ظالموں کی زندگی کا اختتام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
چند قابل توجہ نکاتچند قابل توجہ نکات

آخرکار پرورگار کے رسولوں نے حضرت لوط (علیه السلام) کی شدید پریشانی دیکھی اور دیکھا کہ وہ روحانی طور پر کس اضطراب کا شکار ہیں تو انھوں نے اپنے اسرارِ کار سے پردہ اٹھایا اور ان سے ”کہا:اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں، پریشان نہ ہو، مطمئن رہو کہ وہ ہرگز تجھ پر دسترس حاصل نہیں کرسکیں گے“

(قَالُوا یَالُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَصِلُوا إِلَیْکَ) ۔
یہ امر جاذبِ توجہ ہے کہ خدا کے فرشتے یہ نہیں کہتے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ کہتے ہیں کہ اے لوط! یہ تجھ پر دسترس حاصل نہیں کر سکیں گے کہ تجھے کوئی نقصان پہنچے ۔
یہ تعبیر یا تو اس بنا پر ہے کہ اپنے آپ کو لوط (علیه السلام) سے جدا نہیں سمجھتے تھے کیونکہ بہرحال وہ انہی کے مہمان تھے اور ان کی ہتکِ حرمت حضرت لوط (علیه السلام) کی ہتکِ حرمت تھی یا یہ اس بنا پر کہ وہ حضرت لوط (علیه السلام) پر یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ ہم خدا کے فرستادہ ہیں اور ہم تک ان کی دسترس نہ ہونا تو مسلم ہے یہاں تک کہ تُو جو اِن کا ہم نوع ہے تجھ تک بھی یہ نہیں پہنچ سکیں گے ۔
سورہ قمر کی آیہ ۳۷ میں ہے:
<وَلَقَدْ رَاوَدُوہُ عَنْ ضَیْفِہِ فَطَمَسْنَا اٴَعْیُنَھُمْ
وہ لوط کے مہمانوں کے بارے میں تجاوز کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کردیں ۔
یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ اس وقت حملہ آور قوم پروردگار کے ارادے سے اپنی بینائی کھو بیٹھی تھی اور حملے کی طاقت نہیں رکھتی تھی، بعض روایات میں بھی ہے کہ ایک فرشتے نے مٹھی بھر مٹی ان کے چہروں پر پھینکی، جس سے وہ نابینا ہوگئے ۔
بہرحال حضرت لوط (علیه السلام) اپنے مہمانوں کے بارے میں ان کی ماموریت کے بارے میں آگاہ ہوئے تو یہ بات اس عظیم پیغمبر کے جلتے ہوئے دل کے لئے ٹھندک کے مانند تھی، ایک دم انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے دل سے گم کا بارِ گراں ختم ہوگیا اور ان کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی، ایسا ہوا جیسے ایک شدید بیمار کی نظر مسیح پر جاپرے، انھوں نے سُکھ کا سانس لیا اور سمجھ گئے کہ غم واندوہ کا زمانہ ختم ہورہا ہے اور بے شرم حیوان صفت قوم کے چنگل سے نجات پانے کا اور خوشی کا وقت آپہنچا ہے ۔
مہمانوں نے فوراًحضرت لوط (علیه السلام) کو حکم دیا: تم اسی رات تاریکی شب میں اپنے خاندان کو اپنے ساتھ لے لو اور سرزمین سے نکل جاؤ ( فَاٴَسْرِ بِاٴَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلِ) ۔ (۱)
لیکن یہ پاپندی ہے کہ ”تم میں سے کوئی شخص پسِ پشت نہ دیکھے “(وَلَایَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ)، اس حکم کی خلاف ورزی فقط تمھاری معصیت کار بیوی کرے گی کہ جو تمھاری گنہگار قوم کو پہنچنے والے مصیبت میں گرفتار ہوگی (إِلاَّ امْرَاٴَتَکَ إِنَّہُ مُصِیبُھَا مَا اٴَصَابَھُمْ ) ۔
وَلَایَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ“ کی تفسیر میں مفسرین نے چند احتمال ذکر کئے ہیں:
پہلا یہ کہ کوئی شخص پسِ پشت نہ دیکھے ۔
دوسرا یہ کہ شہر میں مال اور وسائل لے جانے کی فکر نہ کرے بلکہ صرف اپنے آپ کو اس ہلاکت سے نکال لے جائے ۔
تیسرا یہ کہ اس خاندان کے اس چھوٹے سے قافلے میں سے کوئی شخص پیچھے نہ رہ جائے ۔
چوتھے یہ کہ تمھارے نکلنے کے وقت زمین ہلنے لگے گی اور عذاب کے آثار نمایاں ہوجائیں گے لہٰذا اپنے پسِ پشت نگاہ نہ کرنا اورجلدی سے دور نکل جانا ۔
البتہ کوئی مانع نہیں کہ یہ سب احتمالات اس آیت کے مفہوم میں جمع ہو ں ۔ (۲)
پہلا یہ کہ ”وَلَایَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ“ سے استثناء ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت لوط (علیه السلام) ان کا خاندان، یہاں تک کہ ان کی بیوی بھی سب شہر سے باہر کی طرف نکلے اور کسی نے بھی رسولوں کے فرمان کے مطابق پس پشت نگاہ نہ کی سوائے حضرت لوط (علیه السلام) کی بیوی کے کیونکہ اسے اپنی قوم سے بڑا لگاؤ اور دلی وابستگی تھی اور وہ ان کے انجام سے پریشان تھی، وہ لحظہ بھر کے لئے رکی اور پسِ پشت دیکھا، ایک روایت کے مطابق شہر پر برسنے والے پتھروں میں سے ایک پتھر اسے لگا اور اسے وہیں ڈھیر کردیا ۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”فاسرباھلک“سے استثناء ہے یعنی اپنی بیوی کے سوا تمام خاندان کو ساتھ لے جاؤ، اس صورت میں لوط (علیه السلام) کی بیوی شہر ہی میں رہ گئی تھی، البتہ پہلا احتمال زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
بالآخر انھوں نے لوط (علیه السلام) سے آخری بات کہی: نزولِ عذاب کا لمحہ اور وعدہ کی تکمیل کا موقع صبح ہے اور صبح کی پہلی شعاع کے ساتھ ہی اس قوم کی زندگی تباہ ہوجائے گی (إِنَّ مَوْعِدَھُمْ الصُّبْحُ) ۔
ابھی اٹھ کھڑے ہو اور جتنا جلدی ممکن ہو شہر سے نکل جاؤ ”کیا صبح نزدیک نہیں ہے“( اٴَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیبٍ) ۔
بعض روایات میں ہے کہ جب ملائکہ نے کہا کہ عذاب کے وعدہ پر عملدار آمد صبح کے وقت تو حضرت لوط (علیه السلام)کو جو اس آلودہ قوم سے سخت ناراحت اور پریشان تھے، وہی قوم کہ جس نے اپنے شرمناک اعمال سے ان کا دل مجروح کر رکھا تھا اور ان کی روح کو غم وانداہ سے بھردیا تھا ، فرشتوں سے خواہش کی کہ اب جب کہ انھوں نے نابود ہی ہونا ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ جلدی ایسا ہو لیکن انھوں نے حضرت لوط (علیه السلام) کی دلجوئی اور تسلی کے لئے کہا: کیا صبح نزدیک نہیں ہے؟
آخرکار عذاب کا لمحہ آن پہنچا اور لوط پیغمبر (علیه السلام) کا انتظار ختم ہوا جیسا کہ قرآن کہتا ہے:جس وقت ہمارا فرمان آن پہنچا تو ہم نے اس زمین کو زیر وزبر کردیا اور ان کے سروں پر مٹیلے پتھروں کی پیہم بارش برسائی ( فَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاٴَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ) ۔
”سجیل“ اصل میں فارسی لفظ ہے کہ جو ”سنگ وگِل“ سے لیا گیا ہے، لہٰذا اس کا مطلب ہے ایسی چیز جو پتھر کی طرح بالکل سخت ہو اور ناہی گیلی مٹی ڈھیلی مٹی کی طرح بالکل ان دونوں کے درمیان ہو۔
”منضود“ کا مادہ ”نضد“ ہے اس کا معنی ہے یکے بعد دیگرے اور پے در پے آنا، یعنی پتھروں کی یہ بارش اس قدر تیز اور پے در پے تھی کہ گویا پتھر ایک دوسرے پر سوار تھے ۔
لیکن یہ معمولی پتھر نہ تھے بلکہ تیرے پروردگار کے ہاں معتین اور مخصوص تھے ( مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ)، البتہ یہ تصور نہ کریں کہ یہ پتھر قوم لوط کے ساتھ ہی مخصوص تھے بلکہ ”یہ کسی ظالم قوم اور جمعیت سے دور نہیں ہیں“( وَمَا ھِیَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِیدٍ) ۔
اس بے راہ رو اور منحرف قوم نے اپنے اوپر بھی ظلم کیا اور اپنے معاشرے پر بھی، وہ اپنی قوم کی تقدیر سے بھی کھیلے اور انسانی ایمان واخلاق کا بھی مذاق اڑایا، جب ان کے ہمدرد رہبر نے داد وفریاد کی تو انھوں نے کان نہ دھرے اورتمسخر اڑایا، اعلیٰ ڈھٹائی ، بے شرمی اور بے حیائی یہاں تک آن پہنچی کہ وہ اپنے رہبر کے مہمانوں کی حرمت وعزت پر تجاوز کے لئے بھی اٹھ کھڑے ہوئے ۔
یہ وہ لوگ تھے کہ جنھوں نے ہر چیز کو الٹ کر رکھ دیا، ان کے شہروں کو بھی الٹ جانا چاہیئے تھا، فقط یہی نہیں کہ ان کے شہر تہ وبالا ہوجاتے بلکہ ان پر پتھروں کی بارش بھی ہونا چاہیئے تھی تاکہ ان کے آخری آثارِ حیات بھی درہم برہم ہوجائیں، اور وہ ان پتھروں میں دفن ہوجائیں اس طرح سے کہ ان کا نام ونشان اس سرزمین میں نظر نہ آئے صرف وحشتناک، تباہ وبرباد بیابان، خاموش قبرستان اور پتھروں میں دبے ہوئے مردوں کے علاوہ ان میں کچھ باقی نہ رہے ۔
کیا صرف قوم لوط کو یہ سزا ملنی چاہیئے، نہیں، یقینا ہرگز نہیں بلکہ ہر منحرف گروہ اور ستم پیشہ قوم کے لئے ایسا ہی انجام انتظار میں ہے، کبھی سنگریزوں کی بارش کے نیچے، کبھی آگ اگلتے بموں کے نیچے اور کبھی معاشرے کے لئے تباہ کن اختلافات کے تحت ،خلاصہ یہ کہ ہر ستمگر کو کسی نہ کسی صورت میں ایسے عذاب سے دوچارہونا پڑے گا ۔

 
۱۔ ”اسر“ ”اسراء“ کے مادہ سے رات کو چلنے کے معنی میں ہے لہٰذا لفظ”لیل“(رات) اس آیت میں زیادہ تاکید کے لئے اور ”قطع“ رات کی تاریکی کے معنی میں ہے، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ رات کے سیاہ پردوں نے تمام جگہوں کو گھیر رکھا ہے اور یہ غافل قوم خوابیدہ یا مستِ شراب ہوس بازی ہے ، چپکے سے ان میں سے نکل جاؤ۔
۲۔ اس بارے میں کہ”الا امراتک“ میں استثناء کس جملے سے ہے، ،مفسرین نے دو احتمال ذکر کئے ہیں:

 

چند قابل توجہ نکاتچند قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma