تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
معاشروں کی تباہی کا سبب چندنکات

پہلی زیرِ بحث آیت میں ایک سنّت فطرت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ جو دراصل انسان سے مربوط تمام مسائل کی حقیقی بناید ہے اور وہ انسانوں کی روح، جسم، فکر، ذوق اور عشق کی عمارت میں اختلاف وفرق اور ارادہ واختیار کی آزادی ۔ ارشاد ہوتا ہے: اگر خدا چاہتا تو تمام لوگوں کو امتِ واحدہ بنادیتا لیکن خدا نے ایسا نہیں کیا اور ہمیشہ انسان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں (وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اٴُمَّةً وَاحِدَةً وَلَایَزَالُونَ مُخْتَلِفِینَ) ۔
اس لئے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ انھیں اپنی اطاعت پر پروردگار کی تاکید اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر نہیں کہ ان سب کو ایک ہی راستے اور ایک ہی معین پروگرام پر چلاتا، اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس میں کوئی رکاوٹ نہ تھی کہ وہ تمام انسانوں کو جبری طور پر ایک ہی طرز پر خلق کرتا اور وہ سب صاحبانِ ایمان ہوتے اور ایمان کو قبول کرنے پر مجبور ہوتے لیکن ایسے ایمان کا کوئی فائدہ نہ تھا اور نہ ہی جبری ایمان کی بیناد پر ایسا اتحاد اور ہم آہنگی کہ جو غیر اداری اسباب پر قائم ہو کسی کے مقام ومرتبے کی دلیل ہے، نہ یہ حصولِ کمال اور تکامل کا ذریعہ ہے اور نہ ہی جزاء وسزا کا موجب، بالکل ایسے جیسے خدا نے شہد کی مکھّی کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی فطرت کے جبری حکم پر پھولوں کا شیرہ جمع کرتی ہے اور ملیریے کے مچھر کو اس لئے پیدا ہے کہ وہ اکیلا سوراخوں میں اپنا آشیانہ بناتا ہے اور ان میں کوئی بھی اس راستے میں خود کوئی اختیار نہیں رکھتا ۔
اصولی طور پر انسان کی قدر و قیمت اور دوسرے موجودات سے اس کا اہم ترین امتیاز یہی ارادہ و اختیار کی آزادی کی نعمت ہے ۔ اسی طرح انسان میں مختلف ذوق، سلیقے، نظریات اور تصورات موجود ہیں کہ جن میں ہر ایک معاشرے کے ایک حصّے کی تعمیر و اصلاح کرتا ہے اور اس کے کسی ایک تقاضے کو پورا کرتا ہے ۔
جب انسان کو ارادے کی آزادی میسّر آئی ہے تو پھر عقیدے اور مذہب و مکتب کے انتخاب میں اختلاف فطری بات ہے ۔ اس اختلاف سے ایک گروہ راہِ حق کو قبول کرلیتا ہے اور دوسرا باطل کا راستہ اپنا لیتا ہے لیکن اگر انسانوں کی تربیت ہو اور وہ پروردگار کے دامن رحمت اور اس کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے صحیح تعلیمات پالیں تو پھر تفاوت کے باوجود اور آزادی اختیار کے ہوتے ہوئے راہِ حق پر گامزن ہوں گے اگر چہ اس راہ میں بھی وہ مختلف ہوں گے ۔
اسی بناء پر بعد والی آیت میں فرمایا گیا ہے: لوگ حق کو قبول کرنے کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر وہ کہ رحمت پروردگار جن کے شامل حال ہے (إِلاَّ مَنْ رَحِمَ رَبُّکَ ) ۔ لیکن یہ رحمت الٰہی کسی خاص گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہے ۔ سب لوگ (بشرطیکہ وہ چاہیں) اس سے استفادہ کرسکتے ہیں در حقیقت ”خدا نے لوگوں کو اس نعمت و رحمت کو قبول کرنے کے لیے پیدا کیا ہے“ (وَلِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ) ۔جو لوگ رحمت الٰہی کے سائے میں آنا چاہتے ہیں ان کے لیے راستہ کھلا ہے، وہ رحمت کہ جس کا فیضان عقلی ادراک، ہدایت انبیاء اور کتبِ آسمانی کے ذریعے سب کے لیے عام ہے اور جب اس نعمت و رحمت سے فائدہ اٹھائیں گے تو جنت اور ابدی سعادت کے دروازے ان کے سامنے کھُل جائیں گے ۔
اور اگر یہ صورت نہ ہوئی تو ”خدا کا فرمان صادر ہوچکا ہے کہ وہ سرکش و نافرمانِ جنّوں اور انسانوں سے جہنم کو بھر دے گا“ (وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ لَاٴَمْلَاٴَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

 

معاشروں کی تباہی کا سبب چندنکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma