چند ضروری امور

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
چند قابل توجّہ نکاتیہ داستان، ”احسن القصص“ ہے

اس سورہ کی تفسیر شروع کرنے پہلے چند امور کا ذکر ضروری ہے:

۱۔ یہ سورہ کہاں نازل ہوئی؟

اس بارے میں یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی مفسرین میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ صرف ابن عباس سے منقول ہے کہ اس کی چار آیات (پہلی تین آیات اور ایک ساتویں آیت) مدینہ میں نازل ہوئیں ۔
لیکن دوسری آیات سے ان آیات کے ربط پر غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انھیں دیگر آیات سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ اس بناء پر ان چار آیات کے مدینہ میں نازل ہونے کا احتمال بہت ہی ضعیف ہے ۔

۲۔ سورہ کا مضمون:

اس سورہ کی چند آخری آیات کے سوا تمام آیات خدا کے پیغمبر حضرت یوسف کے نام سے موسوم ہے ۔نیز اسی بناء پر قرآن مجید میں جو مجموعتاً حضرت یوسف (علیه السلام) کا نام ۲۷ مرتبہ آیا ہے اس میں سے ۲۵ مرتبہ اسی سورة میں ذکر ہوا ہے ۔ صرف دو مواقع پر دیگر سورتوں (سورہ غافر آیہ ۳۴ اور سورہٴ انعام آیہ ۸۴) میں آپ کا نام آیا ہے ۔
قرآن کی دیگر سورتوں کے برعکس اس سورہ کا پورا مضمون ایک دوسرے سے مربوط اور ایک واقعہ کے نشیب و فراز سے متعلق ہے ۔ دس سے زیادہ حصوں میں بیان ہونے والی یہ داستان نہایت واضح، جاذب، جچی تُلی، عمیق اور ہیجان خیز ہے ۔
بے ہدف داستان پردرازوں نے یاپست اور غلیظ مقاصد رکھنے والوں نے اس اصلاح کنندہ واقعہ کو ہوس بازوں کے لیے ایک عشقیہ داستان بنانے اور حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے واقعات کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہاں تک کہ انھوں نے اسے ایک رومانی فلم بنا کر پردہ سیمیں پر پیش کرنا چاہا ہے، لیکن قرآن کہ جس کی ہر چیز نمونہ اور اسوہ ہے اس واقعے کے مختلف مناظر پیش کرتے ہوئے اعلیٰ ترین عفت و پاکدامنی ،خودداری، تقویٰ، ایمان اور ضبط نفس کے درس دیئے ہیں ۔ اس طرح سے کہ ایک شخص اسے جتنی مرتبہ بھی پڑھے ان قوی جذبوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
اسی بناء پر قرآن نے اسے ”احسن القصص“ (بہترین داستان) جیسا خوبصورت نام دیا ہے اور اس میں اولوا الالباب (صاحبان فکر و نظر) کے لیے کئی عبرتیں بیان کی ہیں ۔

۳۔ یہ سورہ قرآن کا ایک اور اعجاز:

اس سورہ کی آیات میں غور و فکر سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قرآن تمام پہلوؤں سے معجزہ ہے اور اپنے واقعات میں جو ہیر و پیش کرتا ہے وہ حقیقی ہیر و ہوتے ہیں نہ کہ خیالی ۔ کہ جن میں سے ہر ایک اپنی نوعیت کے اعتبار سے بے نظیر ہوتا ہے ۔
حضرت ابراہیم (علیه السلام):
وہ بت شکن ہیرو، جن کی روح بلند تھی او جو طاغوتیوں کی کسی سازش میں نہ آئے ۔
حضرت نوح (علیه السلام):
طویل اور پر برکت عمر میں ۔ صبرو استقامت ، پامردی اور دلسوزی کے ہیرو۔
حضرت موسیٰ (علیه السلام):
وہ ہیرو کہ جنھوں نے ایک سرکش اور عصیان گر طاغوت کے مقابلے کے لیے ایک ہٹ دھرم قوم کو تیار کرلیا ۔
حضرت یوسف (علیه السلام):
ایک خوبصورت، ہوس باز اور حیلہ گر عورت کے مقابلے میں پاکیزگی، پارسائی اور توقویٰ کے ہیرو۔
علاوہ ازیں اس واقعے میں قرآنی وحی کی قدرت بیان اس طرح جھلکتی ہے کہ انسان حیرت زدہ ہوجاتا ہے کیونکہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کئی مواقع پر یہ واقعہ عشق کے بہت ہی باریک مسائل تک جاپہنچتا ہے اور قرآن انھیں چھوڑا کر ایک طرف سے گزرے بغیر ان تمام مناظر کو ان کی باریکیوں کے ساتھ اس طرح سے بیاں کرتا ہے کہ سامع میں ذرہ بھر منفی اور غیر مطلوب احساس پیدا نہیں ہوتا ۔ قرآن تمام واقعات کے متن سے گزرتا ہے لیکن تمام مقامات پر تقویٰ و پاکیزگی کی قوی قوی شعاعوں نے مباحث کا احاطہ کیا ہوا ہے ۔

۴۔حضرت یوسف (علیه السلام) کا واقعہ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد:

اس میں شک نہیں کہ قبل از اسلام بھی داستان یوسف لوگوں میں مشہور تھی کیونکہ تورات میں سفر پیدائش کی چودہ فصلوں (فصل ۳۷ تا ۵۰) میں یہ واقعہ تفصیل سے مذکور ہے، البتہ ان چودہ فصلوں کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ تورات میں جو کچھ ہے وہ قرآن سے بہت ہی مختلف ہے، ان اختلاات کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ قرآن میں آیا ہے وہ کس حد تک پیراستہ اور ہر قسم کے خرافات سے پاک ہے، یہ جو قرآن پیغمبر سے کہتا ہے:”اس سے پہلے تو غافل تھا“ اس عبرت انگیز داستان کی خالص واقعیت سے ان کی عدم آگہی کی طرف اشارہ ہے (اگر احسن القصص سے مراد واقعہٴ یوسف ہو) ۔
موجودہ تورات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب حضرت یوسف علیہ السلام کی خون آلود قمیص دیکھی تو کہا: یہ میرے بیٹے کی قبا ہے جسے جانور نے کھالیا ہے، یقیناً یوسف چیر پھاڑ ڈالا گیا ہے ۔
پھر یعقوب نے اپنا گریبان چاک کیا، ٹاٹ اپنی کمر سے باندھا اور مدیِ دراز تک اپنے بیٹے کے لئے گریہ کرتے رہے، تمام بیٹوں اور بیٹیوں نے انھیں تسلی دینے میں کسر اٹھا نہ رکھی لیکن انھیں قرار نہ آیا اور کہا کہ مَیں اپنے بیٹے کے ساتھ اسی طرح غمزدہ قبر میں جاوٴں گا ۔
جبکہ قرآن کہتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام فراست سے بیٹوں کے جھوٹ کو بھانپ گئے اور انھوں نے اس معصیت میں داد وفریاد نہیں کی اور نہ اضطراب دکھایا جیسا کہ انبیاء کی سنت ہے اس مصیبت کا بڑے صبر سے سامنا کیا، اگرچہ ان کا دل جل رہا ہے، آنکھیں اشکبار تھیں، فطری طور پر کثرتِ گریہ سے ان کی بینائی جاتی رہی، لیکن قرآن کی تعبیر کے مطابق انھوں نے صبرِ جمیل کا مظاہرہ کیا اور اپنے اوپر قابو رکھا (کظیم) ۔ انھوں نے گریبان چاک کرنے، داد وفریاد کرنے اور پھٹے پرانے کپڑے پہننے سے گریز سے کیا جوکہ عزاداری کی مخصوص علامات تھیں ۔
بہرحال اسلام کے بعد بھی یہ واقعہ مشرق و ومغرب کے موٴرخین کی تحریروں میں بعض اوقات حاشیہ آرائی کے آیا ہے، فارسی اشعار میں سب سے پہلے ”یوسف وزلیخا“ ہے اور اس کے بعد نویں صدی کے مشہور اعر عبدالرحمٰن جامی کی ”یوسف زلیخا“ ہے ۔ (1)

۵۔ داستانِ یوسف ایک ہی جگہ کیوں بیان ہوئی؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیگر انبیاء کے واقعات کے برعکس حضورت یوسف کا واقعہ ایک ہی جگہ بیان ہوا ہے جبکہ اس کے برعکس باقی انبیاء کے حالاتِ زندگی علیحدہ علیحدہ حصّوں کی شکل میں قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔
یہ خصوصیت اس بناپر ہے کہ اس واقعے کی کڑیاں خاص وضع وکیفیت کے باوجود اگر ایک دوسرے سے جُدا ہوجائیں تو ان کا باہمی ربط ختم ہوجاتا ہے، مکمل نتیجہ اخذ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سارا واقعہ ایک ہی جگہ ذکر ہو، مثلاً حضرت یوسف کے خواب کا آخری حصّہ بیان نہ کیا جائے تو اس پہلے حصّے کا کوئی مفہوم نہیں بنتا، یہی وجہ ہے کہ سورہ کے آخر میں ہے کہ جس وقت حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کے بھائی مصر میں آئے اور ان کے باعظمت مقام کے سامنے جھک گئے تو حضرت یوسف نے اپنے والد گرامی کی طرف رخ کرکے کہا:
<یَااٴَبَتِ ھٰذَا تَاٴْوِیلُ رُؤْیَای مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّی حَقًّا
اے میرے پدر بزرگوار! یہ ہے میرے خواب کی تعبیر کہ جو مَیں نے ابتداء میں دیکھا تھا، خدا نے اسے سچ کردکھایا ہے ۔ (یوسف/۱۰۰)
یہ مثال اس وقعہ کے آغاز واختتام کے درمیان نہ ٹوٹنے والے تعلقات کو واضح کرتی ہے، جبکہ ددسرے انبیاء کے واقعات اس طرح نہیں ہیں اور ان کے واقعات کا ہر حصّہ الگ نتیجہ رکھتا ہے ۔
اور ایک خصوصیت اس سورہ کی یہ ہے کہ قرآن مجید میں دیگر انبیاء کے حالات وواقعات آئے ہیں عام عام طور ان پر ان میں سرکش اقوام کے ساتھ ان کے مقابلوں کی تفصیل ہے کہ جن میں آخرکار ایک گروہ ایمان لے آتا ہے اور دوسرا اپنی مخالفت عذاب الٰہی سے نابود ہوجانے تک جاری رکھتا ہے لیکن داستان یوسف میں اس سلسلے میں بات نہیں کی گئی بلکہ زیادہ تر خود حضرت یوسف کی زندگی کے بارے میں ہے اور زندگی کی سخت وادیوں سے ان کے گزرنے کی داستان ہے کہ جس میں آخرکار انھیں ایک طاقتور حکومت حاصل ہوجاتی ہے اور یہ واقعہ اپنی مثال آپ ہے ۔

۶۔ سورہٴ یوسف کی فضیلت:

اسلامی روایات میں اس سورہ کی فضیلت کے بارے میں مختلف فضائل مذکور ہیں، ان میں سے ایک حدیث حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:
من قرء سورة یوسف فی کل یوم اٴوفی کل لیلة بعثہ الله یوم القیامة وجمالہ مثل مال یوسف ولایصیبہ فزع یوم القیامة وکان من خیار عباد الله الصالحین.
جو شخص ہر روز یہ ہر سب سورہٴ یوسف کی تلاوت کرے گا، خدا اسے روزِ قیامت اس حالت میں اٹھائے گا کہ اس کا حُسن وجمال حضرت یوسف علیہ السلام کا سا ہوگا اور اسے روزِ قیامت کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور وہ خدا کے بہترین صالح اور نیک بندوں میں سے ہوگا ۔ (2)
ہم نے بارہا کہا ہے کہ قرآن کی سورتوں کی فضیلت میں جو روایات آئی ہیں ان کا مطلب سطحی مطالعہ نہیں ہے اور ان کا مقصد یہ نہیں کہ بغیر غوروفکر اور بغیر عمل کے پڑھا جائے بلکہ ان سے مراد ایسی تلاوت ہے کہ جو وفکر کی تمہید ہے اور ایسا غور وفکر کہ جو عمل کا سرآغاز ہے ۔
اس سورہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی سزندگی کا طرزِ عمل اس سورہ کی روشنی میں مرتب کرے اور ہوا وہوس، مال ومنال، جاہ وجلال اور مقام ومنصب کے شدید طوفانوں کے مقابلے میں اپنے آپ پر قابو رکھے، یہاں تک کہ زندان کی تاریکیوں میں پاکدامنی محفوظ رکھنے کو برائی سے آلودہ قصرِ شاہی پر مقدم رکھے تو ایسے شخص کے قلب وروح کا حُسن وجمال حضرت یوسف کے حُسن وجمال کی طرح ہے اور قیامت کے دن کہ جب اندر کی ہر چیز نمایاں ہوجائے گی وہ خیرہ کن زیبائی حاصل کرے گا اور خدا کے صالح اور نیک بندوں کی صف میں شامل ہوگا ۔
اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ چند ایک روایات میں عورتوں کو اس سورہ کی تعلیم دینے سے منع کیا گیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عزیر مصر کی بیوی اور مصر کی ہوس باز عورتوں سے مربوط آیات اگرچہ پورے عفتِ بیان کے ساتھ ہیں مگر ہوسکتا ہے بعض عورتوں کے لئے تحریک کا باعث ہوں اور اس کے برعکس تاکید کی گئی ہے کہ عورتوں کو سورہٴ نور کی تعلیم دی جائے کہ جس میں حاب کے بارے میں آیات ہیں ۔
لیکن ان روایات کی اسناد ہرگز قابلِ اعتماد نہیں ہیں جبکہ اس برعکس روایات بھی موجود ہیں کہ جن میں گھروالوں کو اس سورہٴ کی تعلیم دینے کا شوق دلایا گیا ہے ۔
علاوہ ازیں اس سورہ میں غور وخوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نہ صرف یہ کہ عورتوں کے لئے کوئی نقطہٴ ضعف موجود نہیں ہے بلکہ عزیزِ مصر کی بیوی کا واقعہ ان سب کے لئے درسِ عبرت ہے کہ جو شیطانی وسوسوں میں گرفتار ہوتی ہیں ۔

 

سورہٴ یوسف
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
۱ الٓر تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ
۲ إِنَّا اٴَنزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ
۳ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اٴَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ کُنتَ مِنْ قَبْلِہِ لَمِنَ الْغَافِلِینَ

ترجمہ

خدا کے نام سے جو بخشنے والا مہربان ہے ۔
۱۔ الٓر وہ واضح کتاب کی آیات ہیں ۔
۲۔ ہم نے اس پر عربی قرآن نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھو (اور غور وفکر کرو) ۔
۳۔ ہم ننے تیرے سامنے بہترین واقعہ بیان کیا ہے، تجھ پر اس قرآن کی وحی کرکے، اگرچہ اس سے پہلے تُو غافلین میں سے تھا ۔

 


1۔ کشف الظنون: حاج خلیفہ، ج۲، ص۶۶۱.
2۔ مجمع البیان، محل بحث سورہ کے ضمن میں.

 

چند قابل توجّہ نکاتیہ داستان، ”احسن القصص“ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma