۳۔ متین وپاکیزہ کلام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۲۔ اخلاص کی جزازوجہ مصر کی رسوائی

قرآن کے عجیب وغریب پہلوؤں میں سے ایک کہ جو اعجاز کی ایک نشانی بھی ہے ، یہ ہے کہ اس میں کوئی چھپنے والی ، رکیک ، ناموزوں، متبذل اور عفت وپاکیزگی سے عاری تعبیر نہیں ہے اور کسی عام اَن پڑھ اور جہالت کے ماحول میں پرورش پانے والے کا کلام ہرگز اس طرز کا نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہر شخص کی باتیں اس کے افکار اور ماحول سے ہم رنگ ہوتی ہیں ۔
قرآن کی بیان کردہ تمام داستانوں میں ایک حقیقی عشقیہ داستان موجود ہے اور یہ حضرت یوسف (علیه السلام) اور  مصر کی بیوی کی داستان ہے ۔
یہ ایک خوبصور ت اور ہوس آلودہ عورت کے ایک زیرک اور پاک دل نوجوان سے شعلہ ور عشق کی داستان ہے ۔
کہنے والے اور لکھنے والے جب ایسے مناظر تک پہنچتے ہیں تو وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ یا تو ہیرو اور اس واقعے کے اصلی مناظرکی تصویر کشی کے لئے قلم کو کھلا چھوڑ دیں اور با زبانِ اصطلاح حقِ سخن ادا کردیں اگرچہ اس میں ہزارہا تحریک آمیز، چھبنے والے اور غیر اخلاقی لفظ آجائیں ۔
یا وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ زبان وقلم کی نزاکت وعفت کی حفاظت کے لئے کچھ مناظر کو پردہ ابہام میں لپیٹ دیں اور سامعین وقارئین کو سربستہ طور پر بات بتائیں ۔
کہنے والا اور لکھنے والا کتنی بھی مہارت رکھتا ہو اکثر اوقات ان میں سے کسی ایک مشکل سے دوچار ہوجاتا ہے ۔
کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ ایک اَن پڑھ شخص ایسے شور انگیز عشق کے نہایت احساس لمحات کی دقیق اور مکمل تصویر کشی بھی کرے لیکن بغیر اس کے کہ اس میں معمولی سی تحریک آمیز وعفت سے عاری تعبیر استعمال ہوں ۔
لیکن قرآن اس داستان کے حساس ترین مناظر کی تصویر کشی شگفتہ انداز میں متانت وعفت کے ساتھ کرتا ہے، بغیر اس کے کہ اس میں کوئی واقعہ چھوٹ جائے اور اظہارِ عجز ہو، جب کہ تمام اصولِ اخلاق وپاکیزگی بیان بھی محفوظ ہو ۔
ہم جانتے ہیں کہ اس داستان کے تمام مناظر میں سے زیادہ حساس ”خلوت گاہ وعشق“ کا ماجرا ہے جیسے زوجہ  مصر کی بیقراری اور ہواوہوس نے وجود بخشا ۔
قرآن اس واقعے کی وضاحت میں تمام کہنے کی باتیں بھی کہہ گیا ہے لیکن پاکیزگی اور عفت کے اصول سے ہٹ کر اس نے تھوڑی سی بات بھی نہیں کی، قرآن اس طرح سے کہتا ہے:
وَرَاوَدَتْہُ الَّتِی ھُوَ فِی بَیْتِھَا عَنْ نَفْسِہِ وَغَلَّقَتْ الْاٴَبْوَابَ وَقَالَتْ ھَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اللهِ إِنَّہُ رَبِّی اٴَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّہُ لَایُفْلِحُ الظَّالِمُونَ۔
جس خاتون کے گھر یوسف تھے، اس نے ان سے تقاضااور اظہار تمنا کی اورتمام دروازے بند کرلئے اور کہنے لگی :جلدی آؤ،اس کی طرف جو و تمہارے خاطر مہیا ہے،انہوںنے کہا : مَیں اس کام سے خداکی پناہ مانگتا ہوں ، ( مصر)بزرگ اور میرا مالک ہے،اس نے مجھے بڑی عزت سے رکھا ہے ،یقینا ظالم (اور آلودہ دامن افراد ) فلاح نہیں پائیں گے (یوسف:۲۳)۔
اس آیت میں یہ الفاظ قابلِ غور ہیں :
۱۔ لفظ”وارد“ وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں کوئی شخص دوسرے سے کوئی چیز بڑی محبت اور نرمی سے مانگے(لیکن زوجہ  مصر یوسف سے جو کچھ طلب کرتی تھی )چونکہ یہاں واضح تھی لہٰذا قرآن نے اسی واضح کنایہ پر کفایت کی ہے اور نام نہیں لیا ۔
۲۔ یہاں قرآن لفظ” امراة ال“(یعنی ۔  مصر کی بیوی)تک استعمال نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے” الَّتِی ھُوَ فِی بَیْتِھَا“ (وہ خاتون کہ یوسف جس کے گھرمیں رہتا تھا )یہ اس لئے ہے تاکہ کلام پردہ پوشی اور عفتِ بیاں سے زیادہ قریب ہو ۔
ضمنی طور پر اس تعبیر سے قرآن نے حضرت یوسف (علیه السلام) کی حسِ حق شناسی کو بھی مجسم کیا ہے، یعنی یوسف (علیه السلام) نے تمام مشکلات کے باوجود اس کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا جس کے پنجے میں آپ کی زندگی تھی ۔
۳۔ َ”غَلَّقَتْ الْاٴَبْوَابَ “ کہ جو مبالغے کا معنی دیتا ہے، دلالت کرتا ہے کہ تمام دروازے مضبوطی اور سختی سے بند کر دےے اوریہ اس ہیجان انگیز منظر کی تصویر کشی ہے ۔
۴۔” وَقَالَتْ ھَیْتَ لَک“ اس کا معنی ہے ”جلدی آؤ اس کی طرف جوتمہارے لئے مہیا ہے “ یا ”آجاؤ کہ مَیں تمہارے اختیار میں ہوں “۔
اس جملے کے وصالِ یوسف سے ہمکنار ہونے کے لئے زوجہ  مصر کی آخری بات پیش کی گئی ہے لیکن ایک وزنی، پرمتانت اور معنی خیز انداز میں بغیر کسی تحریک آمیز اور بد آموزی کے ۔
۵۔” مَعَاذَ اللهِ إِنَّہُ رَبِّی اٴَحْسَنَ مَثْوَایَ“یہ جملہ حضرت یوسف (علیه السلام) نے اس حسین ساحرہ کی دعوت کے جواب میں کہااکثر مفسرین کے بقول اس کا معنی ہے:”مَیں خدا کی پناہ مانگتا ہوں ، تیرا شوہر  مصر میرا بزرگ اور مالک ہے اور وہ میرا احترام کرتا ہے اور مجھ پر اعتماد کرتا ہے، مَیں اس سے کسی طرح کی خیانت کروں ، یہ کام خیانت بھی اور ظلم بھی “” إِنَّہُ لَایُفْلِحُ الظَّالِمُونَ“۔
اس طرح قرآن حضرت یوسف (علیه السلام) کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ انہوں نے  مصر کی بیوی کے احساسات بیدار کرنے کی کوشش کی ۔
۶۔”وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہِ وَھَمَّ بِھَا لَوْلَااٴَنْ رَاٴَی بُرْھَانَ رَبِّہِ “ ایک طرف قرآن اس خلوت گاہ عشق کے انتہائی حساس مناظر کی تصویر کشی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ کیفیت اس قدر تحریک آمیز تھی کہ اگر حضرت یوسف (علیه السلام) عقل، ایمان یاعصمت کے بلند مقام پر نہ ہوتے تو گرفتار ہوجاتے، دوسری طرف آیت کے اس حصے میں قرآن طغیان گر شہوت کے دیو پر حضرت یوسف (علیه السلام) کی آخری کامیابی پر ایک خوبصورت انداز میں خرات تحسین پیش کررہا ہے ۔
یہ بات قابل ِ توجہ ہے کہ لفظ”ھم “ استعمال ہوا ہے یعنی  مصر کی بیوی نے پختہ ارادہ کررکھا تھا اور یوسف (علیه السلام) نے بھی اگر برھان پروردگار نہ دیکھی ہوتی تو وہ بھی ارادہ کرتے ۔
کیا کوئی لفظ یہاں قصد وارادہ سے بڑھ کر متانت آمیز استعمال کیا جاسکتا ہے؟

۲۵وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیصَہُ مِنْ دُبُرٍ وَاٴَلْفَیَا سَیِّدَھَا لَدَی الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ اٴَرَادَ بِاٴَھْلِکَ سُوئًا إِلاَّ اٴَنْ یُسْجَنَ اٴَوْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ۔
۲۶ قَالَ ھِیَ رَاوَدَتْنِی عَنْ نَفْسِی وَشَھِدَ شَاھِدٌ مِنْ اٴَھْلِھَا إِنْ کَانَ قَمِیصُہُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَھُوَ مِنَ الْکَاذِبِینَ۔
۲۷ وَإِنْ کَانَ قَمِیصُہُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَھُوَ مِنَ الصَّادِقِینَ۔
۲۸ فَلَمَّا رَاٴَی قَمِیصَہُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّہُ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ۔
۲۹ یُوسُفُ اٴَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِکِ إِنَّکِ کُنتِ مِنَ الْخَاطِئِین۔

ترجمہ

۲۵۔اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے (جبکہ زوجہ  یوسف کا تعاقب کررہی تھی )اور پیچھے سے اس کی قمیص پھاڑ دی اور اس دوران اس عورت کے سردار کو ان دونوں نے دروازے پر پایا ، اس عورت نے کہا: جو تیرے اہل سے خیانت کا ارادہ کرے اس کی سزا سوائے زندان یا دردناک عذاب کے کیا ہوگی ۔
۲۶۔(یوسف )نے کہا: اس نے مجھے اصرار سے اپنی طرف دعوت دی اور اس موقع پر اس عورت کے خاندان میں سے ایک شاہد نے گواہی دی کہ اگر اس کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو عورت سچ کہتی ہے اور یہ جھوٹوں میں سے ہے ۔
۲۷۔اور اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو پھر وہ عورت جھوٹ بولتی ہے اور یہ سچوں میں سے ہے ۔
۲۸۔جب ( مصر نے) دیکھا تو اس (یوسف )کی قمیص پیچھے سے پھٹی تھی تو اس نے کہا کہ یہ تمہارے مکر وفریب میں سے ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ عورتوں کا مکر وفریب عظیم ہوتا ہے ۔
۲۹۔یوسف! اس امر سے صرفِ نظر کرو اور (اے عورت!)تو بھی اپنے گناہ پر استغفار کر کہ تو خطا کاروں میں سی تھی ۔

 

۲۔ اخلاص کی جزازوجہ مصر کی رسوائی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma