١۔ ادب افضل ترین سرمایہ ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22
اسلام میں ہرشخص اور گروہ سے ملا قات میں احترام ادب سے پیش آنے کی ، اوررعایت آداب کے مسئلہ کی بہت زیادہ اہمیت بیان ہوئی ہے، یہاں نمونہ کے طورپر چند احادیث کی طرف اشارہ کیاجاتاہے ۔
١۔ علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
الادب حلل مجددہ : ادب کی رعایت زینت کے نئے فاخرہ لباس کی طرح ہے (١) ۔
اوردوسری جگہ فرماتے ہیں:
الادب یغنی عن الحسب : ادب انسان کو اپنے آباؤ اجداد اور بڑوں پرفخر کرنے سے بے نیاز کردیتاہے(٢) ۔
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ۔
خمس من لم تکن فیہ لم یکن فیہ کثیر مستمتع قیل و ماھن یاابن رسول اللہ؟
قال : الدّین والعقل والحیاء وحسن الخلق وحسن الادب:
پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں ہوں تووہ قابل ملاحظہ صفات وامتیاز ات کاحامل نہ ہوگا ۔
عرض کیا گیا: اے فرزندِ رسول اللہ وہ کیا ہیں؟
فرمایا: دین وعقل وحیاء حسن خلق وحسن ادب (٣) ۔
اس کے علاوہ ایک اورحدیث میں اسی امام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
لا یطمعن ذوا لکبرفی الثناء الحسن ولا الخبّ فی کثرة الصدیق ولا السی ء الادب فی الشرف۔
تکبر کرنے والوں کولوگوں سے ذکرِ خیر کی ہرگز توقع نہیں رکھنی چاہیئے ،اور نہ ہی دھوکہ باز اورمکار لوگوں کودوستوں کی کثرت کی امید رکھنی چاہیئے (٤) ۔
اسی بناء پر جب ہم اسلام کے عظیم رہنماؤں کی زندگی میں غور کرتے ہیں ، توہم وہ دیکھتے ہیں کہ وہ ادب سے متعلق دقیق ترین نکات کی اپنے سے چھوٹے افراد تک کے لیے بھی ر عایت کرتے تھے ۔
اصولی طورپر دین آداب کاایک مجموعہ ہے : خدا کے لیے ادب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے سامنے ادب، آئمہ معصو مین علیہم السلام کے سامنے ادب استاد و معلم ، ماں باپ اور عالم ودانش مند کے سامنے ادب۔
یہاں تک کہ قرآن مجید کی آ یات میں غور کرنے سے معلو م ہوتاہے کہ خدااپنے اس مقام عظمت کے باوجود، جب اپنے بندوں سے بات کرتاہے توآداب کی پورے طورپر رعایت کرتاہے ۔
جب صورت حال یہ ہوتوپھر خدااوراس کے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لوگوں کی ذمہ داری واضح اور روشن ہے ۔
ایک حدیث میں منقول ہے:
جس وقت سُورہ ٔ مؤ منون کی ابتدائی آ یات نازل ہوئیں ،اورانہیں آداب اسلامی کے دستور میں رکھا، جن میں سے ایک نماز میں خشوع کامسئلہ تھا، توپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے جو پہلے نماز کے وقت آ سمان کی طرف نظرآٹھا کردیکھتے تھے ، پھرکبھی سر بھی اُٹھایااورپھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ زمین ہی کی طرف نظر رکھتے تھے ( ٥) ۔
پیغمبرخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی یہ موضوع اس حد تک اہم ہے کہ قرآن اوپروالی آ یات میں صراحت کے ساتھ کہتاہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی آواز سے آواز بلند کرنا،اوران کے سامنے شور وغل مچانا حبط اعمال کاموجب اورثواب کے ختم ہونے کاسبب ہے ۔
یہ بات واضح ہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے سامنے صرف اس نُکتہ کی رعایت ہی کافی نہیں ہے ، بلکہ دوسرے ایسے امور بھی جوسوء ادب کے لحاظ سے آواز بلند کرنے اورشور وغُل مچانے کے مانند ہیں وہ بھی آپ کی بارگاہ میں ممنوع ہیں، اور فقہی اصطلاح میں یہاں القاء خصوصیّت اور تنقیح مناط کرنی چاہییٔے . اوراس کے اشباہ ونظائر یعنی مِلتی جلتی باتوں کوبھی اس سے ملحق کرناچاہتے ۔
سورۂ نُورکی آ یہ ٦٣ میں بھی یہ بیان ہوا ہے : لا تَجْعَلُوا دُعاء َ الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعاء ِ بَعْضِکُمْ بَعْضا مفسرین کی ایک جماعت نے اس کی یوں تفسیر کی ہے : جس وقت تم پیغمبر کاپکار تے ہوتوایسے ادب وحترام کے ساتھ اُسے پکارا کرو جواس کے لائق ہے ، نہ کہ اس طرح سے جیسے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کوپکارتے ہو۔
قابل ِ توجہ بات یہ ہے کہ قرآن اوپر آ یات میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ادب کی رعایت کودل کی پاکیزگی ، تقویٰ کوقبول کرنے کی آمادگی کی نشانی ،اوربخشش وآ مرزش اوراجرِ عظیم کاسبب شمارکرتاہے، جبکہ بے ادب لوگوں کو بے عقل چوپایوں کے مانند بتاتاہے ۔
یہاں تک کہ بعض مفسرین نے زیربحث آ یات کووسعت دیتے ہُوئے یہ تک کہاہے کہ یہ بات نچلے مراحل وامراتب مثلاً علماء ،دانش مندوں اورفکری اخلاقی ،رہبروں پر بھی عایٔد ہوتی ہے اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اُن کے سامنے بھی آداب کے رعایت کریں ۔
البتہ ائمہ معصو مین علیہم السلام کے سامنے تویہ مسئلہ اور بھی زیادہ واضح ہے ،یہاں تک کہ ان روایات میں جواہل بیت علیہم السلام کے طریقے سے ہم تک پہنچی ہیں یہ بیان ہواہے : جب ایک صحابی جنابت کی حالت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آ یاتوامام علیہ السلام نے بغیر تمہید کے فرمایا:
امّا تعلم انہ لاینبغی للجنب ان ید خل بیوت الا نبیاء :؟ !
کیاتمہیں یہ علم نہیں ہے کہ کسی جنابت والے کے لیے انبیاء کے گھر میں داخل ہونامناسب نہیں ہے ؟( ٦)۔
اور دوسری روایت میں ان بیو ت لا نبیاء واو لاد الانبیاء لاید خلھا الجنب کی تعبیر ہوئی ہے جوابنیاء کے گھروں کے لیے بھی ہے کہ اور اولاد انبیاء کے گھروں کے لیے بھی ۔
مختصر اً یہ ہے کہ چھوٹوں اور بڑوں کے سامنے ادب کی رعایت کامسئلہ اسلامی احکام کے ایک اہم حصہ پرمشتمل ہے ،اگر ہم ان سب پربحث کرناچاہیں توتفسیر آیات کی حد سے باہر ہو جائیں گے ،ہم یہاں اسی بحث کوامام سجاد علی ابن الحسین علیہ السلام کی ایک حدیث کے ساتھ ، جورسالہ حقوق میں اُستاد کے سامنے ادب کی رعایت کے بارے میں ہے ،ختم کرتے ہیں،آپ علیہ السلام نے فرمایا:
اس شخص کاحق جوتجھے تعلیم دیتاہے، اورتربیت کرتاہے یہ ہے کہ تو اس کااحترام کرے، اس کی مجلس کو محترم شمار کرے اس کی باتیں کامل طورسے کان دھر کے سُنے ، اس کے رُو برو مؤدّب ہوکربیٹھے ،اپنی آواز کواس کی آواز سے بلند نہ کرے، اور جب کوئی اس سے سوال کرے توجواب دینے میں جلدی نہ کرے، اِس کے حُضور میں کسی سے باتیں نہ کرے اوراس کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرے ، اگراس کے پیٹھ پیچھے کوئی اسے بُرا بھلاکہے تواس کادفاع کرے، اوراس کے عیوب کوچھپائے اوراس کے فضائل کوآشکار کرے، اس کے دشمن کے پاس نہ بیٹھے اوراس کے دوستوں کودشمن نہ رکھے، جس وقت توایسا کرے گاتوخدا کے فرشتے گواہی دیں گے کہ تواس کے پاس گیاہے اور خدا کے لیے تونے اُس سے علم حاصل کیاہے نہ کہ مخلوقِ خدا کے لیے ( ٧) ۔
١۔ نہج البلاغہ : حکمت ٥۔
٢۔بحارالانوار ،جلد٧٥ صفحہ ٦٨۔
٣۔بحارالانوار ،جلد٧٥ صفحہ ٦٧۔
٤۔ "" بحارالانوار ،جلد٧٥ صفحہ٦٧""۔
٥۔ "" تفسیر مجمع البیان"" "" تفسیر فخررازی "" سُورہ مو منون کی آ یہ ٢ کے ذیل میں ۔
٦۔ بحارالا نوار ،جلد٢٧ صفحہ ٢٥٥۔
٧۔ "" محجتہ البیضاء "" جلد ٣ صفحہ ٤٥٠ (باب آداب الصحبة المعاشرہ ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma