زیرِ نظر دوسری آیت ”اَم یقولون افتراہ....“ کی ابتداء میں لفظ ”اَم“ کے بارے میں دواحتمالات ذکر کئے ہی، ایک یہ کہ یہ ”او“ (یا) کے معنی میں ہے اور دوسرا یہ کہ یہ ”بل“ کے معنی میں ہے ۔
پہلی صورت میں آیت کا معنیٰ یہ ہوگا: شاید تو نے ہماری آیات کو مخالفین کی بہانہ سازیوں کے خوف سے انھیں نہیں سنایا ”یا یہ کہ“ تُونے تو آیات الٰہی پڑھی ہیں لیکن انھوں نے انھیں خداپر افتراء سمجھا ہے ۔
دوسری صورت میں آیت کا معنی اس طرح ہوگا: آیات الٰہی کی تبلیغ میں ان کی بہانہ سازیوں کی وجہ سے تاخیر نہ کرو۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ یہ لوگ تو بنیادی طور پر وحی اور نبوت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر نے خدا پر افتراء باندھا ہے ۔
درحقیقت اس بیان کے ذریعے خدا اپنے پیغمبر کو خبر دیتا ہے کہ من پسند کے معجزات کے بارے میں ان کے تقاضے تلاشِ حقیقت کی بناپر نہیں بلکہ اس لئے ہیں کہ وہ اصولی طور پر نبوّت کے منکر ہیں اور یہ سب ان کے بہانے ہیں ۔
بہرحال مندرجہ بالا آیات کے مفہوم میں غور وخوض سے اور خصوصاًادبی لحاظ سے ان کے الفاظ دقتِ نظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسرا معنی آیات کے مفہوم سے زیادہ نزدیک ہے (غور کیجئے گا) ۔