فرشتوں اور شیاطین میں سے انسان کے ہمنشین

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22

ان آیات میں پھر معاد وقیامت کے ایک اور منظر کی تصویر کشی ہوئی ہے، ایک ایسا ہلادینے والا منظر کہ انسان کاقرین رشتہ اس کے اعمال اور کرتوتوں کوکھول کررکھ دے گا، اوراس کی سزا کے لیے خدا کاحکم صادر ہوجائے گا ۔
پہلے فرماتاہے: اس کا قرین کہے گا یہ اس کااعمال نامہ ہے ،جومیرے پاس حاضر اورتیار ہے اوروہ اس کے تمام چھوٹے بڑے کاموں سے جواس نے سار ی عمر میں کیے ہیںپردہ اُٹھا دے گا، (وَ قالَ قَرینُہُ ہذا ما لَدَیَّ عَتید) ۔
اس سلسلے میں کہ یہاں قرین سے کون مراد ہے؟ مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے .لیکن اکثرنے اس بات کوقبول کیاہے کہ اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جودُنیا میںانسان کے ہمراہ تھا ،اوراس کے اعمال کوضبط کرنے پرمامور تھااوربارگاہ عدل الہٰی میں گواہی دے گا) ۔
گذ شتہ آ یات جویہ کہتی تھیں کہ جوشخص عرصئہ محشرمیں وارد ہوگا، اس کے ساتھ ایک سائق اور شہید ہوگا ، وہ بھی اس معنی پر گوا ہے ، علاوہ ازیں اس آیت اوراس کی بعد والی آیت کالب ولہجہ بھی اس معنی کے ساتھ مناسبت رکھتاہے( غور کیجئے گا) ۔
لیکن بعض نے کہاہے کہ قرین سے مراد یہاں شیطان ہے کیونکہ قرآن کی بہت سی آ یات میں یہ لفظ اس شیطان کے لیے جومجرموں کا ہمنشین ہے اطلاق ہواہے ، اس تفسیر کی بناء پر آیت کامعنی اس طرح ہوگا، اس طرح ہمنشین شیطان کہے گا میں نے اس مجرم کوجہنم کے لیے آمادہ کیاہے ، اور انتہائی کوشش جومیں کرسکتاتھا، وہ میں نے اس کام میں صرف کی ہے ۔
لیکن یہ معنی نہ صرف گذ شتہ آیات میں سے ، اوراس آیت سے جواس آیت کے بعد بلافاصلہ آ ئی ہے، مناسب نہیںہے بلکہ شیطان کاانسانوں کے گمراہ کرنے کے گناہ سے خود کوبری کہنا، جوبعد کی چند آ یات میں آ ئے گا، اس کے ساتھ بھی ساز گار نہیں ہے،کیونکہ اس تفسیرکے مطابق شیطان مجرموں کے اغوا کرنے میں اپنے ذمہ داری کااعتراف کررہاہے، جبکہ آ گے کاقرین کہے گا ، میں نے اُسے سرکشی کے لیے نہیں اُبھاراتھا، لیکن وہ خودہی دور دراز کی گمراہی میں تھا اور یہ پورے طورپر اس کے ساتھ تضاد رکھتی ہے ۔
یہاں ایک تیسر ی تفسیر بھی بیان ہوئی ہے جوسب سے زیادہ بعد نظر آتی ہے ، اورکوئی بھی قرینہ اس پر گواہی نہیں دیتا اور وہ یہ ہے کہ قرین سے مراد انسان کے دوست واحباب اورہمنشین ہیں ۔
اس کے بعد خداثبت اعمال پر مامور دوفرشتوں کومخاطب کرتے ہُوئے کہتاہے: جہنم میں ڈال دوہر متکبر خود خواہ اورہٹ دھرم کافر کو(أَلْقِیا فی جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنیدٍ ) ۔
عنید عناد کے مادہ سے تکبر، خودپسندی اورحق کو تسلیم نہ کرنے کے معنی میں ہے ۔
اس بارے میں یہ دوافراد جواس گفتگو کے مخاطب ہیں کون ہیں ، پھر طرح طرح کی تفسیریں بیان کی گئی ہیں، ایک گروہ نے اوپر والی تفسیر کوانتخاب کیاہے، جبکہ بعض نے خا زنانِ جہنم ( وہ دو نفر جوجہنم پر مامورہیں) کومخاطب سمجھاہے ۔
بعض نے یہ بھی کہاہے کہ ہوسکتاہے مخاطب صرف ایک ہی شخص ہو، وہی شہید وگواہ جومجرم کے ہمراہ عرصۂ محشر میںوارد ہوگا ، اور جس کی طرف گذشتہ آ یات میں اشارہ ہواہے ، اور فعل کوتاکید کے لیے تثنیہ لایاگیاہے، گویا دومرتبہ تکرار کرتاہے، الق الق پھینک دے پھینک دے ...اور مخاطب واحد کے لیے تثنیہ کااستعمال عربی زبان میں موجود ہے ،لیکن یہ تفسیر بہت ہی بعید نظر آ تی ہے، اورپہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب ہے ۔
بعد والی آیت میں ان کفار عنید کی چند قبیح اورمذ موم صفات کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہتاہے: وہ شخص شدت کے ساتھ خیر سے مانع ہے، متجاوز ہے اور شک وتردید میں گرفتار رہے ، بلکہ دوسروں کوبھی شک میں ڈالتاہے (مَنَّاعٍ لِلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُریبٍ) ۔
منّاع چونکہ مبالغہ کاصیغہ ہے،لہٰذا اس شخص پر بولا جاتاہے جوکسی چیز سے بہت زیادہ منع کرے ،اس بناء پرمنّاع اللخیر وہ شخص ہے جوہرصورت میں ہر کار ِ خیر کامخالف ہو ۔
بعض روایات میں آ یاہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہکے بارے میں نازل ہوئی ،کیونکہ وہ اپنے بھتیجوںسے کہتاتھا، جوشخص تم میں سے اسلام قبول کر ے گا تومیں جب تک زندہ ہوں اور اس کی مدد نہیں کروں گا ( ١) ۔
معتد متجاوز کے معنی میں ہے ،چاہے وہ دوسرے لوگوں کے حقوق میں متجاوز ہو ، یا احکام الہٰی کی حدود سے تجاوز کرے ۔
مریب ریب کے مادہ سے اس شخص کے معنی میں ہے، جوشک میں پڑا ہوا ہو، ایساشک ہو بد بینی کے ساتھ ہو، یا جودوسروں کوانپی گفتار وعمل کے ساتھ شک میںڈالتاہے ،اوران کی گمراہی کاباعث بنتاہے ۔
اس گروہ عنید کے اوصاف کوجاری رکھتے ہُوئے بعد والی آیت میں پھر مزید کہتاہے : وہی شخص جس نے خداکے ساتھ دوسرامعبود قرار دیاہے ، اوراس نے شرک اور دوگانگی کی راہ اختیار کرلی ہے (الَّذی جَعَلَ مَعَ اللَّہِ اِلہاً آخَرَ ) ۔
ہاں اس قسم کے شخص کوعذاب شدید میں ڈال دو (فَأَلْقِیاہُ فِی الْعَذابِ الشَّدید) ۔
ان چند آ یات میں اس دوزخی گروہ کی چھ صفات بیان ہوئی ہیں ،جن میں سے پانچ پہلی حقیقت میں ایک دوسرے کی علّت ومعلول ہیں اور چھٹی ان تمام اوصاف کی اصل جڑ کی توضیح ہے ،کیونکہ :
کفار اس شخص کے معنی میں ہے جوکُفر میں بہت زیادہ اصرار کرتاہے ۔
اور یہ عناد پر منتہی ہوتاہے ۔
شخص معاند بھی منع خیرات پراصرار کرتاہے اور اس قسم کاآدمی طبعاً وفطرتاً دوسروں کے حقوق اور حدودالہٰی پرتجاوز کرتاہے، افراد متجاوزیہ اصرار کرتے ہیں کہ دوسروں کوبھی شک میں ڈال دیں اوراُن سے ایمان کوسلب کرلیں ۔
اس طرح سے پانچوں صفتیں کفار و عنید و مناللخیر و معتد اور مریب ایک دوسرے کے ساتھ نہ ٹوٹنے والا رشتہ رکھتی ہیں ،گویا ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں( ٢) ۔
چھٹی صفت یعنی الَّذی جَعَلَ مَعَ اللَّہِ ِلہاً آخَر میں ان تمام انحرافات کی اصلی جڑ بنیاد جوشرک ہے بیان ہوئی ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ واضح ہوجاتاہے کہ شرک ان تمام بدبختیوکاعامل ہے ۔
بعد والی آیت اس کافرہٹ دھرم گروہ کی سرنوشت کے ایک دوسرے ماجرے سے پردہ اٹھاتی ہے، اور وہ قیامت میں ان کاشیطان کے ساتھ مخاصمہ ، جھگڑا اور بحث ہے ،وہ تواپنے تمام گناہ اغو ا کرنے والے شیطانوں کی گردن میںڈالتے ہیں، لیکن اس کاقرین شیطان کہے گا: پروردگار ا !میں نے اسے طغیان اور سرکشی کے لیے آمادہ نہیں کیاتھا ،اوراسے جبراً اس راستہ پر نہیں لایاتھا، اس نے خود ہی اپنے میل وارادہ سے اس راستہ کواختیار کیاہے ، اور وہی دُور دراز کی گمراہی میں تھا (قالَ قَرینُہُ رَبَّنا ما أَطْغَیْتُہُ وَ لکِنْ کانَ فی ضَلالٍ بَعیدٍ ) ۔
یہ تعبیر اسی چیز کے مشابہ ہے جوسُورہ ابراہیم کی آ یہ ٢٢ میں آ ئی ہے ،کہ شیطان اپنی برأت کے لیے کہے گا:(وَ ما کانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِنْ سُلْطانٍ ِلاَّ أَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لی فَلا تَلُومُونی وَ لُومُوا أَنْفُسَکُمْ ) میرا تم پرکسی قسم کاکوئی تسلط نہیں تھاسوائے اس کے کہ میں نے تمہیںدعوت دی تو تم نے اُسے قبول کرلیا، اس بناء پر مجھے سرزنش نہ کرو، بلکہ اپنے آپ کوسرزنش کرو۔
البتہ شیطان یہ نہیں چاہتا کہ انسان کے اغوا ء کرنے میں اپنے نقش واثر کاکلی طورپر انکار کر دے، بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس بات کوثابت کرے کہ اس میں کوئی جبر و اکراہ نہیں تھا، اورانسان نے اپنے میل و رغبت سے اس کے وسوسوں کوقبول کیاہے ، اس بناء پر لَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعینَ میں ان تمام کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا (ص۔٨٢) والی آیت کے ساتھ کوئی تضاد نہیں ہے ۔
اگرچہ ان آ یات میں صرف شیطان کے دفاع کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اورشیطان پرکفار کے اعتراض کے بارے میں کوئی گفتگو نظر نہیں آ تی ، لیکن قرآن کی باقی آ یات اور بعد والی آیت کے قرینہ سے طرفین کی گفتگو اجمالی طورپر واضح ہو جاتی ہے کہ وہ قیامت میں ایک دوسرے کے ساتھ کھینچا تانی اوربحث مباحثہ کریں گے ،کیونکہ بعد والی آیت میں آ یاہے : خدا فرماتاہے : میرے پاس جدال ومخاصمت نہ کرو ،میں نے پہلے سے تم پراتمامِ حجت کردیاہے اور تمہیں اس منحوس سرنوشت سے باخبر کردیاہے (قالَ لا تَخْتَصِمُوا لَدَیَّ وَ قَدْ قَدَّمْتُ ِلَیْکُمْ بِالْوَعیدِ)(٣) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک طرف تومیں نے شیطان سے کہاہے قالَ اذْہَبْ فَمَنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ فَِنَّ جَہَنَّمَ جَزاؤُکُمْ جَزاء ً مَوْفُوراً جا! ان میں سے جوکوئی بھی تیری اتباع کرے گا، تو تم سب کی وافر سزاجہنم ہے ( اسراء ۔ ٦٣) ۔
اور دوسری طرف سے انسانوں کوبھی خبردار کردیاہے :لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکَ وَ مِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ أَجْمَعین یقینا میں جہنم کوتجھ سے اور تیرے پیرو کاروںسے پُر کردوں گا (ص۔٨٥) ۔
یہ تہدید یںاور وعیدیں قرآن کی دوسری آ یات میں بھی آ ئی ہیں اور وہ سب اس بات کی ترجمانی کرتی ہیں کہ خدانے انسانوں پر بھی اور شیاطین پر بھی اتمام ِ حجت کردیاتھا، اورانہیں گمراہ کرنے اور گمراہ ہونے سے ڈ رایاتھا ۔
اس کے بعد اور زیادہ تاکید کے لیے مزید کہتاہے،:میری بات تغیر ناپذیر ہے ،اور میرے کسی کلام میں تبدیلی نہیں ہوتی ، اوراس میں ہرگز اپنے بندوں پرظلم نہیں کروں گا (ما یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَ ما أَنَا بِظَلاَّمٍ لِلْعَبیدِ) ۔
یہاں قول سے مراد وہی تہدیدیں اور وعیدیںہیں، جن کی طرف خدا نے مختلف آ یات میں اشارہ کیاہے ، اوران کے کچھ نمونے ہم نے اُوپر پیش کیے ہیں ۔
ظلام کی تعبیر صیغہ مبالغہ کی شکل میں (بہت ظلم کرنے والا)جبکہ خدا معمولی سے معمولی ظلم بھی نہیں کرتا، ممکن ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوکہ خدا کامقام علم و قدرت وعدل اس قسم کاہے کہ اگروہ کوئی چھوٹاساظلم بھی کسی پر کرے تو وہ بہت بڑااور زیادہ ہوگا، اور ظلم کامصداق ہوگا، اسی بناء پر وہ ہر قسم کے ظلم سے دُور ہے ۔
یاافراد ومصادیق کی طرف ناظر ہے ،کیونکہ اگروہ کسی بندے پر کوئی چھوٹا ساظلم بھی کرے تواس کے مشابہ افراد بہت ہیں اورمجموعی طورپر بہت ساظلم ہوجائے گا ۔
بہرحال یہ تعبیر بندوں کے اختیار اورارادے کی آ زادی کی دلیل ہے، نہ تو شیطان مجبُور ہے کہ شیطنت کرے اور نہ ہی کفّار مجبورہیں کہ راہ کفر و عناد اور راہ شیطان کواختیار کریں، اور نہ ہی کسی شخص کے لیے اس کے قصد واراد ہ سے با ہر قطعی سرنوشت مقرر ہوئی ہے ۔
یہاں یہ سوال سامنے آ تاہے ،کہ وہ یہ کیسے فرماتاہے: میر ی بات تغیرناپذیر ہے ،جبکہ بعض لوگ اس کے عفوودرگزر بخشش کے مشمول ہوتے ہیں؟
اس کاجواب یہ ہے، کہ عفو وبخشش بھی حساب شدہ پروگرام کے مطابق ہی ہوتی ہے، اوراس بات کی فرع ہے کہ انسان نے کوئی ایساکام انجام دیاہو، جس سے وہ مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ عفو وبخشش کی قابلیّت اور شائستگی بھی رکھتاہواوریہ بات خودکی سنتوںمیں سے ایک سنت ہے، کہ وہ لوگ جوعفو وبخشش کے لائق ہیںانہیں اپنی عفو کامشمول قراردے اور یہ بات بھی تغیرپذیر ہے ۔
آخری زیربحث آیت میں حوادث قیامت کے ایک مختصر اور ہلا دینے والے حِصّہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے:اس وقت کویاد کرو جب ہم جہنم سے کہیں گے ،:کیا تو پُر ہوگئی ؟اور وہ جواب میں کہے گی : کیا اس سے زیادہ بھی کچھ موجود ہے (یَوْمَ نَقُولُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَأْتِ وَ تَقُولُ ہَلْ مِنْ مَزیدٍ )( ٤) ۔
اس سلسلے میں کہ ھل من مزید سے کیامراد ہے ؟ دوتفاسیر کی گئی ہیں ، پہلی یہ کہ یہ استفہام انکاری ہے ،یعنی جہنم کہے گی : اس سے زیادہ کاامکان نہیں ہے، تواس طرح سے یہ سُورہ سجدہ کی آیت ١٣ کے ساتھ جو یہ کہتی ہے: لاملئن جہنم من الجنّة والنّاس اجمعین :میں قسم کھاکرکہتاہوں کہ دوزخ کوجنوںاورانسانوں سے پُر کردوںگا کامل طور سے ہم آہنگ ہے ،اور اس معنی پر ایک تاکید ہے کہ اس دن تہدیدالہٰی کامل طورسے پوری ہوجائے گی اوردوزخ کافروںاور مجرموں سے بھرجائے گی ۔
دوسرا یہ کہ اس جملہ سے مراد اور زیادہ کی طلب ہے ، یعنی کیا اورافرا د بھی ایسے ہوں گے ،جودوزخ میں أ ئیں گے ؟اوراصولی طورپر ہرچیز کی فطرت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی ہم جنس کی تلاش میں رہتی ہے اور کبھی سیر نہیںہو تی، نہ بہشت نیکو کاروں سے اور نہ ہی دوزخ بد کاروں سے ۔
لیکن یہ سوال باقی رہ جاتاہے ،کہ اس بات کامفہوم تو یہ ہے کہ دوزخ ابھی تک پُر نہیں ہوئی اور یہ چیز اوپر والی آیت (سورئہ سجدہ آ یہ ١٣ )سے جو یہ کہتی ہے : ہم دوزخ کوجنوں اورانسانوں سے پُر کردیں گے سازگار نہیںہے ۔
لیکن اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہیئے کہ زیادتی کامطالبہ پُر نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ،کیونکہ اوّلاً ممکن ہے ،کوئی ظرف مثلاً غذا سے پُر ہو، پھر بھی کوئی تمنا کرے کہ اس کے اُوپراور ڈالاجائے کہ وہ چھلکنے لگے ،ثانیاً یہ تقاضاممکن ہے دوزخیوںپرمکان کے تنگ ہونے اور زیادہ درد ناک عذاب کے تقاضا کے معنی میں ہو، یاوسعت پانے اوراس کے بعد بہت سے افراد کواپنے قبول کرنے کی تمنا مراد ہو ۔
بہرحال یہ آیت اچھی طرح سے اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دوزخی بہت زیادہ ہیں اور دوزخ ایک ہولناک اور وحشتناک منظر رکھتی ہے اورخدا کی تہدید واقعی اوریقینی ہے ،اور ایسی ہے کہ اس کے بارے میں غووفکر کرنا ہر انسان کولرزہ براندام کردیتاہے، اوراس کوخبر دار کرتاہے کہ کہیںایسانہ ہو کہ اُن افراد میںسے ایک توہو، اور یہی فکر اُسے چھوٹے بڑے گناہوں سے کنڑول کرسکتی ہے ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ دوزخ جس میں کچھ بھی شعور نہیں ہے، کیسے اس سے خطاب کیاجاتاہے، اوروہ جواب دیتی ہے؟
اس سوال کے تین جواب ہیں ۔
پہلایہ کہ یہ ایک قسم کی تشبیہ اور زبان حال کابیان ہے، یعنی خدا تکوینی زبان میں جہنم سے سوال کرے گا، اور وہ بھی زبان حال سے جواب دے گی اوراس تعبیر کی نظیر مختلف زبانوں میں افراواںہے ۔
دوسرایہ کہ آخرت کاگھر حیات و زند گی واقعی کاگھر ہے،یہاں تک کہ بہشت اورجہنم جیسی موجو دات بھی ایک قسم کی حیات اور ادراک وشعور رکھتی ہوں گی ،بہشت شدت سے مؤ منین کی مشتاق ہوگی اور دوزخ شدت کے ساتھ مجرموں کے انتظار میں ہوگی ۔
وہ مقام جہاں انسان کے بدن کے اعضاء کلام اور گفتگو کرنے لگیں ، اور شہادت اور گواہی دیں گے وہاں کوئی تعجّب کی بات نہیں ہے کہ بہشت و دوزخ اس طرح ہوں ۔
بلکہ بعض کے نظر یہ کے مطابق اس دُنیا کے تمام ذرات بھی ایک قسم کا ادراک و شعور رکھتے ہیں، اسی لیے وہ خدا کی حمد وتسبیح کرتے ہیں اوران کی یہ تسبیح وحمد قرآن کی مختلف آیات میں بیان ہوئی ہے( ٥) ۔
دوسرا یہ کہ مخاطب دوزخ پرمامور اوراس کے خازن ہیں اور وہی ہیں جوجواب دیں گے ۔
یہ سب تفسیر یں قابل قبول ہیں اگر چہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آ تی ہے۔
١۔ "" رُوح المعانی "" جلد ٢٦،صفحہ ١٦٨۔
٢۔"" المیزان "" جلد ٨،صفحہ ٣٨١۔
٣۔"" لدی"" "" بیدل"" سے متعلق ہے بعض نے یہ احتمال بھی دیاہے کہ قول سے متعلق ہوناچاہیئے لیکن پہلا معنی زیادہ مناسب ہے ۔
٤۔اس بارے میں کہ یہاں "" یوم "" کس سے متعلق ہے ؟ تین نظر یئے پائے جاتے ہیں، پہلا یہ کہ "" اذ کروا""محذوف سے متعلق ہے اس کامخاطب تمام انسان ہیں ، دوسرا یہ کہ "" بیدل "" سے متعلق ہے اور تیسرا یہ کہ "" ظلام "" سے متعلق ہے جو اس سے پہلے والی آیت میں آ یا ہے لیکن پہلااحتمال زیادہ مناسب نظر آ تاہے ۔
٥۔ تفسیر نمونہ جلد ٦...(سورہ اسراء کی آیت ٤٤ کے ذیل میں رجوع کریں) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma