چند نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
بھائیوں کی سازشمنحوس سازش

۱۔”غیابات الجب“ کا مفہوم:
”جُب“ اس کنویں کو کہتے ہیں جسے پتھروں سے چُنا گیا ہو، شاید زیادتر بیابانی کنویں اسی قسم کے ہوتے ہیں اور ”غیابت“ کنویں میں پوشیدہ جگہ کو کہتے ہیں کہ جونگاہوں سے غیب اور اوجھل ہو، یہ تعبیر گویا اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ جو معمولاً بیابانی کنوؤںمیں ہوتی ہے اوروہ یہ کہ کنویں کی تہ میں پانی کی سطح کے قریب، کنویں کی دیوار میں طاقچہ کی صورت میں ایک چھوٹی سی جگہ بنا دیتے ہیں تاکہ اگر کوئی کنویں کی تہ میں جائے تو اس پر بیٹھ سکے اور جو برتن اپنے ساتھ لے جائے، خود پانی میں جائے بغیر اسے بھر لے، ظاہر ہے کہ اگر کنویں کے اوپر سے دیکھا جائے تو یہ جگہ صحیح طور پر نظر نہیں آتی، اسی بنا پر اسے ”غیابات“ کہا گیا ہے ۔ (1)
ہمارے ہاں بھی اس قسم کے کنویں پائے جاتے ہیں ۔
۲۔ اس تجویز کا مقصد:
اس میں شک نہیں کہ یہ تجویز پیش کرنے والے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یوسف (علیه السلام) کو کنویں میں اس طرح پھینکا جائے کہ وہ ختم یوجائے بلکہ اس کا مقصدیہ تھا کہ وہ کنویں کے پنہاں مقام پر رہے تاکہ صحیح وسالم قافلوں کے ہاتھ لگ جائے ۔
۳۔ ”ان کنتم فاعلین“ کا مطلب:
اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہنے والے نے حتیٰ یہ تجویز بھی ایک قطعی اور فیصلہ کن بات کے طور پر پیش نہیں کی شاید وہ ترجیح دیتا تھا کہ یوسف کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے ۔
۴۔ کنویں والی تجویز کس نے پیش کی:
کنویں والی تجویز پیش کرنے والے کا نام کیا تھا، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، بعض نے کہا ہے کہ اس کا نام”روبین“ تھا کہ جو ان سب سے زیادہ سمجھدار شمار ہوتا تھا، بعض نے ”یہودا“ کا نام لیا ہے اور بعض نے ”لاویٰ“ کا ذکر کیا ہے ۔
۵۔انسانی زندگی میں حسد کے تباہ کن اثرات :
ایک اور اہم درس جو ہم اس واقعے سے سیکھتے ہیں یہ ہے کہ کس طرح حسد انسان کو بھائی کے قتل یا اس سے بھی زیادہ سخت تکلیف دہ مقام تک لے جاتا ہے اور اگر اس اندرونی آگ پر قابو نہ پایا جائے تو یہ کس طرح دوسروں کو بھی آگ میں دھکیل دیتی ہے اور کود حسد کرنے والے کو بھی ۔
اصولاً جب کوئی نعمت کسی دوسرے کو میسر آتی ہے اور خود انسان اس سے محروم رہ جاتا ہے تو اس میں چار مختلف حالتیں پیدا ہوتی ہیں :
پہلی یہ کہ وہ آرزو کرتا ہے کہ جس طرح یہ نعمت دوسروں کو حاصل ہے مجھے بھی ہو، اس حالت کو” غبطہ “(رشک) کہتے ہیں اور قابلِ تعریف حالت ہے کیونکہ یہ انسان کو ایسی اصلاحی کوشش کی طرف ابھارتی ہے اورمعاشرے پر کوئی برا اثر مرتب نہیں کرتی ۔
دوسری یہ کہ وہ خواہش کرتا ہے کہ یہ نعمت دوسروں سے چھن جائے اور وہ اس مقصد کے لئے کوشش کرنے لگتا ہے، یہی وہ تنہائی مذموم حالت ہے جسے ”حسد“ کہتے ہیں ، یہ حالت انسان کو دوسروں کے خلاف غلط کوشش پر ابھارتی ہے اور خوداپنے بارے میں کسی اصلاحی کوشش پر آمادہ نہیں کرتی ۔
تیسری یہ کہ وہ تمنا کرے کہ خود یہ نعمت حاصل کرلے اور دوسرے اس سے محروم رہ جائیں، اسی حالت کو ”بخل“ اور اجارہ داری کہتے ہیں یعنی ہر چیز انسان اپنے لئے چاہے اور دوسروں کی اس سے محرومیت پر لذت محسوس کرے ۔
چوتھی یہ کہ وہ چاہے کہ دوسرا اس نعمت میں رہے اگرچہ وہ خود مھرومیت میں زندگی بسر کرے، یہاں تک کہ وہ اس پر بھی تیار ہو کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ بھی دوسروں کو دے دے اور اپنے مفادات سے صرفِ نظر کرے اس بالاوبرتر حالت کو ”ایثار“ کہتے ہیں کہ جو اہم ترین اور بلند انسانی صفات میں سے ہے ۔
بہرحال حسد نے صرف بردرانِ یودف کو اپنے بھائی کے قتل کی سرحد تک نہیں پہنچایا بلکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حسد انسان کو خود اس کی اپنی نابودی پر بھی ابھارتا ہے اسی بنا پر اسلامی احادیث میں اس گھٹیا صفت کے خلاف جہاد کے لئے ہلا دینے والی تعبیرات دکھائی دیتی ہیں، نمونے کے طور پر ہم یہاں چند ایک احادیث نقل کرتے ہیں ۔
پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
خدا نے موسیٰ بن عمران کو حسد سے منع کیا اوران سے فرمایا:
ان الحاسد ساخط لنعمی صاد لقسمی الذی قسمت بین عبادی ومن یک کذٰلک فلست منہ ولیس منی
یعنی ۔ حسد کرنے والا میرے بندوں کو ملنے والی نعمتوں پر ناخوش رہتا ہے اور اپنے بندوں میں جو کچھ میں نے تقسیم کیا ہے اس میں رکاوٹ ڈالتا ہے، جو شخص ایسا ہو نہ وہ مجھ سے ہے اور نہ مَیں اس سے ہوں ۔ (2)
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
آفة الدین الحسد والعجب والفخر ۔
دین کے لئے تین چیزیں آفت اور مصیبت ہیں حسد، خودپسندی اور غرور۔
ایک اور حدیث میں اسی امام (علیه السلام) سے منقول ہے:
ان المومن یغبط ولایحسد، والمنافق یحسد ولا یغبط۔
اہل ایمان رشک کرتے ہیں حسد نہیں کرتے لیکن منافق حسد کرتے ہیں رشک نہیں کرتے ۔ (3)
۶۔ماں باپ کے لئے ایک سبق:
اس واقعے کے اس حصے سے یہ درس بھی لیا جاسکتا ہے کہ ماں باپ کو اولاد سے اظہارِ محبت میں بہت زیادہ غور وخوض کرنا چاہیئے، اگرچہ اس میں شک نہیں کہ حضرت یعقوب (علیه السلام) نے اس معاملے میں کسی خطا کا ارتکاب نہیں کیا تھا اور وہ حضرت یوسف (علیه السلام) اور ان کے بھائی بنیامین سے جو اظہارِ محبت کرتے تھے وہ کسی اصول اور وجہ کے تحت تھا اور جس کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں تاہم یہ ماجرا نشاندہی کرتا ہے کہ ضروری ہے کہ اس مسئلے میں انسان بہت حساس ہو اور اس پہلو کو سختی سے ملحوظ رکھے کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک بیٹے سے اظہار ِ محبت دوسرے بیٹے کے دل میں ایسے جذبات پیدا کردیتا ہے کہ وہ ہرکام کرگزرنے پر تیار ہوجاتا ہے، اس طرح وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی اپنی شخصیت درہم برہم ہوگئی ہے اور پھر وہ اپنے بھائی کی شخصیت کو نقصان پہنچانے کے لئے کسی حد کو خاطر میں نہیں لاتا، یہاں تک کہ اگر وہ خود کسی ردِّ عمل کا مظاہرہ نہ کرسکے تو اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے اور بعض اوقات نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجاتا ہے ۔
ایک واقعہ مجھے نہیں بھولتا کہ میرے ایک دوست کا چھوٹا بچہ بیمار تھا، فطری طور پر اسے زیادہ محبت کی ضرورت تھی، باپ نے بڑے بیٹے کو اس کی خدمت پر لگا دیا، تھوڑا ہی عرصہ گزراتھا کہ بڑا بیٹا ایک ایسی نفسیاتی بیماری میں گرفتار ہوگیا کہ جس کی شناخت نہیں ہوتی تھی، میں نے اس عزیز دوست سے کہا کہ اس کی وجہ اظہارِ محبت میں عدمِ عدالت ہی نہ ہو؟ وہ میری اس بات کا یقین نہیں کرتا تھا، وہ ایک ماہرِ نفسیات کے طبیب کے پاس گیا، طبیب نے کہا کہ تمہارے بیٹے کو کوئی خاص بیماری نہیں ہے اس بیماری کی وجہ یہ ہے کہ وہ محبت کی کمی کے مسئلے میں گرفتار ہے اور اس کی شخصیت پر ضرب لگی ہے جب کہ اس کے چھوٹے بھائی کو یہ تمام محبت حاصل ہوئی ہے ۔
اسی لئے اسلامی احادیث میں ہے کہ:
ایک روز امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
بعض اوقات مَیں اپنے کسی بچے سے اظہارِ محبت کرتا ہوں ، اسے اپنے زانو پر بٹھاتا ہوں، اسے بکری کی دستی دیتا ہوں اور اس کے منہ میں چینی ڈالتا ہوں، حالانکہ مَیں جانتا ہوں کہ حق دوسرے کا ہے لیکن پھر بھی یہ کام اس لئے کرتا ہوں تاکہ وہ میرے دوسرے بچوں کے خلاف نہ ہوجائے اور جیسے برادرانِ یوسف نے ہوسف کے ساتھ کیا وہ اس طرح نہ کرے ۔ (4)

 

۱۱ قَالُوا یَااٴَبَانَا مَا لَکَ لَاتَاٴْمَنَّا عَلیٰ یُوسُفَ وَإِنَّا لَہُ لَنَاصِحُونَ۔
۱۲ اٴَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ۔
۱۳ قَالَ إِنِّی لَیَحْزُنُنِی اٴَنْ تَذْھَبُوا بِہِ وَاٴَخَافُ اٴَنْ یَاٴْکُلَہُ الذِّئْبُ وَاٴَنْتُمْ عَنْہُ غَافِلُونَ۔
۱۴ قَالُوا لَئِنْ اٴَکَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُون۔

ترجمہ

۱۱۔ (یوسف کے بھائی باپ کے پاس آئے اور ) کہنے لگے: ابا جان! تم (ہمارے بھائی) یوسف کے بارے میں ہم پر اطمینان کیوں نہیں کرتے حالانکہ کہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں ۔
۱۲۔اسے کل ہمارے ساتھ(شہر سے باہر) بھیج دو تاکہ خوب کھائے پئے، کھیلے کودے اور سیر وتفریح کرے اور ہم اس کے محافظ ہیں ۔
۱۳۔باپ نے کہا: اس کے دور ہونے سے مَیں غمگین ہوں گا اور مجھے ڈر ہے کہ اسے بھیڑیا نہ کھاجائے اور تم اس سے غافل رہو۔
۱۴۔انھوں نے کہا: اگر اسے بھیڑیا کھاجائے، جب کہ ہم طاقتور گروہ ہیں، تو ہم زیا کاروں میں سے ہوں(اور ہرگز ایسا ممکن نہیں ہے)

 


1۔ تفسیر المنار سے اقتباس، مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔
2۔ اصول کافی، ج۲،ص ۳۰۷۔
3۔اصول کافی، ج۲، س ۳۰۷۔
4۔بحار، ج۴،ص ۷۸۔

 

بھائیوں کی سازشمنحوس سازش
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma