حضرت ہود (علیه السلام) کی قوی منطق

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۴۔ ”یزدکم قوة الیٰ قوتکم“ سے کیامراد ہے؟دو اہم نکات

اب دیکھتے ہےںکہ اس سر کش اور مغرور قوم نے ، یعنی قوم عاد نے اپنے بھائی ہود ، ان کے پند ونصائح اور ہدایت و رہنمائی کے مقابلہ میں کیا رد عمل ظاہر لیا ۔
”انھوں نے کہا: اے ہود ! تو ہمارے لئے کوئی وضح دلیل نہےں لاےا“(قَالُوا یَاھُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ) ، ہر گزتےری باتو پر اپنے بتوں اور خداؤں کا دامن نہےں چھوڑے گے ( وَمَا نَحْنُ بِتَارِکِی آلِھَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ )اور ہم ہر گز تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے (وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ) ۔
ان تین غیر منطقی جملوں کے بعد انھوں نے مزید کہا:”ہمارا خیال ہے کہ تو دےوانہ ہو گیا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ تو ہمارے خداؤں کے غضب کا شکار ہوا ہے اور انھوں نے تےری عقل کو آسیب پہچایا ہے“( إِنْ نَقُولُ إِلاَّ اعْتَرَاکَ بَعْضُ آلِھَتِنَا بِسُوءٍ ) ۔
اس میں شک نہیں کہ جیسے تمام انبیاء کا طریقہ کار ہوتا ہے اور ان کی ذمہداری ہے حضرت ہود نے انھیں اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لے کئی ایک معزے دیکھائے ہو ںگے، لیکن انھوں نے اپنے کبرو غرور کی وجہ دے دیگر ہٹ دھرم قوموں کی طرح معجزات کا انکار کیا اور انھیں جادو قرار دیا اور انھیں اتفاقی حوادث گردانا کی جنہیں کسی معاملے میں دلیل قرار نہیں دےا جا سکتا ۔
ان باتوں سے قطع نظر بت پرستی کی نفی کے لے تو کسی دلےل کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جو شخص بھی تھوڑی سی عقل شعور رکھتا ہو اور اپنے آپ کو تعصب سے دور کرلے تو وہ اچھی طرح سے اس کا بطلان سمجھ سکتا ہر، فرض کرےں کہ اس کے لے دلیل کی ضرورت ہے تو کیا یہ مسئلہ منطقی و عقلی دلائل کے علاوہ کسی معجزہ کا بھی محتاج ہے ۔
دوسرے لفظوں میں جو کچھ حضرت ہود(علیه السلام) کے سلسلے میں گزشتہ آیات میں آیا ہے وہ خدائے یگانہ کی طرف دعوت، اس کی طرف بازگشت، بگناہوں سے استغفار اور ہر قسم کے شرک اور بت پرستی کی نفی ہے، یہ سب ایسے مسائل ہیں جنہیں عقلی دلیل سے بالکل ثابت کیا جاسکتا ہے ۔
لہٰذا اگرچہ”بینة“ سے نفی سے ان کی مراد عقلی دلیل کی نفی تھی، بہرحال انھوں نے یہ جو کہا تھا کہ ہم ہرگز تیری باتوں کی وجہ سے اپنے بتوں کو فراموش نہیں کریں گے ان کی ہٹ دھرمی کی بہترین دلیل ہے کیونکہ عقل مند اور حق جو انسان حق کی بات کسی کی طرف سے ہو اسے قبول کرلیتا ہے، خصوصا یہ جملہ کہ انھوں نے حضرت ہود(علیه السلام) کو ”جنون“ کہ تہمت لگائی ۔ اور ”جنون“ بھی وہ جو ان کے زعم میں ان کے خداؤں کے غضب کا نتیجہ تھا، ان کے بیہودہ پن اور خرافات پرستی کی خود ایک بہترین دلیل ہے ۔
بے جان اور بے شعور پتھر اور لکڑیاں جو خود اپنے”بندوں“ کی مدد کی محتاج ہیں وہ ایک عقلمند انسان سے کس طرح اس کا عقل وشعور چھین سکتی ہے ۔
علاوہ ازیں ان کے پاس ہود (علیه السلام) کے دیوانہ ہونے کی کونسی دلیل تھی، سوائے اس کے کہ انھوں نے ان کی سنت شکنی کی اور ان کے ماحول کے بیہودہ رسم ورواج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، اگر یہ دیوانگی کی دلیل ہے تو پھر تمام مصلحین جہان اور انقلابی لوگ جو غلط روش اور طریقوں کے خلاف قیام کرتے ہیں سب دیوانے ہونے چاہیئں ۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، گزشتہ سور اور آج کی تاریخ نیک اندیش اور بدعت شکن مردوں اور عورتوں کی طرف یہ نسبت دئےے جانے سے بھری پڑی ہے، کیونکہ وہ خرافات اور استعمار اور اس کے ہتھکنڈوں اور شکنجوںکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔
بہرحال حضرت ہود(علیه السلام)کی ذمہ دارہ تھی کہ اس گمراہ اور ہٹ دھرم قوم کو دندان شکن جواب دیتے، ایسا جواب جو منطق کی بنیاد پر بھی ہوتا اور طاقت سے بھی ادا ہوتا، قرآن کہتا ہے کہ انھوں نے ان کے جواب میں چند جملے کہے: ”میںخدا کو گواہی کے لئے بلاتا ہوں اور تم سب بھی گواہ رہو کہ میں ان بتوں اور تمھارے خداؤں سے بیزار ہوں“(قَالَ إِنِّی اٴُشْھِدُ اللهَ وَاشْھَدُوا اٴَنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ۔من دونہ)، یہ اس طرف اشارہ تھا کہ اگر یہ بت طاقت رکھتے ہیں تو ان سے کہو کہ مجھے ختم کردیں، میں جو ان کے خلاف علی الاعلان جنگ کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہوں اور یہ اعلانیہ ان سے بیزاری اور تنفر کا اعلان کررہا ہوں تو وہ کیوں خاموش اور معطل ہیں، کس چیز کے منتظر ہیں اور کیوں مجھے نابود اور ختم نہیں کرتے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا کہ نہ فقط یہ کہ ان سے کچھ نہیں ہوسکتا بلکہ تم بھی اتنی کثرت کے باوجود کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے”اگر سچ کہتے ہو تو تم سب ہاتھوں میں ہاتھ دے کر میرے خلاف جو سازش کر سکتے ہو کرگزرو اور مجھے لمحہ بھر کی بھی مہلت نہ دو“( فَکِیدُونِی جَمِیعًا ثُمَّ لَاتُنْظِرُون) ۔
میں تمہاری اتنی کثیر تعداد کو کیوں کچھ نہیں سمجھتا اور کیوں تمہاری طاقت کی کوئی پرواہ نہیں کرتا، تم کہ جو میرے خون کے پیاسے ہو اور ہر قسم کی طاقت رکھتے ہو، اس لئے کہ میرا رکھوالا اللہ ہے، وہ کہ جس کی قدرت سب طاقتوں سے بالا تر ہے، ”میں نے خدا پر توکل کیا ہے جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے“(انِّی تَوَکَّلْتُ عَلَی اللهِ رَبِّی وَرَبِّکُمْ ) ۔
یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا ، یہ اس امر کی نشانی ہے کہ میں نے دل کسی اور جگہ نہیں باندھ رکھا، اگر صحیح طور پر سوچو تو یہ خود ایک قسم کا معجزہ ہے کہ ایک انسان تن وتنہا بہت سے لوگوں کے بیہودہ عقائد کے خلاف اٹھ کھڑا ہو جب کہ وہ طاقتور اور متعصب بھی ہوں یہاں تک کہ انھیں اپنے خلاف قیام کی تحریک کرے اس کے باوجود اس میں خوف وخطر کے کوئی آثار نظر نہ آئیں اور پھر نہ اس کے دشمن اس کے خلاف کچھ کرسکتے ہوں ۔
پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ نہ صرف تم بلکہ” عالم وجود میں کوئی چلنے پھرنے والا نہیں کہ جو خدا کے قبضہ قدرت اور فرمان کے ماتحت نہ ہو“ اور جب تک وہ نہ چاہے ان سے کچھ نہیں ہوسکتا (مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلاَّ ھُوَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا ) ۔
لیکن یہ بھی جان لوکہ میرے خدا کی قدرت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کود سری اور خود خواہی کہ بنیاد پر عمل میں آئے اور وہ اسے غیر حق صرف کرے بلکہ ”میرا پروردگار ہمیشہ صراط مستقیم اور جادہ عدل پر ہے”اور وہ کوئی کام حکمت کے برخلاف انجام نہیں دیتا (إِنَّ رَبِّی عَلیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ) ۔

 

۴۔ ”یزدکم قوة الیٰ قوتکم“ سے کیامراد ہے؟دو اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma