جنگ ِ خیبر کا ماجرا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22
جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)حدیبیہ سے واپس لوٹے توتمامماہ ذی الحجہ اورہجرت کے ساتویںسال کے محرم کاکچھ حِصّہ مدینہ میں تو قف کیا، اس کے بعدا پنے اصحاب میں سے اُسے ایک ہزار چار سوا افراد کوجنہونے حدیبیہ میں شرکت کی تھی ساتھ لے کرخیبر کی طرف روانہ ہُوئے ،(جہاں اسلام کے خلاف تحریکوں کا مر کزتھا ، اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کسی مناسب فرصت کے لیے گن گن کردن گزاررہے تھے کہ اس مرکز فساد کوختم کریں) ۔
غطفان کے قبیلہ نے شروع میں توخیبر کے یہودیوں کی حمایت کرنے کاارادہ کیاتھا ، لیکن بعد میں ڈ رگئے اوراس سے رُک گئے ۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)جس وقت خیبر کے قلعوں کے نزدیک پہنچے توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کورُ کنے کاحکم دیا، اس کے بعد آسمان کی طرف سربلند کیااور یہ دُعا پڑھی ۔
اللّٰھم رب السما وات وما الظلن،ورب الا رضین وما اقللن... نسأ لک خیر ھذہ القر یة ، وخیرا ھلھا، ونعوذ بک من شرّ ھا وشرّ ھلھا، وشرّ مافیھا ۔
خدا وندا ! اسے آسمانوں کے پروردگار اورجن پرانہوں نے سایہ ڈالا ہے ، اور اے زمینوں کے پروردگار اورجن چیزوں کوانہوںنے اُٹھا رکھتا ہے ، میں تجھ سے اس آباد ی اوراس کے اہل میں جوخیر ہے اس کاطلب گار ہوں ، اور تجھ سے اس شر اوراس میں رہنے والوں کے شر اورجوکچھ اس میں ہے اس کے شر سے پناہ نگتاہوں ۔
اس کے بعد فرمایا: بسم اللہ آ گے بڑھو!اوراس طرح سے رات کے وقت خیبر کے پاس جاپہنچے ، اور صبح کے وقت جب اہل خیبراس ماجر ے سے باخبر ہُوئے توخودکولشکرِ اسلام کے محاصرہ میں دیکھا ، اس کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے یکے .بعد دیگر ے ان قلعوں کوفتح کیا، یہاں تک کہ آخر ی قلعہ تک ، جوسب سے زیادہ مضبوط اور طاقتورتھا ، اور مشہور یہودی کما نڈ ر مرحب اس میں رہتاتھا ،پہنچ گئے ۔
اُنہیں دنوں میں ایک سخت قسم کادردسر ، جوکبھی کبھی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عارضی ہوا کرتاتھا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ،آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوعارضی ہوگیا ،اس طرح سے کہ ایک دودن آپ اپنے خیمہ سے باہر نہ آسکے تواس موقع پر(مشہور اسلام تواریخ کے مطابق )حضرت ابوبکر ، نے علم سنبھالا اور مسلمانوں کوساتھ لے کر یہودیوں کے لشکر پرحملہ آور ہُوئے ،لیکن نتیجہ حاصل کیے بغیر واپس پلٹ آ ئے دوسری دفعہ حضرت عمر نے علم اُٹھا یا، اور مسلمان پہلے دن کی نسبت زیادہ شدت سے لڑ ے ،لیکن بغیر کسی نتیجہ کے واپس پلٹ آئے ۔
یہ خبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے کانوں تک پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
اما واللہ لا عطینھا عندً رجلاً یحب اللہ ورسولہ،ویحبہ اللہ و رسولہ ، یاخذ ھا عنوة :
خدا کی قسم کل یہ علم ایسے مرد کو دوں گاجو خدااور کے رسول کودوست رکھتاہے ، اور خدا اورپیغمبراس کودوست رکھتے ہیں،اور وہ اس قلعہ کوطاقت کے زور سے فتح کرے گا ۔
ہرطرف سے گردنیں اٹھنے لگیں کہ اس سے مراد کون شخص ہے ؟ کچھ لوگوں کااندازہ تھا کہ پیغمبر کی مراد علی علیہ السلام ہیں ، لیکن علی علیہ السلام ابھی وہاں موجود نہیں تھے ، کیونکہ شدید آشوب چشم انہیں لشکر میں حاضر ہونے سے مانع تھا ،لیکن صبح کے وقت علی علیہ السلام اونٹ پرسوار ہوکر وار د ہُوئے ،اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے خیمہ کے پاس اُتر ے درحالانکہ آپ علیہ السلام کی آنکھیں شدّت کے ساتھ درد کررہی تھی ۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا :میرے نزدیک آ ئو ! آپ قریب توآپ نے اپنے دہن مبارک کالعاب علی علیہ السلام کی آنکھوں پر ملا اور اس معجزہ کی برکت سے آپ کی آ نکھیں ٹھیک ہوگئیں اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے علم ان کے ہاتھ میں دیا۔
علی علیہ السلام لشکر ِ اسلام کوساتھ لے کر خیبر کے سب سے بڑے قلعہ کی طرف بڑھے تو یہودیوںمیں سے ایک شخص نے قلعہ کے اُوپر سے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟آپ علیہ السلام نے فرمایا:میں علی بن ابی طالب ہوں اس یہودی نے پکار کرکہا۔
اے یہود یو!اب تمہاری شکست کاوقت آن پہنچا ہے !اس وقت اس قلعہ کاکمان نڈر مرحب یہودی ، علی علیہ السلام سے مقابلہ کے لیے نکلا، اورکچھ دیر نہ گزرہی تھی کہ ایک ہی کار ی ضرب سے زمیں پرگرپڑا ۔
مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان شدید جنگ شروع ہوگئی ، علی علیہ السلام قلعہ کے دروازے کے قریب آ ئے ،اورایک قوی اوربُر قدرت حرکت کے ساتھ دروازے کواکھاڑ ا اورایک طرف پھینک دیا، اوراس طرح سے قلعہ کُھل گیا اورمسلمان اسی میں داخل ہوگئے اوراُسے فتح کرلیا۔
یہودیوں نے اطاعت قبول کرلی، اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ اس اطاعت کے عوض ان کی جان بخشی کی جائے ،پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ان کی درخواست کوقبول کرلیا، منقول غنائم اسلامی لشکر کے ہاتھ آ ئے اوروہاں کی زمینیں اور باغات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے یہودیوں کواس شرط کے ساتھ سپرد کردیئے کہ اس کی آمد نی کادھا حِصّہ وہ مسلمانوں کودیا کریں گے ( ۱) ۔
 ۱۔کامل ابن اثیر ( اہل سنت کے مشہور مورخ ) جلد٢،صفحہ ٢١٦ ،٢٢١ (کچھ تلخیص کے ساتھ)۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma