تمہاری جزاصرف تمہارے اعمال ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22

گذشتہ آ یات میں ،قیامت میں عذاب الہٰی کی طرف ایک اجمالی اشارہ ہواتھا ، زیربحث آ یات اس معنی کی توضیح وتفسیر ہے ،پہلے توقیامت کی بعض خصوصیات کوبیان کرتاہے ،اورپھرتکذیب کرنیاورجھٹلانے والوں کے عذاب کی کیفیت کوبیان کرتاہے ۔
فرماتاہے:یہ عذاب الہٰی اس دن آئے گاجب آسمان ( آسمانی کرات) شدت کے ساتھ کررہے ہوں گے ،اور ہرطرف آ جارہے ہوں گے (یَوْمَ تَمُورُ السَّماء ُ مَوْراً)(۱) ۔
مور (بروزن قول) لغت میں مختلف معانی میں آ یا ہے راغب مفردات میں کہتاہے مور تیزی کے ساتھ رواں دواں ہونے کے معنی میں ہے ،وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس گرد وغبار کوبھی جسے ہو اہرطرف لے جاتی ہے مور کہتے ہیں ۔
لسان العرب میں بھی یہ بیان کیاگیا ہے کہ مور حرکت اورآنے جانے کے معنی میں ہے، لہروں اورتیزی کے معنی میں بھی آیاہے ،اوربعض نے مور کی دورانی حرکت سے بھی تفسیر کی ہے ۔
ان تفاسیر کے مجموعہ سے معلوم ہوتاہے مور اسی حرکت سریع اور دورانی کوکہتے ہیں جوآمدورفت اوراضطراب وتموج کے ساتھ ہو تی ہے ۔
اس طرح سے کرّات آسمانی پر حکمران نظام، قیامت کے قریب درہم برہم ہوجائے گا، وہ اپنے مد اروں سے منحرف ہوجائیں گے ،اور ہرطرف آمدورفت کریں گے ،اورپھرانہیں لپیٹ کرتہ کر دیاجائے گا، اوران کی جگہ خداکے حکم سے ایک نیاآسمان برپا ہوگا جیساکہ سورہ انبیاء کی آ یت ٤٠١ میں کہتا ہے :یَوْمَ نَطْوِی السَّماء َ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُب :وہ دن جس میں آسمان کوطومار کی طرح لپیٹ دیں گے ۔
اورسورة ابراہیم کی آ یت ٤٨ میں یہ آ یاہے :یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ وَ السَّماواتُ وہ دن جس میں یہ زمین دوسری زمین سے ، اور یہ آسمان دوسرے آسمانوں سے بدل جائیں گے ۔
قرآن کی دوسری آ یات میں بھی ایسی تعبیریں نظر آ تی ہیں ، جو کرات آسمانی کے شگافتہ ہونے کی خبر دیتی ہیں ۔(انفطار) اوران کے اپنی جگہ سے اکھڑ جانے کی (تکویر۔١١) اوران کے درمیان فاصلہ پڑنے کی (مرسلا۔ ٩) حکایت کرتی ہیں ۔ہم انشا اللہ ان آ یات کے ذیل میں بھی اس سلسلہ میں بحث کریں گے ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : اوروہ دن کہ جس میں پہاڑ حرکت میں آ جائیں گے (وَ تَسیرُ الْجِبالُ سَیْراً) ۔
ہاں پہا ڑ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے اورحرکت کرنے لگیں گے اوراس کے بعد قرآن کی دوسری آ یات کی شہادت کی بناپر بکھر جائیں گے عھن المنفوش (دھنکی ہوئی روئی) کی طرح ہوجائیں گے ۔( قارعہ۔٥) اوراس کی جگہ ایک صاف اورہموار بے آب و گیاہ زمین ظاہر ہوگی ، فیذرھا قاعاً صفصفًا (طٰہٰ۔١٠٦)(2) ۔
یہ سب اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ یہ دنیا اوراس کی تمام پناہ گاہیں درہم و برہم ہو جا ئیں گی ، اورایک نیاجہان نئے نظاموں کے ساتھ اس کی جگہ لے لے گا ،اورانسان اپنے اعمال کے نتائج کے روبرو ہوگا۔
لہذا اس کے بعد والی آیت میں مزید کہتاہے : جب ایساہے توپھراس دن تکذیب کرنے والوں کے لیے وائے ہے!(فَوَیْل یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبین)(٣) ۔
ہاں ! جب عالم کی دگر گونی سے پیداہونے والے اضطراب اور وحشت نے سب کوگھیر رکھاہوگا، اس وقت ایک عظیم وحشت مکذبین کولاحق ہوگی، جوکہ عذاب الہٰی ہے ،چونکہ ویل ایک نامطلوب حادثہ کے وقوع پرتاسف واندوہ کااظہار ہے ۔
اس کے بعدان مکذبین کا تعارف کراتے ہوئے فرماتاہے: وہی لوگ جو باطل باتوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ہیں (الَّذینَ ہُمْ فی خَوْضٍ یَلْعَبُونَ)۔
یہ آ یات قرآن کو جھوٹ اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کو جادو کہتے ہیں اوران کے لانے والے کو مجنون شمارکرتے ہیں،تمام حقائق کوکھیل تماشا قرار دیتے ہوئے ان کا مذاق اڑاتے اور ٹھٹھا کرتے ہیں ۔
باطل اور بے دلیل باتوں کے ساتھ حق سے جنگ کے لیے کھڑ ے ہوجاتے اوراپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے کسی تہمت اورجھوٹ سے انکار نہیں کرتے ۔
خوض (بروزن حوض) باطل اورغلط باتوں میں وارد ہونے کے معنی میں ہے ،اوراصل میں پانی میں وارد ہونے اوراس سے عبور کرنے کے معنی میں ہے ۔
دوبارہ اس دن کا تعارف اوران مکذبین کی سرگذشت کے بیان کے لیے ایک دوسرے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہتاہے وہ دن جس میں وہ خشونت اورسختی کے ساتھ جہنم کی آگ کی طرف ہانکے جائیں گے (یَوْمَ یُدَعُّونَ ِلی نارِ جَہَنَّمَ دَعًّا)(٤) ۔
ان سے کہاجائے گا یہ وہی آگ ہے جس کاتم انکار کرتے تھے (ہذِہِ النَّارُ الَّتی کُنْتُمْ بِہا تُکَذِّبُونَ) ۔
اوران سے یہ بھی کہاجائے گا: کیایہ جادو ہے ؟ یاتم دیکھتے نہیں ہو؟(أَ فَسِحْر ہذا أَمْ أَنْتُمْ لا تُبْصِرُونَ) ۔
تم ہمیشہ دنیامیں یہ کہاکرتے تھے ،محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جوکچھ لا یاہے وہ جادوہے ،اس نے جادوگر ی کے ذ ریعہ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیاہے تاکہ ہم حقائق کونہ دیکھیں ،ہماری عقل کو ختم کردیاہے ، اور کچھ امورکچھ کو معجزہ کے نام سے تعارف کراتاہے ،اورکچھ باتیں وحی الہٰی کے عنوان سے ہمارے سامنے پڑ ھتاہے ، لیکن یہ سب چیزیں بے بنیاد ہیں، اورجادو کے سواکچھ نہیں ہیں ۔
لہذا قیامت کے دن سرزنش اورتوبیخ کے عنوان سے جب کہ وہ جہنم کی آگ کودیکھیں گے اوراس کی حرارت کومحسوس کریں گے ان سے کہا جائے گا کیا یہ جادو ہے؟ کیاتمہاری آنکھوں پر پردہ ڈالا گیاہے ؟
اسی طرح ان سے کہاجائے گا: اس آگ میں داخل ہوجاؤ ،اوراس میں جلتے رہو ،چاہے صبرو شکیبائی کرو یابیتابی اورگڑ گڑ اؤ ،تمہارے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا (اصْلَوْہا فَاصْبِرُوا أَوْ لا تَصْبِرُوا سَواء عَلَیْکُم) ۔
کیونکہ تمہارے اعمال کابدلہ صرف تمہار ے اپنے ہی اعمال ہیں (انَّما تُجْزَوْنَ ما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔
ہاں!یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جوتمہاری طرف پلٹے ہیں،اور تمہارے پاؤں کی زنجیر بن گئے ہیں،اس بناپر گڑگڑانااورآہ ونالہ اوراضطراب وبے تابی کوئی اثر نہیں رکھتی ۔
یہ آ یت تجسم اعمال کے مسئلہ اوران کی انسان کی طرف بازگشت پرایک جدید تاکید ہے ،اور یہ پروردگار کی عدالت کے مسئلہ پربھی ایک تاکید مجدد ہے ،چونکہ جہنم کی آگ چاہے جتنی بھی جلانے والی ہو ،اوراس کاعذاب چاہے جتنا دردناک ہووہ خود انسان نوں کے اعمال کے نتیجے اوران کی تبدیل شدہ شکلوں کے سواا ور کوئی چیزنہیں ہے ۔
۱۔"یوم"منصوب ہے ظرفیت کے عنون سے اور"واقع"سے متعلق ہےجوگزشتہ آ یات میں آیاہے۔
۲۔ مزیدوضاحت کے لیے تفسیر نمونہ جلد ٧صفحہ ٤٢٣ (سورئہ طہ کی آ یت ١٠٥ کے ذیل میں ) رجوع کریں ۔
٣۔"" فویل"" میں ""فا"" تفریع کاہے ،یعنی چونکہ اس دن کوئی پناہ گاہ نہیں ہے لہٰذا ان تکذیب کرنے والوں پروائے ہے ۔
٤۔"" دع""(بروزن جد) شدت کے ساتھ دھکیلنے اورخشونت وسختی کے ساتھ ہانکنے کے معنی میں ہے "" یوم"" ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے یا قبل کی آ یت کے لفظ "" یومئذٍ"" کابدل ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma