قوم لوط کی شرمناک زندگی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
تفسیرچند قابل توجہ نکات

سورہٴ اعراف کی آیات میں قوم لوط کی سرنوشت کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کی تفسیر ہم وہاں پیش کرچکے ہیں، یہاں انبیاء اور ان کی قوموں کی داستانوں کا سلسلہ جاری ہے، اسی مناسبت سے گزشتہ کچھ آیات حضرت لوط (علیه السلام) اور ان کی قوم کی سرگزشت سے تعلق رکھتی تھیں، زیر نظر آیات میں اس گمراہ اور منحرف قوم کی زندگی کے ایک اور حصے سے پردہ اٹھایا گیا ہے تاکہ سارے انسانی معاشرے کی نجات وسعادت کے اصلی مقصد کو ایک اور زاوےے سے پیش کیا جائے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: جب ہمارت رسول لوط کے پاس آئے تو وہ ان کے آنے پر بہت ہی ناراحت اور پریشان ہوئے ، ان کی فکر اور روح مضطرب ہوئی اور غم وانداہ نے انھیں گھیر لیا (وَلَمَّا جَائَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِیءَ بِھِمْ وَضَاقَ بِھِمْ ذَرْعًا ) ۔
اسلامی روایات اور تفاسیر میں آیا ہے کہ حضرت لوط (علیه السلام) اس وقت اپنے کھیت میں کام کررہے تھے اچانک انھوں نے خوبصورت نوجوانوں کو دیکھا جو ان کی طرف آرہے تھے، وہ ان کی ہاں مہمان ہونا چاہتے تھے، اب حضرت لوط (علیه السلام) مہمانوں کی پذیرائی بھی چاہتے تھے لیکن اس حقیقت کی طرف بھی ان کی توجہ تھی کہ ایسے شہر میں جو انحراف جنسی کی آلودگی میں غرق ہے ان خوبصورت نوجوانوںکا آنا طرح طرح کے مسائل کا موجب ہے اور ان کی آبرو ریزی کا بھی احتمال ہے، اس وجہ سے حضرت لوط (علیه السلام) سخت مشکل سے دوچار ہوگئے، یہ مسائل روح فرسا افکار کی صورت میں ان کے دماغ میں ابھرے اور انھوں نے آہستہ آہستہ اپنے آپ سے کہنا شروع کیا: آج بہت سخت اور وحشتناک دن ہے (وَقَالَ ھٰذَا یَوْمٌ عَصِیبٌ) ۔
”سِیء“ مادہ”ساء“سے ناراحت وپریشان ہونے کے معنی میں ہے ۔
”ذرع“ کو بعض نے دل اور بعض نے خُلق کے معنی میں لیا ہے، اس بنا پر ”ضاق بھم ذرعا“ کا مفہوم ہے: ان کا دل یا خُلق ان کے بِن بلائے مہمانوں کے باعث ان سخت حالات میں بہت پریشان ہوا ۔
لیکن فخررازی نے اپنی تفسیر میں ازہری سے نقل کیاہے کہ ایسے موقع پر ”ذرع“ طاقت کے معنی میں ہے، اور اصل میں اس کا مطلب ہے” چلتے وقت اونٹ کے اگلے قدموں کے درمیان کا فاصلہ“۔
فطری اور طبیعی امر ہے جب اونٹ کی پشت پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لاددیں تو وہ مجبورا اپنے اگلے پاؤں کو زیادہ نزدیک کر کے رکھے گا اور چلتے وقت ان کے درمیان فاصلہ کم ہوگا، اسی مناسبت سے یہ تعبیر تدریجا کسی حادثے کی سنگینی کی وجہ سے ہونے والی ناراحتی اور پریشانی کے معنی میں استعمال ہونے لگی ۔
بعض کتبِ لغت مثلا ”قاموس“ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعبیر ایسے مواقع پر استعمال ہوتی ہے جہاں حادثے کی شدت اتنی ہو کہ انسان کو کوئی چارہ کار سجھائی نہ دے ۔
”عصیب“ ”عصب“ (بروزن ”اسپ“) کے مادہ سے ہے، اس کا معنی ہے کسی چیز کو ایک دوسرے سے باندھنا، سخت ناراحت کرنے والے حوادث چونکہ انسان کو ایک طرح سے لپیٹ دیتے ہیں اور گویا ناراحتی سے باندھ دیتے ہیں لہٰذا اس صورت حال پر ”عصیب“ کا اطلاق ہوتا ہے، نیز عرب گرم اور جلانے والے دن کو بھی ”یوم العصیب“ کہتے ہیں ۔
بہرحال حضرت لوط (علیه السلام) کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ تھا کہ وہ اپنے نووارد مہمانوں کے گھر لے جاتے لیکن اس بنا ء پر کہ وہ غفلت میں نہ رہیں راستے میں چند مرتبہ ان کے گوش گزار کردیا کہ اس شہر میں شریر اور منحرف لوگ رہتے ہیں تاکہ اگر مہمان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو صورتِ حال کا اندازہ کرلیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ جب تک یہ پیغمبر تین مرتبہ اس قوم کی برائی اور انحراف کی گواہی نہ دے انھیں عذاب نہ دیا جائے (یعنی ۔ یہاں تک کہ ایک گنہگار قوم سے متعلق بھی حکم خدا عدالت کے ایک عادلانہ فیصلے کی روشنی میں انجام پائے) اور ان رسولوں نے راستے میں تین مرتبہ لوط کی گوہی سُن لی ۔ (۱)
کئی ایک روایات میں آیا ہے کہ حضرت لوط (علیه السلام) نے مہمانون کو اتنی دیر تک (کھیت میں)ٹھہرائے رکھا کہ رات ہوگئی تاکہ شاید اس طرح اس شریر اور آلودہ قوم کی آنکھ سے بچ کر حفظِ آبرو کے ساتھ ان کی پذیرائی کرسکیں، لیکن جب ان کا دشمن خود اس کے گھر کے اندر موجود ہوتو پھر کیا کیا جاسکتا، لوط (علیه السلام) کی بیوی کو جو ایک بے ایمان عورت تھی اور اس گنہگار قوم کی مدد کرتی تھی جب اسے ان نوجوانوں اور خوبصورت مہمانوں کے آنے کی خبر ہوئی تو چھت پر چڑھ گئی، پہلے اس نے تالی بجائی پھر آگ روشن کرکے اس کے دھوئیں کے ذریعے ان نے منحرف قوم کے بعض لوگوں کو آگاہ کیا کہ لقمہ ترجال میں پھنس چکا ہے ۔ (۲)
یہاں قرآن کہتا ہے کہ وہ قوم حرص اور شوق کے عالم میں اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے بڑی تیزی سے لوط (علیه السلام) کی طرف آئی ( وَجَائَہُ قَوْمُہُ یُھْرَعُونَ إِلَیْہِ) ۔
وہی قوم کہ جس کی زندگی کے صفحات سیاہ اور ننگ وعار سے آلودہ تھے”اور جو پہلے ہی سے برے اور قبیح اعمال انجام دی رہی تھی“( وَمِنْ قَبْلُ کَانُوا یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ)
حضرت لوط (علیه السلام) اس وقت حق رکھتے تھے کہ لرزنے لگیں اور ناراحتی و پریشانی کی شدت سے چیخ وپکار کریں، انھوں نے کہا: مَیں یہاں تک تیار ہوں کہ اپنی بیٹیاں تمھارے نکاح میں دے دوں، یہ تمھارے لئے زیادہ پاکیزہ ہیں(قَالَ یَاقَوْمِ ھٰؤُلَاءِ بَنَاتِی ھُنَّ اٴَطْھَرُ لَکُمْ)
آؤ”اورخدا سے ڈرو، میری عزت وآبرو خاک میں نہ ملاؤ اور میرے مہمانوں کے بارے میں برا ارادہ کرکے مجھے رسوا نہ کرو“( فَاتَّقُوا اللهَ وَلَاتُخْزُونِی فِی ضَیْفِی ) ۔
اے وائے” کیا تم میں کوئی رشید، عقلمد اور شائستہ انسان موجود نہیں ہے “ کہ جو اس ننگین اور شرمناک عمل سے روکے (َلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیدٌ) ۔
مگر تباہ کار قوم نے نبی خدا حضرت لوط (علیه السلام) کو بڑی بے شرمی سے جواب دیا: ”تو خود اچھی طرح جانتا ہے کہ ہمارا تیری بیٹیوں میں کوئی حق نہیں“ (قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِی بَنَاتِکَ مِنْ حَقٍّ) ”اور یقینا تو جانتا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں“۔ (3) ۔
یہ وہ مقام تھا کہ اس بزرگوار پیغمبر نے اپنے آپ کو ایک محاصرے میں گھِرا ہوا پایا اور انھوں نے ناراحتی وپریشانی کے عالم میں فریاد کی: اے کاش! مجھ میں اتنی طاقت ہوتی کہ مَیں اپنے مہمانوں کا دفاع کرسکتا اور تم جیسے سرپھروں کی سرکوبی کرسکتا ( قَالَ لَوْ اٴَنَّ لِی بِکُمْ قُوَّةً)، یا کوئی مستحکم سہارا ہوتا، کوئی قوم وقبیلہ میرے پیروکاروں میں سے ہوتا اور میرے کوئی طاقتور ہم پیمان ہوتے کہ جن کی مدد سے تم منحرف لوگوں کا مقابلہ کرتا ( اٴَوْ آوِی إِلَی رُکْنٍ شَدِید)

 


 


۱۔مجمع البیان، مزکورہ آیت کے ذیل میں ۔
۲۔المیزان، ج۱۰،ص ۳۶۲۔
3۔ ”یُھْرَعُونَ“ ”اھراع“ کے مادہ سے دھکیلنے کے معنی میں ہے، گویا سرکش جنسی خواہش اس گمراہ قوم کو بٹی شدت سے حضرت لوط (علیه السلام) کے مہمانوں کی طرف دھکیل رہی تھی ۔

 

تفسیرچند قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma