بیعتِ رضوان میں شریک ہونے والوں سے خدا کی خوشنودی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22
ہم بیان کرچکے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور قریش کے درمیان سفیروں کاتبادلہ ہواتھا ،ان میںسے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے عثمان بن عفّان کو(جو ابو سفیان )کے عزیز وں میں سے تھا ، اور یہ رابط ظاہر اً اس کے انتخاب میں اثر رکھتاتھا )نمائندے کے طورپر مشرکین مکّہ اور اشراف قریش کے پاس بھیجاتھا تاکہ وہ انہیںاس حقیقت سے آگاہ کرے کہ مسلمان جنگ کے ارادے سے نہیں آ ئے ، بلکہ ان کاہدف ومقصد تھا خانہ خدا کی زیارت اور کعبہ کااحترام ہے ،لیکن قریش نے وقتی طورپر عثمان کوروک لیا، اور اس کے بعد مسلمانوں میں یہ افوا پھیل گئی کہ عثمان ماراگیا ہے . پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فر مایا : میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا جب تک اس گروہ سے جنگ نہ کرو ں۔
اس کے بعدآپ درخت کے نیچے تشریف لائے جووہاں پرموجود تھا ،اور لوگوں کے ساتھ تجدید بیعت کی اوران سے خواہش ظاہر کی کہ مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے میں کوتاہی نہیں کریں گے ،اورکوئی شخص میدان جہاد سے فرار نہیں کرے گا ( ١) ۔
اس بیعت کی شہرت مکّہ میں پھیل گئی اورقریش سخت وحشت زدہ ہوگئے اورانہوںنے عثمان کو آزاد کردیا ۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں یہ بیعت بیعت ِ رضوان (خوشنودیِ خداکی بیعت )کے عنوان سے مشہور ہوئی اور مشرکین کولر زہ براندام کردیا اور یہ تار یخ اسلام میں ایک نقطہ ٔ عطف تھا۔
زیر بحث آ یات اسی ماجرے کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ۔
پہلے فرماتاہے :خداان مومنین سے جنہوںنے درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کی راضی اورخوشنود ہوا (لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنینَ ِذْ یُبایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) ۔
اس بیعت کامقصد توانائیوں کوزیادہ سے زیادہ منظم کرنا ، روحانی تقویت ،جنگی آمادگی کی تجدید ، افکار کی آزمائش اور وفا دار دوستوں کی فدا کاری کے وزن کوآزماناتھا ۔
اس بیعت نے مسلمانوں کے جسم میں ایک نئی رُوح پھونک دی چونکہ انہوں نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیاتھا ۔.اورصمیم قلب کے ساتھ وفاداری کااظہار کررہے تھے ۔
خدانے ان فدا کار اورایثار پیشہ مومنین کوجنہوںنے اس حساس لمحہ میں پیغمبر سے بیعت کی تھی چارعظیم اجر عطا فرمائے . جن میں سب سے زیادہ اہم اس کی رضا وخوشنودی تھی ، جیساکہ سورۂ توبہ کی آ یت ٧٢ میں بیان ہواہے : ( ورضوان من اللہ اکبر) اور خدا کی رضا او ر خوشنودی بہشت کی سب نعمتوں سے برتر ہے ۔
اس کے بعد مزیدکہتاہے : خدااس عہدو پیمان کے بارے میں ان کی وفاداری پر آماد گی اوران کے دلوں میں چُھپے ہُو ئے ایمان اورصداقت کوجانتاتھا ،اس لیے ان پر سکون و آرام نازل کیا (فَعَلِمَ ما فی قُلُوبِہِمْ فَأَنْزَلَ السَّکینَةَ عَلَیْہِم) ۔
ایساسکون واطمینان کہ :دشمنوں کے انبوہ کے درمیان ،اپنے وطن اور شہر ودیارسے دُور ازمقام پر ،ان کے آمادہ وتیار ہتھیار وں کے درمیان،کافی اسلحہ پاس نہ ہونے کے باوجود ( چونکہ زیارت کے لیے آ ئے تھے نہ کہ جنگ کے لیے )کسی قسم کاخوف اور گھبراہٹ محسوس نہ کی ، اور مضبوط پہاڑ کی طرح اپنے پائوں پر کھڑ ے رہے اور یہ ان کے لیے خدا حامل ہوں ۔
لہٰذ اایک حدیث امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے :
ان العبد المؤ من الفقیر لیقول یارب ارز قنی حتی افعل کذاو کذامن البّر ووجوہ الخیر، فاذا علم اللہ عزّو جل ذالک منہ یصدق نیتہ کتب اللہ لہ من الا جر مثل مایکتب لہ لرعملہ ان اللہ واسع کریم ۔
فقیر بندہ ٔ مومن جب کبھی یہ کہتاہے :خداوند مجھے توفیق عطافرما کہ میں ایسے ایسے اچھے اورنیک کام کروں ، جب خدا اس کی صدق نیّت کوجان لیتاہے تووہ اس کے لیے وہی اجر و صلہ لکھ دیتاہے جواُسے عمل کرنے کی صورت میں عطا کرتا، کیونکہ خداوسیع رحمت والا کریم ہے ( ٢) ۔
آ یت کے آخر میں تیسری نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے فرماتاہے :
اورانہیں اجر کے طورپر قریب کی فتح نصیب کی (وَ أَثابَہُمْ فَتْحاً قَریباً ) ۔
ہاں !یہ فتح جواکثر مفسرین کے قول کے مطابق فتح خیبرتھی (اگر چہ بعض نے اسے فتح مکّہ شمار کیاہے ) ایثار پیشہ مؤ منین کے لیے خدا تیسری نعمت تھی ۔
قر یباً کی تعبیر اس چیز کی ایک تائید ہے کہ اس سے مراد فتح خیبر ہے کیونکہ یہ فتح ہجرت کے ساتویں سال کی ابتداء میں ، حدیبیہ کے واقعہ سے چند ماہ کے فاصلہ پرحاصل ہوئی ۔
چوتھی نعم جوبیعت رضوان کے بعد مسلمانوں کو نصیب ہوئی فراواں مادی غنائم تھے ، جیساکہ بعد والی آیت میں فر ماتاہے :
او ردوسرا اجروہ بکثرت غنائم ہیں جواُن کے ہاتھ آئیں گے (وَ مَغانِمَ کَثیرَةً یَأْخُذُونَہا) ۔
ان غنائم میں سے ایک وہی خیبر کے غنائم تھے جومسلمانوں کوایک مختصر سے عرصہ میںنصیب ہُوئے ، اور خیبر کے یہودیوں کی بے حساب ثروت کی طرف توجہ کرتے ہُوئے یہ غنائم حد سے زیادہ اہمیّت کے حامل تھے ۔
لیکن غنائم کوخیبر کے غنائم میں محدُود کرنے کی کوئی قطعی دلیل نہیں ہے ۔
لہٰذا باقی اسلامی جنگوں کے غنائم بھی جوفتح حدیبیہ کے بعد حاصل ہُوئے اس میں شامل ہوسکتے ہیں ۔
اور چونکہ مسلمانوں کوچاہیئے کہ وہ اس وعدہ الہٰی پر مکمل اطمینان رکھیں ، آ یت کے آخر میں مزید کہتاہے : خدا شکست ناپذیر اورحکیم ہے ( وَ کانَ اللَّہُ عَزیزاً حَکیماً) ۔
اگرتمہیں یہ حکم دیا ہے کہ حدیبیہ کے مقام پرصلح کرلو، تووہ حکمت کی اساس پرتھا ، وہ حکمت کہ وقت کے گزرنے نے اس کے اسرار سے پردہ اٹھا دیاہے ،اور اگروہ تمہیں فتح قریب اورغنائم کثیرہ کاوعدہ دیتاہے ، تووہ اس بات پر قادر ہے کہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے ۔
اس طرح سے صاحب ایمان اورایثار پیشہ مسلمانوں نے بیعت رضوان کے سایہ میں، اوران حساس لمحات میںپیغمبر سے وفا داری کااعلان کرکے دُنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرلی ، جبکہ بے خبر اورضعیف الایمان ڈر پوک منافق حسرت کی آگ میں جلتے رہے ۔
ہم اس گفتگو کوامیر المومنین علی علیہ السلام کی گفتگو پر ختم کرتے ہیں ، جبکہ آپ صدر اوّل کے مسلمانوں کی پامردی اور دشمن سے بے نظیر جہاد کے بارے میں بات کرتے ہیں ،اور سست وکمزور عنصر مخاطبین کی مذ مت کرتے ہُوئے فرماتے ہیں :
فلما رای اللہ صدقنا انزل،اور سست انزل بعد ونا الکبت ،وانزل علینا النصر ،حتّٰی استقرالاسلام ملقیاًجرانہ ، و متبو ئااو طانہ،العمری لو کنانا ٔ تی ما اتیتم، ماقام للذ ین عمرد ، ولا اخضر للا بمان عمود ، وایم اللہ لتحتلبنھا د ماً،لتتبعنھا ند ماً ۔
جس وقت خدا نے ہمارے صدق وخلوص کودیکھا توذلّت وخواری کودشمن پر اور کامیابی ونصرت کوہم پر نازل فرمایا، یہاں تک کہ اسلام صفحہ ٔ زمین پر پھیل گیا ،اوروسیع علاقے اپنے لیے چن لیے ، مجھے میری جان کی قسم ہے کہ اگر ہم مبارزہ میں تمہاری طرح ہوتے توہرگز دین کاستون قائم نہ ہوتا ، اورایمان کے درخت کی شاخ سر سبز نہ ہوتی ،اور خدا کی قسم تم دودھ کے بد لے خون دوہو گے اور پشیمان ہوں گے (٣) ۔
١۔"" مجمع البیان زیر بحث آ یات کے ذیل میں ""۔
٢۔ "" بحارالانوار"" جلد ٧٠ ،صفحہ ١٩٩۔
٣۔ "" نہج البلاغہ "" خطبہ ٥٦۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma