تمام خطوط اسی تک پہنچتے ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22
یہ آ یات خدا کی ان صفات کی تجلی گاہ ہیں جومسئلہ توحید کوبھی واضح کرتی ہیں اور مسئلہ معاد کوبھی ۔
ان آ یات میں گزشتہ مباحث کوجاری رکھتے ہوئے جزائے اعمال کے سلسلہ میں فر ماتاہے : کیاانسان کواس بات کی خبرنہیں ہے کہ صحف موسیٰ وبراہیم میں یہ آ یاہے کہ تمام امور تیرے پروردگار پر منتھی ہوتے ہیں (وَ أَنَّ اِلی رَبِّکَ الْمُنْتَہی) ۔
نہ صرف حساب وکتاب، ثواب وعقاب اورجز اوسزاآخرت میں اس کے دست قدرت میں ہے ،بلکہ اس جہان میں بھی اسباب وعلل کاسلسلہ اس کی پاک ذات تک جاکرمنتہی ہوتاہے ،اس جہان کی تمام تدبیر یں اس کی تدبیرسے پیدا ہوتی ہیں اور بالاآخرعالم ہستی کی تکیہ گاہ اور اس کی ابتداء وانتہاخداہی کی پاک ذات ہے ۔
بعض روایات میں اس آ یت کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام سے اس طرح آ یا ہے:
اذاانتھی الکلام الی اللہ فامسکوا(١) ۔
یعنی اس کی ذات کے بارے میںگفتگونہ کرو، کیونکہ عقلیں اس میں حیرا ن ہیں، اور کہیں پہنچ نہیں پاتیں،اورایک غیر محدود ذات کے بارے میں سوچ بچار کرنامحدود عقلوں کے لیے ناممکن ہے ۔کیونکہ جوکچھ تمہاری فکر میں آ ئے گاوہ بھی محدود ہی ہوگا، اورخدا کے لیے محال ہے کہ وہ محدود ہوجائے ۔
البتہ یہ تفسیر اس آ یت کے لیے ایک دوسرابیان ہے ،جواس بات سے جوہم نے بیان کی ہے اختلاف نہیں رکھتی ،اور دونوں آ یت کے معنی میں جمع ہوسکتے ہیں ۔
اس کے بعد امر ربوبیت میں اس کی حاکمیت ،اور اس جہان کے تمام امور کے اس کی ذات پاک تک منتہی ہونے کو واضح کرنے کے لیے مزید کہتاہے :وہی ہے کہ جوہنسا تابھی ہے اور رلاتا بھی (وَ أَنَّہُ ہُوَ أَضْحَکَ وَ أَبْکی)(٢) ۔
اوروہی ہے جو مارتابھی ہے اور زندہ بھی کرتاہے (وَ أَنَّہُ ہُوَ أَماتَ وَ أَحْیا) ۔
اور وہی ہے جودودو جوڑے مذکر اورمونث کے پیداکرتاہے (وَ أَنَّہُ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَ الْأُنْثی) ۔
اس نطفہ سے جوخارج ہوتاہے اورقرار گاہ رحم میں گرتاہے (مِنْ نُطْفَةٍ ِاذا تُمْنی) ۔
یہ چند آیات ،تمام امور کے پروردگارکی ربو بیت اورتدبیر کی طرف منتہی ہونے والے مسئلہ کے لیے ، حقیقتاً ایک جامع بیان اور عمدہ وضاحت ہیں ،کیونکہ کہتاہے ،: تمہاری موت اورزندگی اسی کے ہاتھ میں ہے ،زوجین کی خلقت کے طریقہ سے نسل کا جاری رہنابھی اسی کی تدبیر سے ہے ، اسی طرح وہ تمام حوادث جوانسان کی زندگی میں پیش آتے ہیں ،اس کی طرف سے ہیں ۔وہی رلاتا اورہنساتا ہے ،وہی مارتا اور زندہ کرتاہے ۔اوراس طرح سے سررشتہ زندگی آغاز سے لے کرانجام تک اس کی پاک ذات پرجاکرختم ہوتے ہیں ۔
ایک حدیث میں اس آیت کے ہنسنے اوررونے کے مفہوم کووسعت دی گئی ہے ،اوراس کی تفسیر میں اس طرح بیان ہواہے :
ایکی السماء بالمطر، واضحک الارض بالنبات
خدا آسمان کوبارش کے ساتھ رلاتاہے اور زمین کونباتات کے ساتھ ہنساتاہے (٣) ۔
بعض شعرانے اس مضمون کواپنے شعر میں بیان کیاہے،
ان فصل الربیع فصل جمیل
تضحک الارض من بکاء السماء
فصل بہار ایک خوبصورت فصل ہے کیونکہ زمین آسمان کے رونے سے ہنسنے لگتی ہے ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ انسان کے تمام افعال میںسے ہنسنے اوررونے کے مسئلہ پرتکیہ ہوا ہے ،کیونکہ یہ دونوں اوصاف انسان ہی کے ست مخصوص ہیں ، اور دوسرے جانداروں میں اصلاً اس کاوجود نہیں ہے ، یابہت ہی شاذ ونادر ہے ۔
انسانی جسم میں ہنسنے یارونے کے وقت جوفعل وانفعال اور دگر گونی کی کیفیت پیداہوتی ہے اوران کاروحانی تغیّرات کے ساتھ ارتباط بہت ہی پیچیدہ اور تعجب خیزہے ،اورمجموعی طور سے یہ حق تعالیٰ کی مدبر یت کی ایک واضح نشانی ہوسکتی ہے ،یہ بات اس مناسبت کے علاوہ ہے جویہ دونوں افعال (ہنسنااور رونا)موت وحیات کے مسئلہ کے ساتھ رکھتے ہیں ۔
بہرحال خداکی تدبیر اور ربوبیت پرتمام امورکی انتہا،انسان کے اختیاراورآزادی ارادہ کے ساتھ کسی قسم کااختلاف نہیں رکھتی ،کیونکہ اختیار وآزادی بھی اسی کی طرف سے ہے اوراس تک ہی منتہی ہوتی ہے ۔
ان امور کے ذکر کے بعد، جوپروردگار کی ربوبیت اور تدبیر سے مربوط ہیں، امر معاد وقیامت کوپیش کرتے ہوئے کہتاہے، کیاانسان کو یہ خبر نہیںہے کہ گزشتہ کتب میں یہ آیا ہے کہ دوسرے عالم کوایجاد کرناخدا پرلازم ہے (وَ أَنَّ عَلَیْہِ النَّشْأَةَ الْأُخْری) ۔
نشاة آفرینش اورکسی چیزکی تربیت کے معنی میں ہے ، نشاة اخرٰی قیامت کے علاوہ کوئی اور چیزنہیں ہے ، علیہ (خداپرلازم ہے ) کی تعبیر کوآزادی دے دی ، اس عرصہ میں مطیع وغیرمطیع اورظالم ومظلوم افراد وجود میں آ ئے ، اور کوئی بھی اس جہان میں اپنی اصلی پاداش اورسزاکونہیں پہنچا، لہٰذا اس کی حکمت کاتقاضا ہے کہ ایک نشاة ثانیہ ہوتاکہ عدالت کی جاسکے۔
علاوہ ازیں ایک حکیم ذات اس وسیع وعریض جہان کو ، ان تمام ناملائم اور نامناسب امور کے ساتھ ، چند روزہ زندگی کے لیے خلق نہیں کرسکتا، لہٰذاچھی اوریقینی طور سے یہ ایک وسیع زندگی کے لیے ، جواس وسیع پروگرام کی قیمت ہے ایک مقدمہ ہوگی ، یادوسرے لفظوں میں اگردوسری زندگی نہ ہو تو اس جہان کی خلقت اپنے اصلی ہدف اورمقصد تک نہیں پہنچ سکتی ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ خدانے یہ وعدہ اپنے بندوں کوایک حتمی وعدہ کے عنوان سے دیاہے ،اوراس کے کلام کی صداقت کاتقاضا یہ ہے کہ اس کے وعدے پورے ہوں ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے: اوروہی تو ہے جوبند وں کو بے نیاز بھی کرتاہے اورباقی رہنے والے سرمائے ان کے اختیار میں دیتاہے(وَ أَنَّہُ ہُوَ أَغْنی وَ أَقْنی) ۔
خدانے نہ صرف مادی پہلوؤں میں انسان کی ضروریات اورحاجتوں کواپنے لطف وکرم سے برطرف کیاہے ، بلکہ ہمیشہ رہنے والے سرمائے بھی اسے عطاکئے ہیں، کیونکہ معنوی زندگی میں بھی انسانوں کی احتیاجات تعلیم وتربیت اورتکامل وارتقاء کے سلسلہ میں انبیاء ورسل کے بھیجنے اورآسمانی کتب کے نازل کرنے اورمعنوی مواہب ونعمات عطاکرنے کے ذ ریعہ برطرف کی ہیں ۔
اغنٰی غنی کے مادہ سے بے نیاز ی کے معنی میں ہے ، اور اقنٰی قنیہ کے مادہ سے (جزیہ کے وزن پر )ان سر مایوں او ر اموال کے معنی میں ہے جنہیں انسان ذخیرہ کرتاہے (٤) ۔
اس بناپر اغنی تو موجود ہ حاجات وضروریات کوپورا کرتاہے ،اور اقنی ذخیرہ نعمتوں کی عطائیگی ہے ، جو مادی اور میں توباغ واملاک وغیرہ کے مانند ہے اورمعنوی ہے اورمعنوی امور میں خداکی رضاو خوشنودی جیسی باتیں ہیں،جوہمیشہ ہمیشہ رہنے والاعظیم ترین سرمایہ شمارہوتاہے ۔
یہاں ایک اورتفسیر بھی یہ جو اغنی کو اقنی کے مدّ ِ مقابل قرار دیتی ہے ،یعنی غنی وفقیراسی کے دستِ قدرت میں ہیں، اس کی تظیر سورئہ رعد کی آ یت ٢٦ میں آ ئی ہے:اللہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر: خداجس کے لیے چاہتا ہے روزی کووسیع کردیتاہے ،اور جس کے لیے چاہتا ہے محدود وتنگ کردیتاہے ۔
لیکن یہ تفسیراس کے ساتھ جو منابع لغت میں آئی ہے سازگار نہیں ہے اور اوپر والی آ یت اس معنی کی شاہد نہیں بن سکتی ۔
آخرمیں آخری زیربحث آیت میں فرماتاہے : کیاانسان یہ نہیں جانتاکہ گزشتہ کتب میں یہ آچکاہے کہ ستارئہ شعری کا پروردگار وہی ہے ؟(وَ أَنَّہُ ہُوَ رَبُّ الشِّعْری) ۔
ستارئہ شعری کاخصوصیت کے ساتھ ذکر اس کے علاوہ ،کہ یہ ستارہ آسمان کے ستاروں میں سب سے زیادہ چمکنے والاہے ،جوعام طورپر سحر کے وقت صورت فلکی جوزا کے پاس آسمان میں ظاہر ہوتاہے ، تو جہ کومکمل طور سے اپنی طرف کھینچتا ہے اس سبب سے ہے کہ مشر کین عرب کاایک گروہ اس کی پرستش کرتاتھا ، قرآن کہتاہے ! تم شعری کی پرستش کیوں کرتے ہو؟اس کے پیداکرنے والے پر وردگار کی پرستش کرو ۔
ضمنی طورپر توجہ رکھنی چاہیئے کہ آسمان میں دوستار ے ہیں جوشعری کے نام سے موسوم ہیں ،جن میں سے ایک تو جنوب کی سمت میں ظاہرہوتاہے ، اور اسی بناپر اس کو شعرای یمانی کہتے ہیں (کیونکہ یمن جزیرہ عربستان کے جنوب میں ہے )اوردوسرا شعرای شامی جوشمال کی طرف نکلتاہے ، لیکن مشہور وہی شعرای یمانی ہے ۔
اس ستارہ کی عمدہ خصوصیات کے بارے میں دوسرے مباحث ہیں جونکات کی بحث میں آ ئیں گے ۔
١۔تفسیر علی بن ابراہیم مطابق نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ١٧٠۔
٢۔یہ افعال اگرچہ ماضی کی صورت میں ہیں لیکن مستقبل کامعنی دیتے ہیں ۔
٣۔ نورالثقلین جلد ٥،صفحہ ١٧٢۔
٤۔"مفردات "" راغب""مادہ "" قنی"" ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma