چند قابل توجہ نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
قوم لوط کی شرمناک زندگیظالموں کی زندگی کا اختتام

۱۔ حضرت لوط (علیه السلام) کی بیٹیاں:
جس وقت قوم لوط نے حضرت لوط (علیه السلام) کے گھر پر ہجوم کیا اور وہ ان کے مہمانوں پر تجاوز کرنا چاہتے تھے اس وقت آپ نے کہا: میری بیٹیاں تمھارے لئے پاک اور حلال ہیں، ان سے استفادہ کرو اور گناہ کے گرد چکر نہ لگاؤ۔
اس جملے نے مفسرین کے درمیان بہت سے سوالات اٹھا دئےے ہیں ۔
پہلا یہ کہ بیٹیوں سے مراد کیا لوط (علیه السلام) کی نسبی اور حقیقی بیٹیاں تھیں جب کہ تاریخ کے مطابق ان کی دو یا تین سے زیادہ بیٹیاں نہیں تھیں، لہٰذا انھوں نے اتنی کثیر جمعیت کے سامنے یہ تجویز کس طرح سے پیش کی، یا یہ کہ مراد تمام قوم اور شہر کی بیٹیاں تھیں کیونکہ معمول یہ ہے کہ قبیلہ کا بزرگ قبیلے کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں ہی قرار دیتا ہے ۔
دوسرا احتمال ضعیف نظر آتا ہے کیونکہ خلافِ ظاہر ہے اور صحیح وہی پہلا احتمال ہے اور حضرت لوط (علیه السلام) کی یہ تجویز اس بنا پر تھی کہ ہجوم کرنے والے بستی کے چند افراد تھے نہ کہ سب کے سب، علاوہ ازیں وہ یہاں انتہائی قربانی کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے کہ مَیں یہاں تک تیار ہوں کہ گناہ کو روکنے اور اپنے مہمانوں کی عزت اور مرتبے کی حفاطت کے لئے اپنی بیٹیاں تمھارے نکاح میں دے دوں کہ شاید اس بے نظیر قربانی پر ان کے سوئے ہوئے ضمیر بیدار ہوجائیں اور وہ راہ حق کی طرف پلٹ آئیں ۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت لوط (علیه السلام) کی بیٹیوں جیسی باایمان لڑکیوں کی شادی بے ایمان کفار سے جائز تھی کہ آپ نے یہ تجویز پیش کی ۔
اس سوال کا جواب دو طرح سے دیا گیا ہے :
ایک یہ کہ اسلام کی حضرت لوط (علیه السلام) کے دین میں بھی آغاز میں اس قسم کا ازدواج حرام نہیں تھا ۔
دوسرا یہ کہ حضرت لوط (علیه السلام) کی مراد مشروط ازدواج تھی (یعنی ۔ مشروط باایمان)یعنی یہ میری بیٹیاں ہیں، آؤ ایمان لے آؤ تاکہ مَیں انھیں تمھارے نکاح میں دے دوں ۔
یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ نبیٴ خدا حضرت لوط (علیه السلام) پر یہ اعتراض کہ انھوں نے اپنی پاکیزہ بیٹیوں کے نکاح کی اوباش لوگوں سے تجویز کیونکر کی، درست نہیں ہے کیونکہ ان کی پیش کش مشروط تھی اور اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انھیں ان کی ہدایت سے کس قدر لگاؤ تھا ۔
۲۔ ”اطھر“ کا مفہوم:
توجہ رہے کہ لفظ ”اطھر“ (پاکیزہ تر) کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ان کا وہ برا اور شرمناک عمل پاک تھا اور ازدواج کرنا اس سے زیادہ پاک تھا بلکہ عربی زبان میں اور دیگر زبانوں میں ایسی تعبیر موازنے کے وقت استعمال میں کی جاتی ہے، مثلاً اگر کوئی شخص تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا ہو تو اسے کہتے ہیں:دیر سے پہنچنا بہتر ہے بالکل نہ پہنچے سے ”یا “ مشکوک غذا نہ کھانا بہتر ہے اس سے کہ انسان اپنی جان خطرے میں ڈال دے ۔
ایک روایت میں بھی ہے کہ امام (علیه السلام) نے خلفاء بنی عباس کی طرف سے احساس خطر اور شدتِ تقیہ کے موقع پر فرمایا:
واللّٰہ افطریوما من شھر رمضان احب الیٰ من ان یضرب عنقی ۔
ماہِ رمضان کا ایک دن کہ جب خلیفہ وقت نے عید کا اعلان کیا ہوا تھا حالانکہ اس روز عید نہیں ، اس دن افطار کروں (اور پھر اس دن کی قضا کروں) اس سے بہتر ہے کہ مارا جاؤں ۔ (1)
حالانکہ نہ مارا جانا اچھا ہے اور نہ مقصد تک بالکل نہ پہنچنا، لیکن ایسے مقامات پر اس طرح کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے ۔
۳۔ایک مرد رشید، کی نصیحت:
حضرت لوط (علیه السلام) کا آخرِ کلام میں یہ کہنا کہ ”کیا تمھارے درمیان کوئی مرد رشید نہیں ہے“ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ایک رشید انسان کا کسی قوم یا قبیلے میں ہونا بھی اس کے شرمناک اعمال سے اسے روکنے کے لئے کافی ہوتا ہے، یعنی ایک شخص بھی اگر عاقل اور رشدِ فکر رکھنے والا تمھارے درمیان ہوتا تو تم میرے گھر کی طرف میرے مہمانوں پر تجاوز کرنے کے ارادے سے اور بدنیتی سے ہرگزنہ آتے ۔
اس سے انسانی معاشرے کی رہبری کے لئے ”رجل رشید“ کا اثرواضح ہوتا ہے، یہ وہ حقیقت ہے جس کے بہت سے نمونے ہم نے پوری تاریخِ بشر میں دیکھی ہے ۔
۴۔ انحراف کی انتہا:
تعجب کی بات یہ ہے کہ اس گمراہ قوم نے حضرت لوط (علیه السلام) سے کہا: ہم تیری بیٹیوں پر حق نہیں رکھتے یہ امر اس گروہ کی انتہائی انحراف کو ظاہر کرتا ہے یعنی گناہ میں ڈوبا ہوا ایک معاشرہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے، انھوں نے پاک وپاکیزہ صاحبِ ایمان لڑکیوں سے ازدواج کو بالکل قلمروِ حق میں شمار نہیںکیا لیکن اس کے برعکس جنسی انحراف کو اپنا حق شمار کیا ۔
گناہ کی عادت اور خو ہوجائے تو یہ مرحلہ اس قدر خطرناک مراحل میں سے ہے کہ یہاں پہنچ کر افراد شرمناک ترین اور قبیح ترین اعمال کو اپنا حق شمار کرتے ہیں اور پاکیزہ ترین طریقے سے جنسی تقاضوں کی تسکین کو ناحق سمجھتے ہیں ۔
۵۔ ”قوة“ اور ”رکن شدید“ کا مفہوم:
ایک حدیث میں امام صادق (علیه السلام) سے مروی ہے کہ آپ (علیه السلام) نے مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں فرمایا:
”قوة“ سے مراد وہی ”قائم“ہے اور ”رکن شدید“ ان کے ۳۱۳یار وانصار ہیں ۔ (2)
ہوسکتا ہے یہ روایت عجیب معلوم ہوکہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس زمانے میں حضرت لوط (علیه السلام) ایسی شخصیت کی ایسے یاروانصار کے ساتھ ظہور کی آرزو کریں ، لیکن جو روایات آیاتِ قرآن کی تفسیر کے ذیل میں اب تک آئیں ہیں انھوں نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ عام طور پر ایک کلی قانون کو اس کے واضح مصداق کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، دراصل حضرت لوط (علیه السلام) یہ آرزو کرتے ہیں کہ اے کاش! مصمم ارادوں والے، جسمانی اور روحانی طور پر طاقتور کافی تعداد میں مرد ہوتے ان کے مرد وں کی طرح جو قیام مہدی (علیه السلام) کے زمانے میں عالمی حکومت تشکیل دیں گے تو مَیں بھی حکومتِ الٰہی کی تشکیل کے لئے کام کرتا اور ان کی مدد سے فساد وانحراف کے خلاف جہاد کرتا اور اس قسم کے سرپھرے اور بے شرم افراد کی سرکوبی کرتا ۔

 

۸۱ قَالُوا یَالُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَصِلُوا إِلَیْکَ فَاٴَسْرِ بِاٴَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلِ وَلَایَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ إِلاَّ امْرَاٴَتَکَ إِنَّہُ مُصِیبُھَا مَا اٴَصَابَھُمْ إِنَّ مَوْعِدَھُمْ الصُّبْحُ اٴَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیبٍ۔
۸۲ فَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاٴَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ۔
۸۳ مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ھِیَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِیدٍ۔

ترجمہ

۸۱۔انھوں نے کہا: اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے رسول ہیں، وہ ہرگز تجھ پر دسترس حاصل نہیں کرسکیں گے، وسطِ شب اپنے خاندان کے ساتھ (اس شہر سے)چلا جااورتم میں سے کوئی بھی اپنی پشت کی طرف نگاہ نہ کرے، مگر تیری بیوی کہ وہ اسی بلا میں گرفتار ہوگی کہ جس میں لوگ گرفتار ہوں گے، ان کی وعدہ گاہ صبح ہے، کیا صبح نزدیک نہیں ہے ۔
۸۲۔جب ہمارا فرمان آپہنچا تو اس (شہر اور علاقے) کو ہم نے تہ وبالا کردیا اور ان پر ہم نے مٹیلے پتھروں کی بارش کی ۔
۸۳۔ (وہ پتھر کہ)جو تیرے پروردگار کے ہاں مخصوص تھے اور ایسا ہونا ستمگروں کے لئے بعید نہیں ہے ۔

 


1۔ وسائل، ج۷،ص ۹۵.
2۔ تفیسر برہان، ج۲،ص۲۲۸۔
قوم لوط کی شرمناک زندگیظالموں کی زندگی کا اختتام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma