تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
ابراہیم بت شکن کی زندگی کے کچھ حالاتقوم لوط کی شرمناک زندگی

گزشتہ آیات میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ابراہیم (علیه السلام) بہت جلد نووارد مہمانوں کے بارے میں جان گئے کہ وہ خطرناک دشمن نہیں بلکہ پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں اور کود انہی کے بقول ایک ذمہ داری کی انجام دہی کے لئے قوم ِ لوط کی طرف جارہے ہیں ۔
ان کی طرف سے جب ابراہیم (علیه السلام) کی پریشانی ختم ہوگئی اور ساتھ ہی انھیں صاحبِ شرف فرزند اور جانشین کی بشارت مل گئی تو فورا وہ قوم لوط کی فکر میں پڑ گئے جن کی نابودی پر وہ فرستادگان مامور تھے، وہ اس سلسلے میں ان سے جھگڑنے لگے اور بات چیت کرنے لگے ( فَلَمَّا ذَھَبَ عَنْ إِبْرَاھِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْہُ الْبُشْریٰ یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ) ۔ (۱)
ممکن ہے یہاں یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) ایک آلودہ گناہ قوم کے بارے میں کیوں گفتگو کے لئے کھڑے ہوگئے اور پروردگار کے اس رسولوں کے ساتھ کہ جو فرمان خدا سے مامور تھے جھگڑنے لگے (یہی وجہ ہے کہ ”یجادلنا“ کی تعبیر استعمال ہوئی یعنی ہم سے مجادلہ کرتے تھے) حالانکہ ایسا ایک پیغمبر کی شان سے اور وہ بھی ابراہیم (علیه السلام)جیسے باعظمت پیغمبر سے بعید ہے ۔
اسی لئے قرآن فوراً بعد والی آیت میں کہتا ہے: ابراہیم بردبار، بہت مہربان،خدا پر توکل کرنے والا اور اس کی طرف بازگشت کرنے والا ہے (إِنَّ إِبْرَاھِیمَ لَحَلِیمٌ اٴَوَّاہٌ مُنِیبٌ) ۔ (2)
دواصل ان تین لفظوں میں مذکورہ سوال کا جواب دیا گیا ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) کے لئے ان صفات کا ذکر نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا مجادلہ اور جھگڑنا ممدوح اور قابل تعریف ہے، یہ اس لئے کہ ابراہیم (علیه السلام) پر یہ واضح نہیں تھا کہ خدا کی طرف سے عذاب کا قطعی فرمان صادر ہوچکا ہے، انھیں احتمال تھا کہ قوم کی نجات کے لئے ابھی امید کی کرن باقی ہے اور ابھی احتمال ہے کہ وہ بیدار ہوجائے لہٰذا ابھی شفاعت کاموقع باقی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سزا اور عذاب میں تاخیر کے خواستگار ہوئے کیونکہ وہ حلیم، اور بردبار تھے، وہ بہت مہربان بھی تھے اور ہرموقع پر خدا کی طرف رجوع کرنے والے بھی تھے ۔
لہٰذا یہ جو بعض نے کہا کہ اگر ابراہیم (علیه السلام) کا مجادلہ خدا کے ساتھ تھا تو اس کا کوئی معنی نہیں ہے اور اگر اس کے بھیجے ہوئے فرشتوں کے ساتھ تھا تو وہ بھی اپنی طرف سے کوئی کام انجام نہیں دے سکتے تھے اس لئے یہ مجادلہ کسی صورت میں صحیح نہیں ہوسکتا، اس کا جواب یہ ہے کہ ایک قطعی حکم کے مقابلے میں تو بات نہیں ہوسکتی لیکن غیر قطعی فرامین، شرائط وکوائف میں تبدیلی کی سورت میں بدلے جاسکتے ہیں کیونکہ ان میں بازگشت اور رجوع کی راہ بند نہیں ہوتی، دوسرے لفظوں میں ایسے فرامین مشروط ہوتے ہیں ناکہ مطلق ۔
باقی رہا یہ احتمال کہ یہاں مجادلہ مومنین کی نجات کے لئے تھا تو یہاں سورہٴ عنکبوت کی آیہ ۳۱،اور ۳۲ سے اشتباہ ہوا ہے جہاں فرمایا گیا ہے:
<وَلَمَّا جَائَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاھِیمَ بِالْبُشْریٰ قَالُوا إِنَّا مُھْلِکُو اٴَھْلِ ھٰذِہِ الْقَرْیَةِ إِنَّ اٴَھْلَھَا کَانُوا ظَالِمِینَ قَالَ إِنَّ فِیھَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ اٴَعْلَمُ بِمَنْ فِیھَا لَنُنَجِّیَنَّہُ وَاٴَھْلَہُ إِلاَّ امْرَاٴَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ
جب ہمارے رسول بشارت لے کر ابراہیم کے پاس آئے تو کہا: ہم اس بستی (قوم لوط کا شہر) والوں کو ہلاک کردیں گے کیونکہ اس کے باسی ظالم ہیں، ابراہیم نے کہا: وہاں تو لوط رہتا ہے، انھوں نے کہا: ہم وہاں رہنے والوں سے بہت آگاہ ہیں، اسے اور اس کے خاندان کو ہم نجات دیں گے سوائے اس کی بیوی کے کہ جو قوم میں ہی رہے گی ۔
یہ احتمال صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ بعد والی آیت سے کسی طرح مناسبت نہیں رکھتا، جس کے بارے میں ابھی ہم بحث کریں گے ۔
بعد والی آیت میں ہے: رسولوں نے فوراً-ابراہیم (علیه السلام) سے کہا: اے ابراہیم! اس تجویز سے صرفِ نظر کرو اور شفاعت رہنے دو کیونکہ یہ اس کا موقع نہیں ہے ( یَاإِبْرَاھِیمُ اٴَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا )، کیونکہ تیرے پروردگار کا حتمی اور یقینی فرمان آپہنچا ہے (إِنَّہُ قَدْ جَاءَ اٴَمْرُ رَبِّکَ)،اور خدا کا عذاب بلاکلام ان پر آکررہے گا ( وَإِنَّھُمْ آتِیھِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُود) ۔
”ربک“ (تیرا رب) ۔یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ یہ عذاب نہ سرف یہ کہ انتقامی حوالے سے نہیں تھا بلکہ اس کا سرچشمہ پروردگار کی صفتِ ربوبیت ہے جو بندوں کی تربیت وپرورش اور اجتماعِ انسانی کی اصلاح کی نشانی ہے ۔
یہ بعض روایات میں ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) نے خدا کے رسولوں سے کہا: اگر قوم میں سو مومن افراد ہوئے تو پھر بھی ہلاک نہیں کرو گے؟ اس پر انھوں نے کہا: نہیں، ابراہیم (علیه السلام) نے پوچھا: اگر پچاس افراد ہوئے ؟ تو وہ کہنے لگے: نہیں، پوچھا: اگر تیس ہوئے؟ وہ بولے: نہیں، کہا اگر دس ہوئے؟ وہ کہنے لگے : نہیں، پوچھا: اگر پانچ ہوئے؟ انھوں کہا: نہیں، یہاں تک کہ پوچھا کہ: اگر ایک شخص بھی ان میں صاحب ایمان ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں، اس پر حضرت ابراہیم (علیه السلام) نے کہا: یقینا لوط تو ان کے درمیان ہیں، انھوں نے جواب دیا: ہم خوب جانتے ہیں اسے اور اس کی بیوی کے سوا اس کے خاندان کو ہم نجات دیں گے ۔ (3)
یہ روایت کسی طرح اس بات کی دلیل نہیں کہ مجادلہ سے مراد یہ گفتگو تھی بلکہ یہ گفتگو تو مومنین کے بارے میں تھی، حضرت ابراہیم (علیه السلام) نے جو گفتگوکفار کے بارے میں کی وہ اس سے جدا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ سورہ عنکبوت کی مذکورہ آیات بھی اس تفسیر کے منافی نہیں ہے (غور کیجئے گا)


۷۷ وَلَمَّا جَائَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِیءَ بِھِمْ وَضَاقَ بِھِمْ ذَرْعًا وَقَالَ ھٰذَا یَوْمٌ عَصِیبٌ۔
۷۸ وَجَائَہُ قَوْمُہُ یُھْرَعُونَ إِلَیْہِ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوا یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ قَالَ یَاقَوْمِ ھٰؤُلَاءِ بَنَاتِی ھُنَّ اٴَطْھَرُ لَکُمْ فَاتَّقُوا اللهَ وَلَاتُخْزُونِی فِی ضَیْفِی اٴَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیدٌ۔
۷۹ قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِی بَنَاتِکَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِیدُ۔
۸۰ قَالَ لَوْ اٴَنَّ لِی بِکُمْ قُوَّةً اٴَوْ آوِی إِلَی رُکْنٍ شَدِیدٍ۔

 

ترجمہ

۷۷۔جب ہمارے رسول لُوط کے پاس آئے تو وہ ان کے آنے سے ناراحت ہوا اور اس کا دل پریشان ہوا اور کہا کہ آج کا دن سخت ہے ۔
۷۸۔اور اس کی قوم جلدی سے اس کے پاس آئی اور وہ پہلے سے برے کام انجام دیتی تھی، اس نے کہا: اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمھارے لئے زیادہ پاکیزہ ہیں (ان سے ازدواج کرو اور برے اعمال چھوڑ دو) خدا سے ڈرو اور مجھے میری مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو، کیا تمھارے درمیان جوکوئی مرد رشید نہیں؟۔
۷۹۔وہ کہنے لگے: تو جانتا ہے کہ ہم تیری بیٹیوں کے لئے حق(اور میلان)نہیں رکھتے اور تو اچھی طرح جانتا ہے ہم کیا چاہتے ہیں ۔
۸۰۔کہا (افسوس) اے کاش! میں تمھارے مقابلے میں کوئی طاقت رکھتا یا کوئی محکم سہارا اورمدد گار مجھے میسّر ہوتا (تو اس وقت میں دیکھتا کہ تم جیسے برے لوگون سے کیا سلوک کروں) ۔

 


۱۔ ”روع“(بروزن”نوع“)خوف ووحشت کے معنی میں ہے اور ”روع“(بروزن ”نوح“)روح یا لوح کے ایک حصے کے معنی میں ہے جو خوف ووحشت کے نزول کا مرکز ہے (قاموس اللغت کی رجوع کریں) ۔

2۔ ”حلیم“،”حلم“ سے ہے، اس کا معنی ایک مقدس ہدف تک پہنچنے کے لئے بردباری اختیار کرنا اور ”آواہ“ اصل میں اس شخص کے معنی میں ہے جو بہت آہیں بھرتا ہو چاہے اپنی ذمہ داریوں کے خوف سے یالوگوں کو گھیرے ہوئے مشکلات ومصائب کی وجہ سے اور ”منیب“ ”انابہ“ کے مادہ سے رجوع اور بازگشت کرنے کے معنی میںہے ۔
3۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۲۲۶۔
 
ابراہیم بت شکن کی زندگی کے کچھ حالاتقوم لوط کی شرمناک زندگی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma