طوفانوں اور بارش لانے والے بادلوں کی قسم

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22

سُورہ والصافات کے بعد یہ دوسری سُورت ہے جو بار بار کی قسموں کے ساتھ شروع ہوتی ہے، پُرمعنی اور فکر انگیز قسمیں ، بیدار کرنے والی اور آگاہی بخش قسمیں ۔
قرآن کی بہت سی دوسری سُورتیں ،جن سے ہم انشاء اللہ آئندہ کے مباحث میں گفتگو کریں گے ، اسی قسم کی ہیں ، اورقابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہ قسمیں غالباً مسئلہ معاد و قیامت کے بیان کے لیے ایک مقدمہ اور تمہید ہیں، چند موقعوں کے سوا جو مسئلہ توحید اور دوسری باتوں کے ساتھ مربوط ہیں، اور یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ان قسموں کامضمون قیامت کے مطالب کے ساتھ ایک خاص ربط رکھتاہے، اورایک خاص عمد گی اور زیبائی کے ساتھ قرآن اس اہم بحث کامختلف طریقوں سے جواب دے رہاہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآنی قسمیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے ،اس آسمانی کتاب کے اعجاز کی صورتوں ، اورقرآن کے زیبا ترین اور روش ترین حصّوں میں سے ایک ہے ، جن میں سے ہرایک کی تشریح و تفصیل اپنے مقام پر آ ئے گی ۔
اس سُورہ کے آغاز میں خدانے پانچ مختلف موضوعات کی قسم کاذکر کیاہے، جن میں سے چار توایک دوسرے کے ساتھ ہیں، اورایک حِصہ علیحدہ صورت میں آ یاہے ۔
پہلے فرماتاہے قسم ہے ان ہواؤں کی جوبادلوں کوفضامیں چلاتی ہیں اور گردوغبار اور گیاہ اور پھولوں کے بیج روئے زمین میں ہرجگہ بکھیر تی ہیں(وَ الذَّارِیاتِ ذَرْواً )(١) ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے،: قسم ہے ان بادلوں کی جوبارش کاسنگین بوجھ اپنے ساتھ اُٹھائے پھرتے ہیں(فَالْحامِلاتِ وِقْراً )(٢) ۔
اور قسم ہے ان کشتیوں کی جوعظیم درپاؤں اور سمندروں کی سطح پرآسانی کے ساتھ چلتی ہیں (فَالْجارِیاتِ یُسْراً)( ٣) ۔
اورقسم ہے ان فرشتوں کی جوکاموں کو تقسیم کرتے ہیں(فَالْمُقَسِّماتِ أَمْراً ) ۔
ایک حدیث میں جسے بہت سے مفسرین نے اسی آ یت کے ذیل میں نقل کیاہے یہ کہ آ یاہے کہ ابن الکوا (٤)نے ایک دن علی علیہ السلام سے ،جبکہ آپ علیہ السلام منبر پرخطبہ دے رہے تھے ، سوال کیا الذاریات ذرواً سے کیامراد ہے ؟آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہوائیں!
اس نے عرض کیا: فَالْحامِلاتِ وِقْراً فرمایابادل !
اس نے عرض کیا: فَالْجارِیاتِ یُسْراً فمایا: کشتیاں !
اس نے عرض کیا: فَالْمُقَسِّماتِ أَمْراً فرمایا: فرشتے مراد ہیں!
اس کے باوجود دوسری تفسیریں بھی ہیں، جواس تفسیر کے ساتھ قابلِ جمع ہیں،ان میں سے ایک یہ ہے کہ جاریاتِ یسراً سے مراد وہ نہریں اور در یاہیں جوبارشوں کے ذریعہ جاری ہوتے ہیں، اور فَالْمُقَسِّماتِ أَمْراً سے مراد وہ رزق ہیں جو فرشتوں کے ذریعہ کھیتی باڑی کے طریق سے تقسیم ہوتے ہیں ۔
اس طرح سے ہوا ؤں کے بارے میں پھر بار دلوں کے بارے میں اوراس کے بعد دریاؤں اور نہروں کے بارے میں ، اور آخرمیں نباتات کے اگانے کے سلسلے میں گفتگو ہوئی ہے، جومسئلہ معاد کے ساتھ جواس کے بعد آ یاہے ، قریبی مناسبت رکھتی ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ امکانِ معاد کی ایک دلیل مردہ زمینوں کوبارش کے ذریعہ زندہ کرنے کامسئلہ ہے جو قرآن میں بار ہامختلف عبادتوں میں ذکر ہواہے ۔
یہ احتمال بھی دیاگیاہے کہ ممکن ہے یہ چاروں اوصاف سب کے سب ہواؤں کے اوصاف ہوں ،وہ ہوائیں جوبادلوں کو پیدا کرتی ہیں، اور وہ ہوائیں جوانہیں اپنے دوش پراٹھائے پھر تی ہیں اوروہ ہوائیں جوانہیں ہرطرف چلاتی ہیں اوروہ ہوائیں جوبارش کے قطروں کوہرطرف بکھیرتی ہیں( ٥) ۔
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ ان آ یات کی تعبیریں جامع اور کلی ہیں، لہٰذا وہ ان تمام معانی کواپنے اندر جگہ دے سکتی ہیں ،لیکن عمدہ وہی پہلی تفسیر ہے ۔
یہاں یہ سوال سامنے آ تاہے کہ اگر فرشتے مرادہوں ، توفرشتے کن امور کوتقسیم کرتے ہیں؟
اس کے لیے ہمارا جواب یہ ہے کہ : تقسیم کارممکن ہے کہ اس عالم کے کل امور کی تدبیر ہے مربوط ہو، کیونکہ فرشتگان الہی کے کچھ گروہ خداکے فرمان سے اس کے امور کی تدبیر کواپنے ذمہ لیے ہُوئے ہیں، اور بھی ممکن ہے کہ یہ تقسیم ارزاق ،یا زمین کے مختلف منطقوں میں بارش کے قطرات کے تقسیم سے مربوط ہو،( ٦) ۔
ان چار قسموں کو بیان کرنے کے بعد جوسب کی سب اُس مطلب کی اہمیّت کو بیان کرتی ہیں، جواُن کے بعد آ رہاہے ، فرمانا ہے : جوکچھ تمہیں وعدہ دیاگیاہے،وہ یقینا سچ ہے ۔(انَّما تُوعَدُونَ لَصادِق )(٧) ۔
دو بارہ تاکید کے عنوان سے مزید کہتاہے: اس میں شک نہیں کہ اعمال کی جزاء واقع ہوکر رہے گی (وَ اِنَّ الدِّینَ لَواقِع ) ۔
دین یہاں جزا ء کے معنی میں ہے ،جیساکہ مالک یوم الدین میں آ یاہے، اورصولاً قیامت کاایک نام یوم الدین (روزجزا )ہے.اس سے واضح ہوجاتاہے، کہ واقع ہونے والے وعدوں سے مراد ، یہاں قیامت وحساب وجزاوسزابہشت و دوزخ سے مربُوط وعدے ،اورمعاد سے مربوط تمام امور ہیں، اس بناء پر پہلا جُملہ قیامت کے تمام وعدوں کوشامل ہے ، اور دوسرا جُملہ مسئلہ جزاء پر ایک تاکید ہے ۔
بعدکی چند آ یات میں بھی یوم الدینکے بارے میں گفتگو آ ئی ہے، اور جیساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے وہ قسمیں جواس سُورہ کے آغاز میں آ ئی ہیں، وہ ان قسموں کے نتائج کے ساتھ ایک واضح وروشن تعلق اورمناسبت رکھتی ہیں،کیونکہ بادلوں ، کاچلنا ، بارش کابرسنا ، اوراس کے نتیجہ میں مردہ زمینوں کازندہ ہونا خودقیامت ومعاد کے منظر کی اس دُنیا میں نشاندہی کرتاہے ۔
بعض مفسرین نے ماتوعدونکی یہاں ایک زیادہ وسیع مفہوم کے ساتھ تفسیر کی ہے ،جوخدا کے تمام وعدوں،قیامت و دنیا و تقسیم ارزاق اوراس جہان میں اور دوسرے جہان میں مجرموں کی سزا کے ساتھ مربوط ہیں اورمومنین صالح کی کامیابی کوشامل ہیں، اسی سورہ کی آیت ٢٢ جوکہتی ہے وَ فِی السَّماء ِ رِزْقُکُمْ وَ ما تُوعَدُونَ (تمہارارزق اور جوکچھ تم سے وعدہ کیاگیاہے آسمانوں میں ہے)ممکن ہے اسی معنی کی تائید ہو، اور چونکہ آ یت کالفظ مطلق ہے ،لہٰذا یہ عمومیت بعید نہیں ہے ۔
بہرحال ،خدا کے سب وعدے سچے ہیں، کیونکہ وعدہ کی مخالفت یاتو جہالت کے سبب سے ہوتی ہے ، یاعجزہے ، وہ جہالت جووعدہ کرنے والے کی فکر اورسو چ کوبدل کررکھ دیتی ہے ، اوروہ عجزجواُسے وعدہ کی وفاسے روک دیتاہے، لیکن خدا عالم اور قادر ہے ،لہٰذااس کے وعدے تخلف ناپذیر ہیں،یعنی پکّے ہیں ۔
١۔ "" ذاریات "" جمع ہے "" ذاریہ "" کی ،ایسی ہواؤں کے معنی میں جو چیزوں کواڑاتی ہیں ۔
٢۔ "" وقر"" (بروزم فکر) بھاری بوجھ کے کے معنی میں ہے ، نیز کانوں کے بھاری ہونے کے معنی میں آ یاہے"" وقار"" بھی سنگینی حرکات اور سکون و بربادی کے معنی میں ہے ۔
٣۔ "" جاریات"" "" جاریہ"" کی جمع ہے جوکشتی کے معنی میں ہے،جاری پانی کی نہروں کے معنی میں بھی آ یاہے "" "" فیھاعین جاریة "" (غاشیہ،١٢) اوراسی طرح سُورج کے معنی میں ، آسمان میں اس کی حرکت کی بناء پر ، اور نوجوان لڑ کی کوبھی "" جاریة "" کہاجاتاہے ،کیونکہ جوانی کوخوشی اس کے تمام وجودمیں جاری ہوتی ہے ۔
٤۔ اس کانام عبداللہ تھا، جوامیر المومنین علی علیہ السلام کے زمانہ میں رہتاتھااورآپ کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا، خود کو ان کودوست کہتاتھااور کار شکنی کرتاتھا ۔
٥۔ "" تفسیر قخر رازی "" جلد ٢٧ ،صفحہ ١٩٠۔
٦۔ اس نکتہ کی توجہ بھی ضروری ہے کہ "" والذاریات"" میں "" واؤ"" قسم کاواؤ ہے ، اور "" فا"" بعدوالے جملہ میں فاء عاطفہ ہے ،جویہاں قسم کامفہوم رکھتی ہے،لیکن اس کے باوجود ان چارقسموں میں ایک قسم کے ربط کوبیان کرتی ہے ۔
٧۔ توجہ رکھنی چاہیئے کہ "" انما"" میں"" ما"" موصولہ ہے اور"" ان"" کااسم ہے اور"" صادق"" اس کی خبرہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma