برہانِ پروردگار سے کیا مراد ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
مصر کی بیوی کا عشقِ سوزاںنفس سے جہاد:

”برھان“ در اصل ”برہ“ کا مصدر ہے کہ جس کا معنی ہے”سفید ہونا“ بعد ازاں ہر محکم وقوی دلیل کو برھان کہا جانے لگا تو مقصودواضح ہونے کا سبب بنے، اس بناء پر برھانِ الٰہی کہ جو نجاتِ یوسف (علیه السلام) کا سبب بنی ایک قسم کی واضح خدائی دلیل ہے، اس کے بارے میں مفسرین نے بہت سے احتمالات ذکر کئے ہیں ، ان میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔ علم وایمان، انسانی تربیّت اور برجستہ وعمدہ صفات۔
۲۔ زنا کے حکمِ تحریمی کے بارے میں آگاہی وعلم۔
۳۔ مقامِ نبوت وگناہ سے معصوم ہونا ۔
۴۔ ایک قسم کی الہٰی امداد و نصرت جو ان کے نزدیک نیک اعمال کی وجہ سے اس حساس لمحے میں انہیں میسّر آئی ۔
۵۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ایک بُت تھا کہ جو زوجہ (علیه السلام) مصر کا معبود شمار ہوتا تھا، اچانک اس عورت کی نگاہ اس بُت پر پڑی، اسے یوں محسوس ہوا جیسے اسے وہ گھور رہا ہے اور اس کی خیانت آمیز حرکات کو غیض و غضب کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے، وہ اٹھی اور اس بُت پر پردہ ڈال دیا، یوسف (علیه السلام) نے یہ منظر دیکھا تو ان کے دل میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا، وہ لرز گئے اور کہنے لگے تُو تو اس بے عقل، بے شعور، حس وتشخیص سے عاری بُت سے شرم کرتی ہے، کیسے ممکن ہے کہ مَیں اپنے پروردگار سے شرم نہ کروں کہ جو تمام چیزوں کو جانتا ہے اور تمام مکفی امور اور خلوت گاہوں سے باخبر ہے ۔
اس احساس نے یوسف (علیه السلام) یوسف (علیه السلام) کو ایک نئی توانائی اور قوت بخشی اور شدید جنگ کہ جو ان کی روح کہ گہرائیوں میں جذبات اور عقل کے درمیان جاری تھی اس میں ان کی مدد کی تاکہ وہ جذبات کی سرکش موجوں کو پیچھے دھکیل سکیں ۔(۱)
اس کے باوجود کوئی مانع نہیں کہ یہ سب معانی یکجامراد ہوں کیونکہ ”برھان“ کے وسیع مفہوم میں سب موجود ہیں اور قرآنی آیات وروایات میں لفظ”برھان“ کا مندرجہ بالا اکثر معانی پر اطلاق ہوا ہے ۔
باقی رہیں وہ بے بنیاد روایات جو مفسرین نے نقل کی ہیں کہ جن کے مطابق حضرت یوسف (علیه السلام) نے گناہ کا ارادہ کرلیا تھا کہ اچانک حالتِ مکاشفہ میں جبرائیل یا حضرت یعقوب (علیه السلام) کو دیکھا کہ جو اپنی انگلی دانتوں سے کاٹ رہے تھے انہیں دیکھا تو یوسف (علیه السلام) پیچھے ہٹ گئے ۔ ایسی روایات کی کوئی معتبر سند نہیں ہے، یہ اسرائیلیات کی طرح ہیں اور کوتاہ فکر انسانوں کے دماغوں کی پیداوار ہیں جنہوں نے مقامِ انبیاء کو بالکل نہیں سمجھا ۔
اب ہم باقی آیت کی تفسیر کی طرف توجہ کرتے ہیں، قرآن مجید کہتا ہے: ہم نے یوسف کو اپنی ایسی برھان پیش کی تاکہ بدی اور فحشاء کو اس سے دور کریں(کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ) ، کیونکہ وہ ہمارے برگزیدہ اور مخلص بندوں میں سے تھا(إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ہم نے جو اس کے لئے غیبی اور روحانی امداد بھیجی تاکہ وہ بدی اور گناہ سے رہائی پائے تو یہ بے دلیل نہیں تھا، وہ ایک ایسا بندہ تھا جس نے اپنے آپ کو آگاہی ، ایمان، پرہیزگاری اور پاکیزہ عمل سے آراستہ کیا ہوا تھا اور اس کا قلب وروح شرک کی تاریکیوں سے پاک اور خالص تھا، اسی لئے وہ ایسی خدائی امداد کی اہلیت و لیاقت رکھتا تھا، اس دلیل کا ذکر نشاندہی کرتا ہے کہ ایسی کدائی امداد جو طغیانی وبحرانی لمحات میں یوسف (علیه السلام) جیسے انبیاء کو میسّر آتی تھی ان سے مخصوص نہ تھی بلکہ جو شخص بھی خدا کے خالص بندوں اور ”عباد اللّٰہ المخلصین“ کے امرے میں آتا ہو ایسی نعمات کے لائق ہے ۔

 


۱۔ نور الثقلین،ج۲،ص ۴۲۲و تفسیر قرطبی، ص ۳۳۹۸،ج ۵۔

 

مصر کی بیوی کا عشقِ سوزاںنفس سے جہاد:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma