۶۔ پورا قرآن، دس سورتیں یا ایک سورت :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۵۔ قرآن کا چیلنج۷۔ ”إِنْ لَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکُمْ“ کے مخاطب:

جیسا کہ ہم جانتے ہیں ، قرآن مجید نے ایک جگہ مخالفین کو قرآن کی مثلا لانے کی دعوت دی ہے (بنی اسرائیل/۸۸) اور دوسری جگہ قران جیسی سورتیں لانے کے لئے کہا ہے (مثلاً محلِ بحث آیات ) اور ایک اور جگہ قرآن کی ایک سورت جیسی سورت لانے کا کہا ہے (بقرہ/۲۳) اس بناء پر بعض مفسّرین نے یہ بحث کی ہے کہ چیلنج اور مقابلے کی اس دعوت میں اتنا فرق کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب میں مختلف راستے اختیار کئے گئے ہیں:
الف) بعض کا نظریہ ہے کہ یہ فرق اوپر کے مرحلہ سے نیچے کی طرف تنزل کی مانند ہ، جیسے ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے کہ تم بھی اگر میری طرح فنِ تحریر اور شعر گوئی میں مہارت رکھتے ہو تو میری کتاب جیسی کتاب لکھ کر دکھاوٴ، پھر کہتا ہے اس کے ایک باب جیسی تحریر پیش کردو حتّی کہ ایک صفحہ ہی لکھ کر دکھا دو ۔
البتہ یہ جواب اس صورت میں صحیح ہے کہ سورہٴ بنی اسرائیل ، سورہٴ ہود، سورہٴ یونس اور سورہٴ بقرہ اسی ترتیب سے نازل ہوئی ہوں اور ”تاریخ القرآن“ میں فہرست ”ابنِ ندیم “ سے جو ترتیب نقل ہوئی ہے یہ بات اس سے مناسبت رکھتی ہے کیونکہ اس کے مطابق رسول الله پر نزول کے اعتبار سے سورہٴ بنی اسرائیل کا نمبر ۴۸ ہے ، ہود کا نمبر۵۹، یونس کا نمبر ۵۱ اور بقرہ کا نمبر ۹۹ ہے ۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ بات مشہور ترتیب سے مناسبت نہیں رکھتی جو مندرجہ بالا سورتوں کے متعلق اسلامی تفاسیر میں بیان کی گئی ہے
ب) بعض نے کہا ہے کہ اگرچہ یہ سورتیں ترتیبِ نزول کے اعتبار سے نیچے کی طرف تنزل کے معاملے پر منطبق نہیں ہوتیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایک سورت کی تمام آیتیں ایک ہی مرتبہ نازل نہیں ہوجاتی تھیں، بلکہ بہت سی آیات ایسی ہوتیں جو بعد میں نازل ہوتیں اور رسول الله کے حکم سے پانی مناسبات کی وجہ سے قبل کی سورت میں قرار پاتیں، زیرِ بحث معاملے میں بھی ممکن ہے ایسا ہی ہُوا ہو لہٰذا مندرجہ بالا سورتوں کی تاریخِ نزول اس بات کے منافی نہیں ہے کہ یہاں اوپر سے نیچے کی طرف تنزل کا معاملہ ہو۔
ج) اس سوال کے جواب میں ایک اور احتمال بھی ہے اور وہ یہ کہ اصولاً ”قرآن“ ایک ایسا لفظ ہے جو پورے قرآن کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور قرآن کے کچھ حصّے پر بھی، مثلاً سورہٴ جن کی ابتدا میں ہے:
<اِنَّا سَمعْنَا قُرْآناً عَجَباً
ہم نے عجیب قرآن سنا ہے ۔
واضح رہے انھوں نے قرآن کا کچھ حصّہ ہی سنا تا ۔
اصول طور پر قرآن مادہ ”قرائت“ سے ہے اور ہم جانتے ہیں کہ قرائت وتلاوت پور ے قرآن پر بھی صادق آتی ہے اور جزوِ قرآن پر بھی لہٰذا مثلِ قرآن لانے کے چیلنج کا مفہوم تمام قرآن نہیں ہے بلکہ یہ دس سورتوں کے لئے بھی ٹھیک ہے اور ایک سورت کے لئے بھی درست ہے ۔
دوسری طرف ”سورہ“ بھی ”مجموعہ“ اور ”محدودہ“ کے معنی میں ہے اور یہ لفظ آیات کے کسی بھی مجموعہ پر منطبق ہوجاتا ہے اگر عام اصطلاح میں جسے مکمل سورہ کہتے ہی یہ اس کے برابر بھی نہ ہو۔
دوسرے لفظوں میں ”سورہ“ دومعنوں میں استعمال ہوتاہے ، ایک معنی آیات کاوہ مجموعہ ہے جس کا ایک معیّن مقصد ہو اور دوسرا معنی ایک مکمل سورہ ہے جو بسم الله سے شروع ہوکر بعد والی سورت کی بسم الله سے پہلے ختم ہوجائے، اس بات کی شاہد ”توبہ “ کی آیت ۸۶ ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
<وَإِذَا اٴُنزِلَتْ سُورَةٌ اٴَنْ آمِنُوا بِاللهِ وَجَاھِدُوا مَعَ رَسُولِہِ....
جس وقت کوئی سورت نازل ہوتی ہے کہ خدا پر ایمان لاوٴ اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو....
واضح ہے کہ یہاں سورہ سے مراد وہ آیات ہیں جو خدا پر ایمان اور جہادکے مذکورہ مقصد کے بارے میں ہیں اگرچہ وہ ایک مکمل سورت کا ایک حصّہ ہی ہوں ۔
مفردات میں راغب نے بھی سورہ نور کی پہلی آیت ”سورة انزلناھ...“ کی تفسیر میں کہا ہے:
اٴیّ جملة من الاحکام والحکم....
جیسا کہ ہم دیکھ رہے یہاں سورت کو احکام کا ایک مجموعہ قرار دیا گیا ہے ۔
اس گفتگو کے پیش نظر قرآن، سورت اور دس سورتوں میں لغوی مفہوم کے لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں رہتا یعنی ان تمام الفاظ کا اطلاق قرآن مجیدکی چند آیتوں پر ہوسکتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن چیلنج ایک لفظ اور ایک جملے کے لئے نہیں کہ کوئی دعویٰ کرے کہ مَیں آیہٴ ”والضحیٰ“ اور آیہٴ ”مدھامتان“ یا قرآن کے کسی سادہ جملے کی مثل لاسکتا ہوں بلکہ تمام جگہوں پر آیات کے ایک ایسے مجموعے کے بارے میں جس کا ایک خاص ہدف اور مقصد ہو (غور کیجئے گا)

۵۔ قرآن کا چیلنج۷۔ ”إِنْ لَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکُمْ“ کے مخاطب:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma