سعادت مند وشقاوت مندیا مشکلات؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
تفسیرچند قابل توجہ نکات

گزشتہ آیت میں مسئلہ قیامت اور اس عظیم عدالت میں تمام لوگوں کے اجتماع کی طرف اشارہ ہوا تھا، زیر بحث آیات میں اس دن لوگوں کے انجام کے ایک پہلو کو بیان کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: جب تک وہ دن آپہنچے گا تو پروردگار کے ارادے کے بغیر کوئی شخص بات نہیں کرسکے گا (یَوْمَ یَاٴْتِ لَاتَکَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِہِ) ۔
بعض اوقات یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آیت جو اُس دن اذنِ الٰہی سے لوگوں کو بات کرنے کی دلیل ہے اُن آیات کے منافی ہے جو مطلقاً بات کرنے کی نفی کرتی ہیں، مثلاً سورہٴ یٰسین کی آیہ۶۵:
<الْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلیٰ اٴَفْوَاہِھِمْ وَتُکَلِّمُنَا اٴَیْدِیھِمْ وَتَشْھَدُ اٴَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ
آج کے دن ان کے دہنوں پر مُہر لگادیں گے اور ہمارے ساتھ ان کے ہاتھ بات کریں گے اور ان کے پاوٴں گواہی دیں گے، ان کاموں کی جو وہ انجام دیتے تھے ۔
سورہٴ مرسلات کی آیت ۳۵ میں ہے:
<ھٰذَا یَومُ لَایَطِیقُونَ
یہ وہ دن ہے جس میں وہ بول نہیں سکیں گے ۔
اسی بناء پر بعض عظیم مفسّرین کا نظریہ ہے کہ اصولی طور پر اس دن بات کرنے کا کوئی مفہوم نہیں کیونکہ ”بات کرنا“ تو ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے ہم انسان کے اندر کے حالات معلوم کرتے ہیں، اگر ہماری کوئی ایسی حسّ ہوتی کہ جس سے ہم ہر شخص کے افکار معلوم کرسکتے تو گفتگو کی ہرگز ضرورت نہ ہوتی، اس بات بناء پر قیامت میں جو اسرار ظاہر ہوں گے اور ہر چیز ”بروز وظہور“ کی حالت ظاہرہوجائے گی تو اصولاً بات کرنے اور تکلم کا کوئی معنی نہیں ہے ۔
دوسرے لفظوں میں آخرت کا گھر جزا کا گھر ہے نہ کہ عمل کا، لہٰذا ارادے اور اختیار سے انسان کے بات کرنے کی کوئی خبر نہیں ہے بلکہ وہاں انسان ہے، اس کے اعمال ہیں اور جو کچھ ان سے مربوط ہے، اس لئے کہ اگر وہاں انسان بات بھی کرے گا تو وہ دنیا میں کی جانے والی باتوں کی طرح نہیں ہوگی کہ جن کا سرچشمہ خود اس کا اختیار اور ارادہ ہوتا ہے اور جو اندرونی اسرار کا ظاہر کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں، وہاں وہ جو کچھ کہے وہ ایک قسم کا اس کے اعمال کا عکس العمل ہوگا، وہ اعمال کہ جو وہاں ظاہر وآشکار ہیں، لہٰذا اس دن بات کرنا دنیا میں بات کرنے کی طرح نہیں ہے کہ انسان اپنے مَیل ورغبت سے جھوٹ سچ کہہ سکے ۔
بہرحال وہ دن حقائقِ اشیاء کے کشف اور ”غیب“ کے شہود کی طرف پلٹ آنے کا دن ہے اور وہ اِس جہان کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں رکھتا ۔
لیکن، مندرجہ بالا آیت سے مذکورہ نتیجہ نکالنا قرآن کی دیگر آیات کے ظاہری مفہوم سے زیادہ مناسبت نہیں رکھتا کیونکہ قرآن مومنین اور مجرمین کی پیشواوٴں، جابروں اور ان کے پیروکاروں کی، اسی طرح شیطان اور اس کے فریب خوردگان کی اور دوزخیوں اور جنتیوں کی گفتگو نقل کرتا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس جہان میں بھی اِس جہان کی سی باتوں کا وجود ہے ۔
یہاں تک کہ قرآن کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ گنہگار بعض سوالات کے جواب میں جھوٹ بھی بولیں گے، مثلاً سورہٴ انعام کی آیہ ۲۲ تا۲۴ میں ہے:
<وَیَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ اٴَشْرَکُوا اٴَیْنَ شُرَکَاؤُکُمْ الَّذِینَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ، ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُھُمْ إِلاَّ اٴَنْ قَالُوا وَاللهِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ، انظُرْ کَیْفَ کَذَبُوا عَلیٰ اٴَنفُسِھِمْ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ
وہ دن کہ جس دن ہم ان کے سب کو محشور کریں گے، مشرکین سے کہیں گے کہ وہ معبود جنھیں تم خدا کا شریک سمجھتے تھے کہاں ہیں؟ ان کا جواب اور غذر اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا کہ وہ کہیں گے کہ اس خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم مشرک نہیں تھے، دیکھو وہ کس طرح اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں اور جسے وہ خدا جھوٹا شریک خیال کرتے تھے اسے بھی ہاتھ سے دے بیٹھیں گے ۔
اس بناء پر بہتر ہے کہ ہم بات کرنے سے متعلق ظاہر آیات کے تناقض سے مربوط سوال کا وہی جواب دیں جو بہت سے مفسّرین نے دیا ہے اور وہ یہ کہ اس دن لوگ کئی مرحلوں سے گزریں گے کہ جن میں ہر ایک کی کچھ خصوصیات ہیں، کچھ مراحل ہیں ان میں سے کوئی بازپرس نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ان کے منھ پر مُہر لگادی جائے گی صرف ان کے اعضاءِ جسم کہ جن میں آثارِ اعمال محفوظ ہیں زبانِ بے زبانی سے کلام کریں گے لیکن دوسرے مراحل میں ان کی زبان کا قفل کھول دیا جائے اور وہ اذنِ الٰہی سے بات کریں گے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے، خطاکار ایک دوسرے کو ملامت کریں گے بلکہ ان کی کوشش یہ ہوگی کہ اپنے گناہ دوسرے کی گردن پر ڈال دیں گے ۔
بہرحال آیت کے آخر میں تمام لوگوں کی دو گروہوں میں تقسیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:وہاں ایک گروہ شقی ہوگا اور دوسرا سعید، ایک گروہ بدبخت ہوگا اور دوسرا خوش بخت (فَمِنْھُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ) ۔
”سعید“ مادّہٴ سعادت سے اسبابِ نعمت فراہم ہونے کے معنی میں ہے اور ”شقی“ مادّہٴ ”شقاوت“ سے سزا ، پکڑ اور بلاء کے اسباب فراہم ہونے ہونے کے معنی میں ہے، اس بناء پر اُس جہان میں سعید وہی نیک لوگ یں جو انواع واقسام کی نعمتوں میں جاگزیں ہوں گے اور شقی وہی بدکار ہیں جو دوزخ میں مختلف عذابوں میں گرفتار ہوں گے ۔
بہرحال یہ شقاوت اور وہ سعادت دنیا میں انسانی اعمال، کردار، گفتار اور نیتوں کے نتیجے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
تعجب کی بات ہے کہ بعض مفسّرین نے جبرو اکراہ پر مبنی اپنے باطل عقیدے کے لئے اس آیت کو دستاویز قرار دیا ہے حالانکہ یہ آیت اس معنی پر دلالت نہیں کرتی بلکہ روزِ قیامت کے سعادتمندوں اور شقی افراد کے بارے میں بات کررہی ہے کہ وہ سب اپنے اعمال کی وجہ سے اس مرحلے میں پہنچے ہیں ۔شاید کچھ ایسی احادیث سے اس آیت کے مفہوم کے بارے میں اشتباہ ہوا ہے کہ جو قبلِ پیدائش سعادت وشقاوت مندوں کے بارے میں جو الگ الگ داستان ہے ۔
اس کے بعد شقاوت مندوں اور شعادت مندوں کے حالات کی تشریح بڑے جچے تلے انداز میں اور واضح عبارات کے ذریعے کی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے: رہے وہ جو شقاوت مند ہوئے، جہنم کی آگ میں زفیر وشہیق میں مبتلا ہیں، نالہ وفریاد اور ورشین کرتے ہیں (فَاٴَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِ لَھُمْ فِیھَا زَفِیرٌ وَشَھِیقٌ) ۔
مزید فرمایا: وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے جب تک کہ آسمان وزمین موجود ہیں (خَالِدِینَ فِیھَا مَا دَامَتْ السَّمَاوَاتُ وَالْاٴَرْضُ) ۔ مگر جو کچھ تیرا پروردگار چاہے (إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّکَ) کیونکہ خدا جس کام کا ارادہ کرتا ہے اسے انجام دیتا ہے ( إِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِمَا یُرِیدُ) ۔ لیکن جو لوگ سعادت مند ہوئے جب تک آسمان وزمین موجود ہیں وہ ہمیشہ بہشت میں رہیں گے (وَاٴَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الْجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیھَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْاٴَرْضُ) مگر جو کچھ تیرے پروردگار کا ارادہ ہو (إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّکَ) ۔ یہ بخشش وعطیہ ہے جو ان سے ہرگز منقطع نہ ہوگا (عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوذٍ) ۔

 

تفسیرچند قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma