دعوت انبیاء کے چار اہم اصول

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
اس سورة کی معنوی تاثیردین ودُنیا کا رشتہ

یہ سورة بھی گزشتہ سورة اور قرآن کی دیگر بہت سی سورتوں کی مانند اس عظیم آسمانی کتاب کی اہمیت کے بیان سے شروع ہورہی ہے تاکہ لوگ اس کے مضامین کی طرف سے زیادہ متوجہ ہوں اور اسے زیادہ باریک بینی سے دیکھیں ۔
حروف مقطعات ”آلرٰ“ کا ذکر خود اس عظیم آسمانی کتاب کی اہمیت کی دلیل ہے، یہ کتاب باوجود اپنے اعجاز وعظمت کے معمولی حروف مقطعات جو کہ سب کے سامنے ہیں یعنی الف، لام، راء، سے تشکیل پائی ہے (الٓرٰ ) ۔ (۱)
حروف مقطعات کے بعد قرآن مجید کی ایک خصوصیت دو جملوں میں بیان کی گئی ہے، پہلی یہ کہ یہ ایسی کتاب ہے جس کی تمام آیات مستحکم ہیں (کِتَابٌ اٴُحْکِمَتْ آیَاتُہُ) ۔ دوسری یہ کہ اس میں انسانی زندگی کی تمام انفرادی، اجتماعی، مساوی اور معنوی ضروریات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے (ثُمَّ فُصِّلَتْ) ۔
یہ عظیم کتاب ان خصوصیات کے ساتھ اس خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو حکیم بھی ہے اور آگاہ بھی (مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ) ۔
اپنے حکیم ہونے کے تقاضے بناپر اس نے آیاتِ قرآن کو محکم بیان کیا ہے اور خبیر وآگاہ ہونے کے تقاضے کے پیشِ نظر آیاتِ قرآنی کو انسانی ضروریات کے مطابق مختلف حصّوں میں بیان فرمایا ہے ۔اس لئے کہ جب تک کوئی انسان کی تمام روحانی وجسمانی کی جزئیات سے باخبر نہ ہو وہ تکامل آفرین اور ارتقائی اہلیّت کے حامل احکام صادر نہیں کرسکتا ۔
درحقیقت صفاتِ قرآن میں سے ایک، جو اس آیت میں آئی ہے، کا سرچشمہ خدا کی کوئی ایک صفت ہے، قرآن کا مستحکم ہونا خدا کی حکمت سے ہے اور اس کی تشریح وتفصیل اس کے باخبر ہونے کے باعث ہے ۔
اٴُحْکِمَتْ“اور ”فُصِّلَتْ“میں فرق مفسّرین قرآن نے ”اٴُحْکِمَتْ“ اور ”فُصِّلَتْ“کے فرق میں بہت سی بحثیں کی ہیں اور کئی ایک احتمالات پیش کئے ہیں، لیکن مذکورہ آیت کے مفہوم سے نزدیک تر جو بحث سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے لفظ میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ قرآن ایک واحد مجموعہ ہے جو آپس میں پیوست ہے اور ایک محکم واستوار عمارت کی مانند ہے اور اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ خدا واحد ویکتا کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس بناپر اس کی آیات میں کسی قسم کا تضاد واختلاف نظر نہیں آتا ۔
دوسرا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس کتاب میں باوجود وحدت واکائی کے بہت سے شعبے اور شاخیں ہیں جو انسان کی تمام تر جسمانی وروحانی ضروریات کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اسی بناپر وحدت کے باوجود کثیر ہے اور کثرت کے باوصف واحد ہے ۔
بعد والی آیت میں قرآن کا اہم ترین اور سب سے بنیادی موضوع یعنی توحید کا بیان اور شرک کا مقابلہ ان الفاظ میں میں کیا گیا ہے”اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ اللهَ “، یعنی میری پہلی دعوت یہ ہے کہ یکتا ویگانہ خدا کے کسی کی پرستش نہ کرو (2) یہ دراصل اس عظیم کتاب کے احکام کی پہلی تفسیر ہے ۔
میری دعوت کا دوسرا پروگرام یہ ہے کہ: ”إِنَّنِی لَکُمْ مِنْہُ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ“ یعنی میں تمھارے لئے اسی خدا کی طرف نذیر (ڈرانے والا) اور بشیر (خوشخبری دینے والا) ہوں، مَیں تمھیں نافرمانیوں، ظلم وفساد اور شرک وکفر کے بارے میں ڈراتا ہوں اور تمھارے کرکوتوں کے عکس العمل اور خدائی عذاب وسزا سے خبردار کرتا ہوں، اطاعت وپاکیزگی اور تقویٰ کے بدلے میں تمھیں سعادت بخش زندگی کی بشارت دیت ہوں ( إِنَّنِی لَکُمْ مِنْہُ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ) ۔
میری تیسری دعوت یہ ہے کہ اپنے گناہوں سے استغفار کرو اور اپنے کو آلودگیوں سے پاک و صاف رکھو (وَاٴَنْ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ) ۔
میری چوتھی دعوت یہ ہے کہ اس کی طرف پلٹ آؤ اور استغفار کے نتیجہ میں گناہوں سے پاک ہو جانے کے بعد اپنے کو خدائی صفات سے آراستہ کرو کیونکہ اس کی جانب بازگشت اس کی صفات سے اپنے آپ کو مزین کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ( ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْہِ ) ۔
درحقیقت حق کی جانب دعوت دینے کے چار مراحل ان چار جملوں کے ذریعے بیان ہوئے ہیں کہ جن میں دو عقیدہ اور بنیاد سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے دو کا تعلق بنیاد کے اوپر والے حصّے اور عمل سے ہے، حقیقی توحید قبول کرنا، شرک سے مبارزہ اور پیغمبر اکرم کی ر سالت کو قبول کرنا اعتقادی اصول ہیں، اسی طرح اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنا اور صفات الٰہی کو اپنانا یعنی عملی لحاظ سے اپنی مکمل اصلاح کرلینا قرآن کے دو عملی احکام ہیں لہٰذا اگر صحیح معنوں میں غور وفکر کریں تو قرآن کے تمام موضوعات کا خلاصہ یہی چار اقسام وامور ہیں ، یہی اس سورة اور سارے قرآن کے موضوعات کی فہرست ہے، ان چار احکام کا ”موافقت“ یا مخالفت“ کی صورت میں عملی نتیجہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
جس وقت اس پرگرام کو عملی جامہ پہناوٴگے تو خدا تمھیں تمھاری عمر کے آخری لمحات تک اس دنیا کی سعادت بخش زندگی سے بہرہ ور کرے گا (یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلیٰ اٴَجَلٍ مُسَمًّی) ۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ ہر شخص کو اس کے عمل کے برابر بہرہ مند کرے گا اور ان چار اصولوں پر عمل کرنے کی کیفیت میں لوگوں کے فرق اور تفاوت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرے گا بلکہ ہر صاحبِ فضیلت کو اس کی فضیلت کے مطابق عطا کرے گا (وَیُؤْتِ کُلَّ ذِی فَضْلٍ فَضْلَہُ) ۔
لیکن اگر انسان نے راہِ مخالفت اختیار کی اور عقیدہ وعمل سے متعلق ان چار احکام کی نافرمانی کے راستے پر چلے تو مَیں تم پر اس عظیم دن (قیامت) کے عذاب سے ڈرتا ہوں ، وہ دن کہ جس میں تم عدلِ الٰہی کی عظیم عدالت میں حاضر ہوگے (وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیرٍ) ۔ بہرحال جان لیجئے کہ تم جو کچھ بھی ہو اور جس مقام ومنزلت پر فائز ہوں آخرکار تم سب کی بازگشت خدا کی طرف ہے (إِلَی اللهِ مَرْجِعُکُمْ) ۔ یہ جملہ قرآن کے تفصیلی اصولوں میں سے یعنی مسئلہ معاد وقیامت کی طرف اشارہ ہے ۔
لہٰذا یہ کبھی نہ سوچنا کہ تمھاری قوت خدا کی قوت وقدرت کے مقابلہ میں کوئی اہمیت رکھتی ہے یا سمجھنے لگو کہ تم اس کے فرمان اور اس کی عدالت کے کٹہرے سے فرار حاصل کرسکو گے، نیز یہ تصوّر بھی نہ کرنا کہ وہ تمھاری بوسیدہ ہڈیوں کو موت کے بعد جمع نہیں کرسکتا اور نئی حیات کا لباس پہناسکتا، اس لئے کہ وہ تو ہر چیز پر قادر وتوانا ہے (وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ)

 


۱۔ اس معنی کی تفصیل اور قرآن کے حروف مقطعات کی دیگر تفاسیر سورة بقرہ، آلِ عمران اور اعراف کی ابتداء میں مذکورہ وچکی ہیں ۔
2۔ ”اَلَّا تَعْبدُوا الا اللّٰہ“ کے بارے میں دو احتمال پیش کیے گئے ہیں پہلا یہ کہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے یہ زبان پیغمبر سے ہے اور اس کی ترکیب یہ ہوگی: ”دعوتی وامری الاتعبدو الا اللّٰہ“- دوسرا یہ کہ یہ خدا کا کلام ہے اور اس کی تقدیر یہ ہے : امرکم الا تعبدوا الاللّہ- لیکن جملہ ”اننی لکم منہ نذیر و بشیر“(میں تمھیں ڈرانے اور خوشخبری سنائے والا ہوں) پہلے معنی سے زیاد مطابقت رکھتا ہے ۔

 

اس سورة کی معنوی تاثیردین ودُنیا کا رشتہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma