مندرجہ بالا آیات میں دوبارہ اعجازِ قرآن کے بارے میں تاکید کی گئی ہے کہ یہ کوئی عام سی گفتگو نہیں ہے اور نہ یہ انسانی ذہن کی اختراع ہے بلکہ آسمانی وحی ہے جس کا سرچشمہ خدا کا بے پایاں اور لامتناہی علم اور قدرت ہے اسی بناپر پوری دنیا کوچیلنج کیا گیا ہے جس اور مقابلے کی دعوت دی گئی ہے اور اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ رسول الله کے ہمعصر بلکہ وہ قومیں جو آج تک اس کام میں لگی ہوئی ہیں ایسا کرنے سے عاجز ہیں، یہ قومیں دیگر تمام تر مشکلات تو جھیلنے کو تیار ہیں لیکن آیاتِ قرآن کامقابلہ کرنے کی طرف نہیں آتیں، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایسا کام انسان کے بس میں نہ تھا ور نہ ہوسکتا ہے، تو کیا معجزہ اس کے علاوہ کسی چیز کا نام ہے ۔
قرآن میں یہ آواز آج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے، یہ معجزہٴ جاوید آج بھی اسی طرح عالمین اور ساری کائنات کو اپنی طرف دعوت دے رہا ہے اور دنیا کے تمام علمی مراکز کو چیلنج کررہا ہے، اس کا یہ چیلنج نہ صرف فضاحت وبلاغت یعنی عبارات کی شیرینی وجاذیب اور مفاہیم کی رسائی کے لحاظ سے ہے بلکہ :
، اس کے مضامین کے اعتبار سے بھی,
، ان علوم کے لحاظ بھی جو اُس زمانے کے انسانوں سے پنہاں تھے،
، قوانین واحکام کے حوالے سے بھی جو بشریت کی سعادت ونجات کے ضامن ہیں،
، بیانات کے حوالے سے بھی جو ہر قسم کے تناقض اور پراگندگی سے پاک ہیں،
، تواریخ کے اعتبار سے سے جو خرافات سے مبرّا ہیں اور
، اسی طرح تمام حوالوں سے اس کا یہ چیلنج ہے ۔
تفسیر نمونہ جلد اوّل سورہٴ بقرہ کی آیات ۲۳ اور ۲۴ کی تفسیر کے ذیل میں ہم اعجاز قرآن کے بارے میں تفصیل سے بحث کرچکے ہیں ۔