انسان ایسے خالق وپروردگار کو جو یہ قدرت رکھتا ہے اور جس نے یہ نعمت بخشی ہے اسے چھوڑ کر ان تمسخر آمیز بتوں کے پیچھے جائے ۔
نعمت خلقت کی طرف اشارہ کرنے بعد زمین میں موجود دوسری نعمت سرکش یاد دلائی گئی ہیں وہ ایسی ذات ہے جس نے زمین کی تعمیر اور آباد کاری تمھارے سپرد کی ہے اور اس کے وسائل اور ذرائع تمھیں بخشے ہیں ( وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیھَا) ۔
لفظ”استعمار“ اور ”اعمار“ لغت عرب میں در اصل زمین کی آباد کاری کسی کو سپرد کردینے کے معنی میں ہے اور یہ بات طبیعی و فطری ہے کہ اس کا لازمہ ہے کہ ضروری وسایل بھی اسے مہیا کئے جائیں، یہ وہ چیز ہے کہ جو ارباب لغت مثلا ًراغب نے مفردات اور دوسرے بہت سے مفسرین نے مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں کہی ہے ۔
آیت کے معنی میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ خدا نے نے تمھیں طولانی عمر دی ہے، البتہ متون لغت کی طرف توجہ کرتے ہوئے پہلا معنی زیادہ صحیح نظر آتا ہے ۔
بہرحال یہ امر دونوں معانی کے لحاظ سے قوم ثمود کے بارے میں صادق آتا ہے کیونکہ ان کی آباد اور سرسبز وشاداب زمین اور پر نعمت باغات بھی تھے، یہ لوگ زراعت میں نئی نئی ایجادات کرتے تھے اور بہت محنت صرف کرتے تھے، علاوہ ازیں ان کی عمریں لمبی اور قوی جسم تھے، مضبوط عمارتیں بنانے میں بھی انھوں نے بیت ترقی کی تھی جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
وَکَانُوا یَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا آمِنِینَ۔
پہاڑوں کے وسط میں پر امن گھر بناتے تھے ، (حجر:۸۲)
یہ بات قابل توجہ ہے کہ خدا یہ نہیں کہتا کہ خدا نے زمین کو آباد کیا اور تمھارے اختیار میں دے دیا بلکہ کہتا ہے کہ زمین کی آبادی اور تعمیر تمھارے سپرد کردی، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وسائل وذرائع ہر لحاظ سے مہیا ہے لیکن تمھیں کام اور کوشش کرکے زمین کو آباد کرنا ہے اور اس کے منابع اور ذرائع اپنے ہاتھ میں کرنا ہے اور کوشش کئی بغیر تمھیں اپنا حصہ نہیں مل سکتا ۔
اس حقیقت کے ضمن میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک قوم اور ملت کو آباد کاری کا موقع ملنا چاہیئے، کام اس کے سپرد کیا جانا چاہیئے اور ضروری وسائل اور سازوسامان اس کے اختیار میں دیا جانا چاہیئے ۔
”اب جب ایسا ہے تو اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور خدا کی طرف رجوع کرو اور پلٹ آؤ کہ میرا پروردگار اپنے بندوں کے قریب ہے اور ان کی درخواست قبول کرتا ہے (فاستغفرُوہُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْہِ إِنَّ رَبِّی قَرِیبٌ مُجِیبٌ) ۔
قرآن اور ہمارے زمانے کا استعمار
جیسا کہ ہم نے مندرجہ بالا آیات میں دیکھا ہے کہ خدا کے پیغمبرحضرت صالح (علیه السلام) اپنی گمراہ قوم کی تربیت مکمل کرنے کے لئے ان سے خاک سے انسان کی عظیم خلقت اور زمین کی آباد کاری کے لئے اس کے وسائل وذخائرا سے سپرد کئے جانے کے بارے میں گفتگو کی ہے، یہ لفظ استعمار اگرچہ مفہوم کے اعتبار سے ایک خاص زیبائی اور کشش رکھتا ہے، اس میں تعمیر وآبادکاری کا مفہوم بھی مضمر ہے، تفویض اختیارات کا بھی اور وسائل و ذرایع مہیا ہونے کا بھی لیکن ہمارے زمانے میں اس لفظ کا مفہوم اس طرح سے مسخ ہوگیا ہے اور قرآنی مفہوم کے بالکل الٹ ہوگیا ہے ۔
لفظ”استعمار“ ہی نہیں جو اس منحوس انجام کو پہنچنا ہے بہت سے کلمات چاہے وہ فارسی کے ہوں یا عربی کے یا دوسری زبانوں کے ہم دیکھتے ہیں کہ اسی طرح مسخ، تحریف اور تضاد کا شکار ہوگئے ہیں ، عربی زبان کے الفاظ ”حضارت “ ،”ثقافت “ اور ”حرےت“ اور فارسی زبان میں ”تمدن“ ”روشن فکری“،” آزادی “ ”آزادگی“ ”ہنر“ اور ”ہنر مندی “ اس قسم کی مثالیں ہیں ، ان تحریفوں کے نتیجے میں خود فراموشی ، مادہ پرستی، فکری غلامی، انکار حقیقت اور ہر قسم کا پھیلاؤ، عجلت پسندی اور بے توجہی جنم لیتی ہے ۔
بہرحال ہمارے زمانے میں استعمار کا حقیقی مفہوم بڑی سیاسی وصنعتی طاقتوں اور سوپر طاقتوں کا مستضعف اور کمزور قوتوں پر غلبہ ہے جس کا ماحول یہ ہے کہ استعماری طاقتیں مستضعف اور کمزور قوتوں کے ہاں لوٹ مار کرتی ہیں، انھیں غارت کرتی ہیں، ان کا خون چوستی ہیں اور ان کی زندگی کے وسائل غصب کرتی ہیں ۔
استعمار کی کئی روپ ہیں، کبھی یہ ثقافت وتہذیب کا روپ دھار لیتا ہے، کبھی فکری ونظری حوالے سے استحصال کرتا ہے، کبھی اقتصادی، کبھی سیاسی اور کبھی فوجی حوالے سے سامنے آتا ہے، یہ استعمار ہی ہے جس نے ہماری آج کی دنیا کا چہرہ تاریک کردیا ہے، آج کی دنیا میں ہر چیز پر اقلیت کا قبضہ ہے اوربہت بڑی اکثریت تمام چیزوں سے محروم ہے، یہ استعمار ہی جنگوں، ویرانیوں، تباہ کاریوں اور اسلحہ کی کمر شکن دوڈکا سرچشمہ ہے ۔
جو لفظ قرآن نے اس مفہوم کے لئے استعمال کیا ہے وہ ”استضعاف“ ہے کہ جو ٹھیک اس معنی کا سانچہ ہے یعنی ضعیف کرنا، اس لفظ کے وسیع مفہوم میں فکری، سیاسی، اقتصادی اور دیگر حوالوں سے کمزور اور ضعیف کرنا شامل ہے ۔
ہمارے زمانے میں استعمار کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ خود لفظ استعمار بھی استعماری ہوگیا ہے کیونکہ اس کا لغوی مفہوم باکل الٹ گیا ہے ۔
بہرحال استعمار کے حوالے سے ایک غم انگیزطویل داستان وجود میں آئی ہے، کہا جاسکتا ہے کہ اس داستان میں پوری انسانی تاریخ سمائی ہوئی ہے، اگرچہ استعمار ہمیشہ چہرہ بدلتا رہتا ہے لیکن صحیح طور پر معلوم نہیں کہ انسانی معاشرے میں سے کب اس کی ریشہ کنی ہوگی اور کب انسانی زندگی باہمی تعاون واحترام اور اصول امداد باہمی کہ بنیاد پر استوار ہوگی تاکہ تمام میدانوں میں انسانی پیشرفت کا عمل شروع ہوسکے ۔

۶۲قَالُوا یَاصَالِحُ قَدْ کُنتَ فِینَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَا اٴَتَنْھَانَا اٴَنْ نَعْبُدَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِی شَکٍّ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَیْہِ مُرِیبٍ۔
۶۳ قَالَ یَاقَوْمِ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ کُنتُ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَآتَانِی مِنْہُ رَحْمَةً فَمَنْ یَنصُرُنِی مِنْ اللهِ إِنْ عَصَیْتُہُ فَمَا تَزِیدُونَنِی غَیْرَ تَخْسِیرٍ۔
۶۴ وَیَاقَوْمِ ھٰذِہِ نَاقَةُ اللهِ لَکُمْ آیَةً فَذَرُوھَا تَاٴْکُلْ فِی اٴَرْضِ اللهِ وَلَاتَمَسُّوھَا بِسُوءٍ فَیَاٴْخُذَکُمْ عَذَابٌ قَرِیبٌ۔
۶۵ فَعَقَرُوھَا فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَةَ اٴَیَّامٍ ذٰلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوبٍ۔
ترجمہ
۶۲۔انھوں نے کہا:اے صالح(علیه السلام)! اس سے پہلے تو ہماری امید کا سرمایہ تھا، کیا تو ہمیں ان کی پرستش سے روکتا ہے جن کی ہمارے آباؤ واجداد پرستش کرتے تھے اور ہمیں اس چیز کے بارے میں شک ہے جس کی طرف تو دعوت دیتا ہے ۔
۶۳۔اس نے کہا: اے میری قوم! کیا میں اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس کی رحمت بھی میرے شامل حال ہو ( تو میں اس کی پیغام رسانی سے روگردانی کرسکتا ہوں)؟ اگر میں اس کی نافرمانی کروں تواس کے مقابلے میں کون میری مدد کرسکتا ہے، لہٰذا تمہاری باتیں سوائے تمھارے زیاں کارہونے کے بارے میں میرے اطمینان کے میرے لئے اور کوئی اضافہ نہیں کرتیں ۔
۶۴۔اے میری قوم!، یہ ناقہ خدا جو تمھارے لئے دلیل اور نشانی ہے، اسے چھوڑ دو کہ کدا کی زمین میں چرنے میں مشغول رہے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ ورنہ بہت جلدی خدا کا عذاب گھیر لے گا ۔
۶۵۔ (لیکن)انھوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں اور اس نے ان سے کہا (تمہاری مہلت کا وقت ختم ہوگیا ہے) تین دن تک اپنے گھروں میں فائدہ اٹھالو (اس کے بعد خدائی عذاب آجائے گا)یہ ایسا وعدہ ہے کہ جس میں جھوٹ نہیں ہوگا ۔

 

۱۔ قوم عاد تاریخ کی نگاہ میںتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma