اس سلسلے میں مفسّرین میں اختلاف ہے کہ ”إِنْ لَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکُمْ“ میں مخاطب کون ہیں ۔
بعض کہتے ہیں کہ مخاطب مسلمان ہیں، یعنی اگر منکرین نے تمھاری دعوت پر لبیک نہ کہا اور قرآن کی دس سورتوں کی مثل نہ لائے تو جان لو کہ یہ قرآن کی طرف سے ہے اور یہی خود اعجاز قرآن کی دلیل ہے ۔
بعض دوسروں نے کہا کہ مخاطب منکرین ہیں یعنی اے منکرین! اگر باقی انسان اور جو کچھ غیر از خدا ہے انھوں نے مثلِ قرآن لانے میں مدد کے لئے تمھاری دعوت پر لبیک نہ کہا اور وہ عاجز وناتواں رہ گئے تو پھر جان لو کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے ۔
نتیجہ کے لحاظ سے دونوں تفاسیر میں کوئی فرق نہیں ہے تاہم پہلا احتمال زیادہ نزدیک معلوم ہوتا ہے ۔
۱۵ مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَھَا نُوَفِّ إِلَیْھِمْ اٴَعْمَالَھُمْ فِیھَا وَھُمْ فِیھَا لَایُبْخَسُونَ
۱۶ اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیھَا وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ
ترجمہ
۱۵۔ جو لوگ دُنیا اور اس کی زینت کو چاہتے ہیں ہم ان کے اعمال انھیں بے کم وکاست اسی جہان میں دے دیں گے ۔
۱۶۔ (لیکن) آخرت میں (جہنم کی) آگ سے سوا ان کا (کچھ حصّہ) نہیں ہوگا اور جو کچھ انھوں نے دنیا میں (مادّی مقاصد اور غیرخدا کے لئے) انجام دیا ہے وہ برباد ہوگا اور ان کے اعمال باطل ہوجائیں گے ۔