فرعون کے ساتھ زبردست مقابلہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
مدین کے تباہ کاروں کا انجامتفسیر

حضرت شعیب(علیه السلام) اور اہلِ مدین کی داستان ختم ہونے کے بعد اب اشارہ حضرت موسی(علیه السلام)ٰ بن عمران کی سرگزشت کے ایک پہلو کی طرف کیا گیا ہے، یہاں فرعون کے ساتھ ان کے مقابلوں کا ذکر ہے اور اس سورہ میں یہ انبیاء الٰہی سے متعلق ساتویں داستان ہے ۔
تمام پیغمبروں کی نسبت قرآن میں حضرت موسی(علیه السلام)ٰ کا واقعہ زیادہ آیا ہے، تیس سے زیادہ سورتوں میں موسی(علیه السلام)ٰ وفرعون اور بنی اسرائیل کے واقعہ کی طرف سو سے زیادہ مرتبہ اشارہ ہوا ہے ۔
حضرت صالح(علیه السلام) شعیب(علیه السلام) اور لوط (علیه السلام) جیسے ابنیاء کہ جن کے واقعات ہم پڑھ چکے ہیں کی نسبت حضرت موسیٰ کے واقعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ ان انبیاء نے گمراہ قوموں کے خلاف قیام کیا تھا ۔
اصولی طور پر صاف پانی کے لئے چشمے کو صاف کرنا چاہیے، جب تک فاسد حکومتیں برسرِاقتدار ہیں کوئی معاشرہ شعادت اور نیک بختی کا منھ نہیں دیکھے گا، خدائی رہبروں کو ایسے معاشروں میں سب سے پہلے فساد کے ان مراکز کو درہم وبرہم کرنا چاہیے ۔
توجہ رہے کہ یہاں ہم حضرت موسی(علیه السلام)ٰ کی سرگزشت کے ایک مختصر گوشے کا مطالعہ کریں گے کہ جو مختصر ہونے کے باوجود تمام انسانوں کو ایک عظیم پیغام دے رہا ہے ۔
پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ہم نے موسیٰ کو اپنے عطا کردہ معجزات اور قوی دلیل کے ساتھ بھیجا (وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مُوسیٰ بِآیَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِینٍ) ۔
”سلطان“کا معنی”تسلط“ یہ کبھی ظاہری تسلط کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی منطقی تسلط کے معنی میں، یعنی ایسا تسلط کہ کہ جو ںمخالف کے سامنے ایسی دیوار بن جائے کہ اسے فرار کا کوئی راستہ نہ ملے ۔
مندرجہ بالا آیت میں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ”سلطان“ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے اور لفظ ”آیات“ حضرت موسی(علیه السلام)ٰ کے واضح معجزات کی طرف اشارہ ہے، مفسّرین نے ان دو لفظوں کے بارے میں احتمالات بھی ذکر کئے ہیں ۔
بہرحال موسی(علیه السلام)ٰ کو سرکوبی کرنے والے ان معجزات اور قوی منطق کے ساتھ ”ہم نے فرعون اور اس کے اطرافیوں کی طرف بھیجا“ (إِلَی فِرْعَوْنَ وَمَلَئِہِ) ۔
جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے ”ملاٴ“ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ جن کا ظاہر آنکھوں کو پُر کردیتا ہے اگرچہ وہ اندر سے خالی ہوتے ہیں، منطق قرآن میں اس کا اطلاق زیادہ تر اعیان واشراف اور پُرفریب اشخاص پر ہوتا ہے جو ظالم طاقتوں کے گرد رہتے ہیں ۔
فرعون کے اطرافی جو دیکھ رہے تھے کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے قیام سے ان کے ناجائز مفادات خطرے میں ہیں حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے معجزات اور منطق کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے پر تیار نہ ہوئے ”لہٰذا انھوں نے حکمِ فرعون کی پیروی کی“(فَاتَّبَعُوا اٴَمْرَ فِرْعَوْنَ) ۔ مگر فرعون کا حکم ہرگز ان کی سعادت کا ضامن اور سرمایہٴ رشد ونجات نہیں ہوسکتا تھا (وَمَا اٴَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیدٍ) ۔
البتہ فرعون کو یہ مقام آسانی سے نہیں مل گیا تھا بلکہ اس نے اپنے مقاصد کے لئے ہر طرح کے سازشی حربے استعمال کی اور حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا، یہاں تک کہ وہ اس کے لئے نفسیاتی ہتھکنڈہ ہاتھ سے جانے سے نہیں دیتا تھا ۔
کبھی وہ کہتا تھا کہ موسیٰ چاہتا ہے کہ تم سے زمینیں، ہتھیالے اور تمھیں کہ جو ان کے اصلی مالک ہو نکال باہر کرے، قرآن نے اس بات کو یوں نقل کیا ہے:
<یُرِیدُ اٴَنْ یُخْرِجَکُمْ مِنْ اٴَرْضِکُمْ (اعراف/۱۱۰)
کبھی وہ اپنی قوم کے مذہبی احساس کو تحریک دیتا اور کہتا:
<إِنِّی اٴَخَافُ اٴَنْ یُبَدِّلَ دِینَکُمْ
مَیں اس سے ڈرتا ہوں کہ یہ کہیں تمھارے دین ہی کو نہ بدل ڈالے ۔ (المومن/۲۶)
کبھی کہتا:
<اٴَوْ اٴَنْ یُظْھِرَ فِی الْاٴَرْضِ الْفَسَادَ
مجھے ڈر ہے کہ یہ تمھاری زمین پر فتنہ وفساد برپا نہ کردے ۔ (المومن/۲۶)
کبھی حضرت موسیٰ(علیه السلام) پر تہمت لگاتا، کبھی انھیں دھمکی دیتا، کبھی اہلِ مصر کے سامنے اپنی قدرت وشوکت کا مظاہرہ کرتا اور کبھی مکاری سے اپنے آپ کو ایک ایسے رہبر کی حیثیت سے پیش کرتا کہ جو ان کی خیر اور اصلاح کا ضامن ہے اور چونکہ روزِ قیامت ہرقوم وملت اور ہر گروہ اپنے رہبر کے ساتھ محشور ہوگا اور جہان کے رہبر وہاں بھی رہبر شمار ہوں گے لہٰذا فرعون بھی کہ جو اپنے زمانے کے گمراہوں کا رہبر تھا، میدان حشر میں ان کے آگے آگے ہوگا (یَقْدُمُ قَوْمَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ) ۔ لیکن یہ پیشوا اپنے پیروکاروں کو اس جلادینے والی گرمی میں کسی ٹھنڈے میٹھے پانی کے خوشگوار چشمے کے کنارے لے جانے کے بجائے انھیں آتش جہنم میں لے کر داخل ہوگا (فَاٴَوْرَدَھُمْ النَّارَ) ۔ اور کیسی بُری چیز ہے کہ آگ انسان کے لئے پانی کا گھاٹ قرار پائے کہ جس میں وہ اخل ہو(وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ) ۔ وہ چیز کہ جو تشنگی دور کرنے کے بجائے انسان کے سارے وجود کو جلادے اور سیراب کرنے کی بجائے اس کی پیاس اور بھڑکادے ۔
توجہ رہے کہ ”ورود“ در اصل پانی کی طرف چلنے اور س کے قریب ہونے کے معنی میں ہے لیکن بعد ازں ہر قسم کی چیز کے کسی چیز پر داخل ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
”وِرد“ (بروزن ”ذکر“ ) اس پانی کو کہتے ہیں جس پر انسان وارد ہو اور پانی پر وارد ہونے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔
اور ”مورود“ اس پانی کو کہتے ہیں جس پر وارد ہوا جائے (یہ اسم مفعول ہے) ۔
اس بناء پر ”بئس الورد المورود“ کا معنی یہ ہوگا: آگ پانی پینے کی بُری جگہ ہے کہ جس پر وہ وارد ہوں گے ۔ (۱)
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اس دنیا کے ہمارے اعمال وافعال ایک وسیع صورت (ENLRRGED FORM) میں مجسم ہوں گے، اُس جہاں کی خوش بختیاں اور بدبختیاں ہمارے اِس جہاں کے کاموں کا پَرتو ہیں، جو اشخاص یہاں اہل بہشت کے رہبر ورہنما ہیں وہاں بھی مختلف گروہوں کو جنت اور سعادت کی طرف لے جائیں گے اور خود ان کے آگے آگے ہوں گے ۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: اِس جہان میں وہ لعنتِ خدا سے ملحق ہوگئے، سخت عذاب اور سزا میں گرفتار ہوگئے اور ٹھاٹھیں نارتی ہوئی موجوں میں وہ غرق ہوگئے اور روزِ قیامت بھی رحمتِ الٰہی سے دور ہوں گے (وَاٴُتْبِعُوا فِی ھٰذِہِ لَعْنَةً وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ) ۔
ان کا ننگین نام صفحاتِ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ایک گمراہ اور جابر قوم کے عنوان سے ثبت ہوگا، لہٰذا انھیں اس دنیا میں نقصان اٹھانا پڑا اور دوسرے جہان میں بھی اور جہنم کی آگ انھیں دیا جانے والا کیسا بُرا عطیہ ہے (بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ) ۔
”رفد“ در اصل کوئی کام انجام دینے میں مدد کرنے کے معنی میں ہے، یہاں تک کہ اگر کسی چیز کو دوسری چیز کا سہارا قرار دیا جائے تو اسے بھی ”رفد“ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ لفظ عطا اور بخشش کے معنی میں استعمال ہونے لگاکیونکہ یہ عطا کرنے والے کی طرف سے اس کی مدد ہوتی ہے جسے عطا کی جارہی ہو۔

 

۱۰۰ ذٰلِکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الْقُریٰ نَقُصُّہُ عَلَیْکَ مِنْھَا قَائِمٌ وَحَصِیدٌ
۱۰۱ وَمَا ظَلَمْنَاھُمْ وَلَکِنْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَھُمْ فَمَا اٴَغْنَتْ عَنْھُمْ آلِھَتُھُمْ الَّتِی یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ شَیْءٍ لَمَّا جَاءَ اٴَمْرُ رَبِّکَ وَمَا زَادُوھُمْ غَیْرَ تَتْبِیبٍ
۱۰۲ وَکَذٰلِکَ اٴَخْذُ رَبِّکَ إِذَا اٴَخَذَ الْقُریٰ وَھِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ اٴَخْذَہُ اٴَلِیمٌ شَدِیدٌ
۱۰۳ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ ذٰلِکَ یَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَشْھُودٌ
۱۰۴ وَمَا نُؤَخِّرُہُ إِلاَّ لِاٴَجَلٍ مَعْدُودٍ

ترجمہ

۱۰۰۔ یہ شہروں اور آبادیوں کی خبریں ہیں کہ جو ہم تجھ سے بیان کرتے ہیں کہ جن میں سے بعض ابھی تک قائم ہیں اور بعض کٹ چکی ہیں (اورختم ہوچکی ہیں) ۔
۱۰۱۔ ہم نے ان پر ظلم کیا بلکہ انھوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور جب عذابِ الٰہی کا حکم آپہنچا تو خدا کہ جنھیں وہ ”الله“ کے سوا پکارتے تھے انھوں نے ان کی مدد نہ کی اور ان کے لئے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا ۔
۱۰۲۔ اور تیرے پروردگار کا عذاب ایسا ہی ہوتا ہے جب وہ ظالم شہروں اور آبادیوں کوسزا دیتا ہے (جی ہاں) اس کی سزا اور عذاب دردناک اور شدید ہوتا ہے ۔
۱۰۳۔ اِس میں اس شخص کے لئے نشانی ہے کہ جو عذابِ آخرت سے ڈرتا ہے، وہی دن کہ جب لوگ جمع ہوں گے اور وہ دن کہ جس کا مشاہدہ سب کریں گے
۱۰۴۔اور ہم اس میں محدود مدّت کے سوا تاخیر نہیں کریں گے ۔

 


۱۔ ترکیب نحوی کے لحاظ سے یہ جملہ اس طرح ہے:
”بئس“ فعل ذم ہے ، اس کا فاعل ”الورد“ ہے ، ”المورود“ صفت ہے اور مخصوص بالذم لفظ ”النار“ ہے ، جو محذوف ہے ۔
بعض ادباء نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ ”المورود“ مخصوص بالذم ہے اور آیت میں کوئی چیز محذوف نہیں ہے، لیکن پہلا احتمال زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے ۔
ترکیب نحوی کے لحاظ سے یہ جملہ اس طرح ہے جس طرح ہم نے ”بئس الورد المورود“ بیان کیا ہے ۔

 

 

مدین کے تباہ کاروں کا انجامتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma