تقسیمِ رزق اور زندگی کے لئے سعی وکوشش

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
چند اہم نکاتمقصدِ خلقت

رزق کے بارے میں بہت سی اہم بحثیں موجود ہیں جن میں سے ایک کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
۱۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے” رزق کے لغوی معنی استمراری اور دائمی بخشش کے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ مادّی یا روحانی ومعنوی، بنابریں ہر وہ منفعت جو خدا اپنے بندوں کو نصیب کرے، غذائی مواد، مکان اور لباس میں سے یا علم وعقل ، فہم وایمان اور اخلاص میں سے، ان سب کو رزق کہا جاتا ہے، جو لوگ اس مفہوم کو صرف مادّ ی پہلو میں محدود کرتے ہیں انھوں نے اس کے استعمال کے مواقع کی طرف دقیق توجہ نہیں کی، قرآن مجید راہِ حق میں شہید ہونے والوں کے بارے میں کہتا ہے:
<بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُونَ
وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق حاصل کرتے ہیں (آل عمران/۱۶۹)
واضح رہے کہ شہداء کی روزی اور وہ بھی عالمِ برزخ میں مادّی نعمتیں نہیں بلکہ وہی روحانی ومعنوی عنایات ہیں جن کا تصور کرنا ہمارے لئے اس مادی زندگی میں مشکل ہے ۔
۲۔ زدنہ موجودات کی ضروریات یا دوسرے لفظوں میں ان کا رزق مہیا کرنے کا معاملہ سب سے زیادہ توجہ طلب مسائل میں سے ہے اس کے اسرار سے وقت گزرنے اور سائنسی پیش رفت کے ساتھ ساتھ پردہ اٹھ رہا ہے، سائنس اس سلسلے میں تعجب انگیز امور منکشف کررہی ہے ۔
گزشتہ زمانے میں تمام سائنسدان اس فکر میں تھے کہ اگر سمندروں اور دریاوٴں کی تہوں میں زندہ موجودات موجود ہیں تو ان کی غذا کس راستے سے ان تک پہنچتی ہوگی کیونکہ غذاوٴں کی اصلی بنیاد تو نباتات ہیں جنھیں سورج کی روشنی کی ضرورت ہے جبکہ دریاوٴں کی گہرائیوں میں ۷۰۰ میٹر سے آگے مطلقاً روشنی کا وجود نہیں اور اس سے آگے تو گویا ایک ابدی تاریک رات ہے لیکن بہت جلد معلوم ہوگیا کہ سورج کی روشنی نباتات اور سبزے کے باریک ذرّات کی سطح آب اور موجوں کے بستر پر پرورش کرتی ہے اور جب وہ اپنے تکامل وارتقاء کا مرحلہ طے کرلیتے ہیں تو پکے ہوئے پھل کی مانند دریاوٴں کی گہرائیوں اور تہوں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں زندہ موجودات کے لئے خوانِ نعمت ثابت ہوتے ہیں ۔
دوسری طرف بہت سے پرندے دریائی مچھلیوں کو اپنی غذا بناتے ہیں حتّیٰ کہ کئی قسم کے رات کو پرواز کرنے والے پرندے موجود ہیں جو رات کی تاریکی میں ایک ماہر غوطہ خور کی طرح اپنے شکار کو، جسے مخصوص امواج ریڈار کی طرح پہنچانتی ہیں اور اس کی نشاندہی کرتی ہیں، باہر لے آتے ہیں ۔
بعض پرندوں کی روزی عظیم الجثّہ دریائی جانوروں کے دانتوں کے اندر چھپی ہوتی ہے، یہ حیوانات دوسرے دریائی جانوروں کے بطور غذا کھانے کے بعد اپنے دانتوں میں ”طبیعی خلال“ کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ساحل کی طرف آتے ہیں اور اپنے منھ کو جو ایک چھوٹی غار سے مشابہت رکھتا ہے کھلا چھوڑدیتے ہیں وہ پرندے جن کی روزی خدا نے یہاں رکھی ہے بغیر کسی ڈر خوف کے اس غارنمار منھ میں داخل ہوجاتے ہیں، اور اس دیو پیکر جانور کے منھ سے اپنی روزی تلاش کرلیتے ہیں، اس تیار غذا سے جہاں پرندے شکم سیر ہوتے ہیں وہاں اس جانور کو بھس ضرر رساں مادّوں سے نجات دلاتے ہیں، چنانچہ جب دونوں فریقوں کا مقصد پورا ہوجاتا ہے تو پرندے باہر پرواز کرجاتے ہیں اور وہ حیوان آرام وسکون کا احساس کرتے ہوئے اپنا منھ بند کرلیتا ہے اور واپس دریا کی گہرائیوں میں چلا جاتا ہے ۔
مختلف موجودات کو روزی بہم پہنچانے کے لئے خداوندعالم کا طریقہ وتدبیر واقعاً حیرت انگیز ہے وہ نطفہ جو شکم مادرمیں برقرار ہے، سے لے کر قسم قسم کے حشرات الارض تک، جو زمین کی تاریک گہرائیوں، پُرپیچ راستوں، درختوں کی چھالوں، پہاڑوں کی چوٹیوں اور درّوں کی پہنائیوں میں زندگی بسر کرتے ہیں اس خداوندعظیم کے علم و بینش سے ہرگز مخفی نہیں ہیں، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے کہ خداوند ان کی قرار گاہ اور حقیقی مسکن سے بھی آگاہ ہے وہ ان کے چلنے پھرنے کی جگہ کو بھی جانتا ہے اور جہاں کہیں بھی ہوں ان کی روزی ان تک پہنچاتا ہے ۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ زیرِ نظر آیت میں روزی حاصل کرنے والوں کے بارے میں بحث کے دروان انھیں ”دابة“ (پھرنے والے) اور ”جنیدہ“ (حرکت کرنے والے) سے تعبیر کیا گیا ہے جو ”توانائی“(ENERGY) اور ”حرکت“ (MOTION) میں رابطہ کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی حرکت وجود میں آتی ہے وہ توانائی پیدا کرنے والے مادّہ کی محتاج ہوتی ہے یعنی وہ مادّہ جو حرکت کا منشاء ہے، اسی لئے قرآن بھی زیرِ بحث آیات میں کہتا ہے کہ خدا تمام متحرک موجوات کوروزی دیتا ہے ۔
اگر حرکت کی اس وسیع تر معنی میں تفسیر کریں تو پھر نباتات بھی اس میں شامل ہوں گے کیونکہ وہ بھی نشو ونما میں ایک دقیق وباریک حرکت رکھتے ہیں اسی بناء پر فلسفہ میں حرکت کی ایک قسم ”نمو“ بھی شمار کی گئی ہے ۔
۳۔ یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہر شخص کی روزی اس کی ابتداء سے لے کر آخر عمر تک مقرر ومعین ہے اور چاہتے نہ چاہتے اس تک پہنچے گی؟ یا یہ کہ اس کے پیچھے نکلنا چاہیے، بقولِ شاعرشرط عقل است جستن از درھایعنی عقل کے لئے شرط ہے کہ اس سے کے دروازوں سے ڈھونڈا جائے ۔
بعض سُست بے حال لوگ اس آیت کی مذکورہ تعبیر ان روایات کا سہارا لیتے ہوئے جو روزی کی مقدار اور اس کے تعیّن کے بارے میں کچھ بیان کرتی ہیں، یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ انسان تلاشِ معاش اور روزی مہیّا کرنے کے لئے زیادہ سعی وکوشش کرے یا اس کی تلاش میں نکلے کیونکہ روزی انسان کا مقدر ہے اور وہ ہر حالت میں اس تک پہنچے گی اور کوئی بھی شخص روزی سے محروم نہیں رہے گا ۔
اس طرح کے نادان افراد جن کو دین ومذہب کے بارے میں بہت کم معرفت ہوتی ہے، دشمنوں کو بہانہ پیدا کرنے کا موقع دیتےں ہیں کہ مذہب اقتصادی کساد کا حامل ہے، جو زندگی میں شامل ہوتی تو بے چون وچرا مجھے مل جاتی، استثمار گروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ یہ ایک اچھا بہانہ لگا کہ جتنا ہوسکے محروم طبقوں کا خون چوشیں اور انھیں زندگی کی ابتدائی ضروریات سے بھی محروم رکھیں ۔
حالانکہ قرآن اور احادیثِ اسلامی سے معمولی سی آشنائی بھی اس حقیقت تک پہنچنے کے لئے کافی ہے کہ اسلام ہر قسم کی مادّی ومعنوی منفعت کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششوں کو مثبت شمار کرتا ہے، یہاں تک کہ قرآن کہتا ہے:
’‘لَیسَ لِلاِنْسَانِ الَّا مَا سَعیٰ“
انسان کے لئے کچھ نہیں ماسوا اس کے جتنی اس نے کوشش کی ۔
اس فرمان میں انسان کے فائدہ ومنفعت کو اس کی کوشش اور کام میں قرار دیا گیا ہے، ہادیان اسلام دوسروں کے لئے نمونہ عمل مہیا کرنے کے لئے سخت محنت سے کام کرتے تھے، انبیاء ماسلف بھی اس کام سے مستثنیٰ نہ تھے انھوں نے چرواہوں کا کام کیا، کپڑے سیئے ، نیزہ زِرہ بنانے اور ہل چلانے تک کے طاقت آزما کام سرانجام دیئے، پس اگر خدا کی طرف سے رزق بہم پہنچانے کا ضامن ہونے سے مراد گھر بیٹھے رہنا اور روزی پہنچنے کا انتظار کرنا ہوتا تو انبیاء(علیه السلام)، آئمہ(علیه السلام) جو تمام انسانوں سے زیادہ عالم اور مفاہیمِ دین سے آشنا تھے تلاشِ رزق میں کوشش وجستجو نہ کرتے ۔
بنابریں ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ہر خص کی روزی مقدر اور مسلّم ہے لیکن مشروط ہے اس کی تلاش وکوشش سے لہٰذا جہاں کہیں یہ شرط پوری نہیں ہوگی مشروط بھی دستیاب نہیں ہوگا، یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہیں کہ ہر شخص کی ایک اجل ہے اور اس کی عمر کی مقدار معیّن ہے، واضح طور پر اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بدن ایک مناسب مدّت تک باقی رہنے کی استعداد رکھتا ہے بشرطیکہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا لحاظ رکھا جائے اور ضرررساں اشیاء سے پرہیز کیا جائے نیز جو چیزیں موت کی جلدی کا سبب بنتی ہیں ان سے دور رہے ۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ آیات وروایات جو روزی کے معیّن ہونے سے مربوط ہیں دراصل ایک ”بریک“ اور حد ہیں، ان حریص اور دنیا پرست لوگوں کے لئے جو زندگی گزارنے کے لئے ہر دروازہ کھٹکھٹاتے پھرتے ہیں اور ہر ظلم وستم وبد دیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں اس گمان پر کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو ان کی زندگی اچھی نہیں گزرسکتی، آیاتِ قرآنی اور احادیثِ اسلامی ایسے افراد کو خبردار کرتی ہیں کہ بے کار ہاتھ پاوٴں نہ ماریں اور روزی کمانے کے لئے غیر شرعی اور غیر معقول ذرائع استعمال نہ کریں، بلکہ شرعی طریقے سے سعی وکوشش کرتے ہوئے مطمئن رہیں کہ خدا اس راستے سے ان کی تمام حاجات پوری کردے گا، وہ خدا کہ جس نے انھیں ظلمت کدہٴ رحم میں فراموش نہیں کیا اور وہ خدا کہ جس نے بچپن میں جب انسان اس دنیا کے موادِ غذائیہ کی تغذیہٴ کی توانائی نہیں رکھتا تھا ااس کی مہربان ماں کے پستانوں میں اس کی روزی مہیّا کی، وہ خدا جس نے شِیر خواری کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی جبکہ انسان ناتواں تھا اس کی روزی اس کے مہربان باپ کے ہاتھ میں رکھی جو صبح وشام اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بھی خوش ہو کہ مَیں اپنی اولاد کو غذا مہیا کرنے کے لئے زحمت ومشقت اٹھاتا رہا ۔
لہٰذا کس طرح ممکن ہے کہ جب انسان بڑا ہوجائے اور ہر قسم کے کام کی توانائی اور قدرت حاصل کرلے خدا اسے بھلادے، کیا عقل وایمان اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ انسان اس گمان پر کہ ممکن ہے اس روزی فراہم نہ ہو، گناہ، ظلم وستم اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے اور حریص بن کر مستضعفین اور کمزوروں کا حق غصب کرے ۔
البتہ اس چیز کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ رزق ایسے ہیں کہ انسان ان کے آگے پیچھے بھاگے یا نہ وہ اس کے پیچھے آتے ہیں مثلاً سورج کی روشنی جو ہماری تلاش وکوشش کے بغیر ہمیں میسّر ہے اور ہمارے گھر روشن کرتی ہے، کیا اس کا انکار ممکن ہے کہ بارش اور ہَوا بغیر ہماری جدوجہد اور کوشش کی ہماری تلاش میں آتی ہے کیا اس بات کا انکار کیا جاسکتا ہے کہ وہ عقل وہوش اور قوّت واستعداد جو روزِ اوّل سے ہمارے وجود میں رکھ دی گئی تھی ہمیں اس کے لئے جستجو نہیں کرنا پڑی ۔
لیکن اس طرح کی نعمتیں جو ہَوا کے جھونکے کے ساتھ مل گئیں یا یہ کہ وہ نعمتیں جو کہ کوشش کے بغیر ہاتھ سے نکل جائیں گی یا بے اثر ہوکر رہ جائیں گی ۔
حضرت علی علیہ السلام سے ایک مشہور حدیث نقل ہوئی ہے آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
واعلموا یا بنی! انّ الرزق ورزقان تطلبہ ورزق یطلبک
اے فرزند جان لو! رزق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ کہ تو جس کی جستجو میں نکلے اور ایک وہ جو تجھے تلاش کرتے ہوئے تیرے پیچھے آئے ۔ (۱)
امام علیہ السلام کا یہ فرمان بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اکثر اوقات انسان کسی نعمت یا ضرورت کی تلاش میں سرگرداں نہیں ہوتا مگر حادثات واتفاقات کے ایک وسیع سلسلہ کے باعث کوئی نعمت اسے نصیب ہوجاتی ہے یہ حوادث اگرچہ ہماری نظر میں اچانک اور اتفاقیہ ہیں لیکن درحقیقت وہ صاحبِ تجلیق کے حساب وکتاب کے عین مطابق ہیں، بلاشبہ اس قسم کی روزی کا حساب اس روزی کی طرف اشارہ ہو۔
بہرحال نکتہ اساسی یہ ہے کہ تمام تعلیماتِ اسلامی میں ہمیں متوجہ کرتی ہیں کہ بہترین زندگی گزارنے کے لئے چاہے وہ مادّی ہو یا معنوی زیادہ سے زیادہ کوشش وجستجو کرنی چاہیے اس لئے کہ کام سے فرار کا یہ جواز غلط ہے کہ روزی تو مقسوم میں لکھی ہے اور مل کر رہے گی ۔
۴۔ زیرِ بحث آیات میں فقط ”رزق وروزی“ کی طرف اشارہ ہُوا ہے حالانکہ بعد کی چند آیات میں جہاں پر توبہ کرنے والے باایمان افراد کا ذکر ہے ”متاع حَسن“ یعنی شائستہ ومناسب منفعت اور فائدہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان دونوں کا مدِّمقابل ہونا ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ تمام حرکت کرنے والوں کے لئے وہ انسان ہوں یہ حیوان، حشرات الارض ہوں یا درندے، نیک ہوں یا بَد سب کے لئے رزق کا حصّہ معیّن ہے، لیکن متاع حَسن اور شائستہ وگرانبہا نعمتیں صرف صاحبان ایمان کے ساتھ مخصوص ہیں جنھوں نے خود کو آبِ توبہ سے ہر قسم کے گناہ اور آلودگی سے پاک کرلیا ہے اور جو خدائی نعمتوں کو اس کے احکامات کی اطاعت کے تابع رہ کر استعمال کرتے ہیں نہ کہ ہَوا وہوس اور سرکشی کی راہ میں ۔

۷ وَھُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ فِی سِتَّةِ اٴَیَّامٍ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ لِیَبْلُوَکُمْ اٴَیُّکُمْ اٴَحْسَنُ عَمَلًا وَلَئِنْ قُلْتَ إِنَّکُمْ مَبْعُوثُونَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُولَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ ھٰذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ
ترجمہ
۷۔ وہ ایسی ذات ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دِنوں (چھ ادوار) میں خلق کئے اور اس کا عرش (قدرت) پانی پر ہے (اور یہ اس لئے پیدا کیا) تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کس کا عمل بہتر ہے اور اگر تم کہو کہ موت کے بعد دوبارہ مبعوث ہوگے (اور قبروں سے اٹھوگے) تو یقیناً کافر کہیں گے کہ یہ کھُلا جادو ہے ۔



۱۔ نہج البلاغہ، امام(علیه السلام) کی اپنے فرزند امام حسن(علیه السلام) کے نام وصیت۔
 

 

چند اہم نکاتمقصدِ خلقت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma