اگرحدیبیہ میں جنگ ہوجاتی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22
یہ آ یات اسی طرح سے حدیبیہ کے عظیم ماجرے کے کُچھ دوسرے پہلوئوں کوبیان کررہی ہیں، اوراِس سلسلہ میں دواہم نکتوں کی طرف اشارہ کررہی ہیں ۔
پہلا یہ کہ خیال نہ کرو سرزمین حدیبیہ میں تمہارے اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ چھڑ جاتی تومشرکین جنگ میں بازی لے جاتے ، ایسانہیں ہے ، اکثر کفار تمہارے ساتھ وہاں جنگ کرتے تو بہت جلدپیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ،اور پھر کوئی دلی و یاور نہ پاتے (وَ لَوْ قاتَلَکُمُ الَّذینَ کَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبارَ ثُمَّ لا یَجِدُونَ وَلِیًّا وَ لا نَصیرا) ۔
اور یہ بات صرف تم تک ہی منحصرنہیں ہے ، توا یک سُنت الہٰی ہے ، جو پہلے بھی یہی تھی اور تم سنت الہٰی میں ہرگز تغیر و تبدیلی نہ پائو گے (سُنَّةَ اللَّہِ الَّتی قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّہِ تَبْدیلاً ) ۔
یہ خدا کاایک دائمی قانون ہے کہ اگر مومنین جہاد کے معاملہ میں کمز وری اور سُستی نہ دکھائیں اورپاکیز ہ دل اورخالص نیت کے ساتھ دشمنوں سے جنگ کرنے کے لیے کھڑے ہوجائیں ،توخدا انہیں کامیابی عطاکرتاہے ، یہ ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات اس امر میںامتحان کے طورپر یادوسرے مقاصد کے ماتحت دیر یاجلدی ہوجائے ،لیکن آخری کامیابی یقیناانہیں کے لیے ہوگی ۔
لیکن ایسے مواقع پرجیساکہ میدان احد ہوا کہ ایک گروہ نے پیغمبرخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے حکم سے سرتابی کی ، اورایک گروہ نے اپنی نیات کوعشق دُنیا سے آلود ہ کیا ، اورغنائم جمع کرنے میں لگ گئے ، انجام کارانہیںایک تلخ شکست کاسامنا کرناپڑا ، اور بعد میں بھی معاملہ ایساہی ہے ۔
وہ اہم نکتہ جو یہ آ یات خاص طورپر بیان کررہی ہیںیہ ہے کہ کہیں قریش بیٹھ کر یہ نہ کہنے لگیں، کہ افسوس ہم نے جنگ کیوں نہ کی اوراس چھوٹے سے گروہ کی سرکوبی کیوں نہ کی ، افسوس کہ شکار ہمارے گھر میں آیا، اور اس سے ہم نے غفلت برتی ، افسوس ، افسوس۔
ہرگز ایسانہیں ہے کہ اگرچہ مسلمان ان کی نسبت تھوڑے تھے ،اوروطن اورامن کی جگہ سے بھی دُور تھے ،اسلحہ بھی ان کے پاس کافی مقدار میں نہیں تھا ،لیکن اس کے باوجود اگرجنگ چھڑ جاتی توپھر بھی قوت ایمانی اورنصرت الہٰی کی برکت سے کامیابی انہیں ہی حاصل ہوتی ، کیاجنگ بدر اور احزابمیں ان کی تعداد و بہت کم اوردشمن کاساز وسامان اورلشکر زیادہ نہ تھا ؟ان دونوں مواقع پردشمن کوکیسے شکست ہوگئی ۔
بہرحال اس حقیقت کابیان مومنین کے دل کی تقویت اوردشمن کے دل کی کمزوری اورمنافقین کے اگر اور مگر کے ختم ہونے کاسبب بن گئی اوراس نے اس بات کی نشاندہی کردی کہ ظاہری طورپر حالات کے برابر نہ ہو نے کے باوجود اگرجنگ چھڑ جائے تو کا میابی مُخلص ہی کونصیب ہوتی ہے ۔
دوسرا نکتہ جوان آ یات میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ فرماتاہے وہی تو ہے جس نے کفّار کے ہاتھ کومکّہ میں تم سے باز رکھّا اورتمہارے ہاتھ کواُن سے ،یہ اس وقت ہوا جبکہ تمہیں ان پر کامیابی حاصل ہوگئی تھی ، اور خداوہ سب کچھ جو تم انجام دے رہے ہو دیکھ رہاہے :(وَ ہُوَ الَّذی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَ أَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ وَ کانَ اللَّہُ بِما تَعْمَلُونَ بَصیراً) ۔
واقعاً یہ ماجرا فتح المبین کاواضح مصداق تھا ، وہی تعریف جوقرآن نے اس کے لیے انتخاب کی تھی ، ایک محدُود جمیّعت ،کافی جنگی سازوسامان کے بغیر دشمن کی سر زمین میں داخل ہوجائے ،ایسادشمن جس نے کئی بار مدینہ پر لشکر کشی کی تھی اورانہیں درہم برہم کرنے کے لیے ایک عجیب کوشش میں لگاہواتھا ، لیکن اب جبکہ اس نے ان کے شہر و دیار میں قدم رکھ دیاہے ،تواس طرح سے مرعوب ہوا کہ صلح کی پیش نہاد کرتاہے ،اس سے بڑھ کر اور کامیابی کیاہوگی کہ بغیر اس کے کہ کسی کی نکسیر پھوٹے ، دشمن پر اس قسم کی برتری حاصل ہوجائے ؟!
اس میں شک نہیں کہ صلح حدیبیہ کاماجرا پورے جزیرہ عرب میں قریش کی شکست اورمسلمانوں کی فتح شمار ہوتاتھا ، اوروہ اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ دشمن سے اس کارعب و دبدبہ ختم کردیں ۔
مفسرین کی ایک جماعت نے اس آ یت کے لیئے ایک شان نزول بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ :
مشرکین مکّہ نے حدیبیہ کے واقعہ میں چالیس افراد کومسلمانوں پرضرب لگانے کے لیے مخفی طورپر حملہ کے لیے تیار کیا ،لیکن ان کی یہ سازش مُسلمانوں کی ہوشیاری سے نقش برآپ ہوگئی ، اور مُسلمان ان سب کوگرفتار کرکے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی خدمت میں لے آ ئے ، اورپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے انہیں رہاکردیا ۔
بعض نے ان کی تعداد ٨٠ ، افراد لکھی ہے ،جوتنعیم پہاڑ سے صبح کی نماز کے وقت تاریکی سے فائدہ اُٹھاتے ہُوئے یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں پرحملہ کریں ۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ جس وقت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درخت کے سائیے میں بیٹھے ہُوئے تھے .تاکہ قریش کے نمائندہ کے ساتھ صلح کے معاہدہ کو ترتیب دیں ، اورعلی علیہ السلام لکھنے میںمصروف تھے ، تو جوانانِ مکّہ میں سے ٣٠ افراد اسلحہ کے ساتھ آپ پرحملہ آور ہُوئے ، اورمعجزانہ طورپر ان کی یہ سازش بے کار ہوگئی اوروہ سب کے سب گرفتار ہوگئے اورحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے انہیں آزاد کردیا ) ( ١) ۔
اس شان نزول ک مطابق من بعد ان اظفر کم علیھم کاجُملہ اس گروہ پر کامیابی کی طرف اشارہ ہے ،جبکہ سابقہ تفسیر کے مطابق کل لشکر اسلام کی کلی مشرکین پر کامیابی مراد ہے اور یہ آ یت کے معانی کے ساتھ زیادہ سازگار ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مکّہ کے اندر نہ لڑنے پریکیہ کرتاہے ، یہ تعبیر ممکن ہے ، دونکتوں کی طرف اشارہ ہو:پہلا یہ کہ : مکّہدشمن کی قدرت کامرکزتھا ،اورقائد ے کے مطابق انہیں اس مناسب موقع سے فائدہ اٹھا ناچاہیئے تھا اورمسلمانوں پرحملہ کردینا چا ہیئے تھا، اوراصطلاع کے مطابق وہ تومسلمانوں کوآسمان میں ڈھونڈ رہے تھے ،جبکہ انہوںنے انہیں اپنی ہی زمین میں پالیاتھا ،توانہیں آسانی کے ساتھ چھوڑ نانہیں چاہیئے تھا ،لیکن خدانے ان کی قدرت چھین لی ۔
دوسرایہ کہ مکّہ امن کا حرم تھا ، اگراس میںجنگ اورخون ریزی واقع ہوجاتی توایک طرف توحرم کااحترام محذوش ہوجاتا دوسری طرف مسلمانوں کے لیے عیب وعار کی بات تھی کہ انہوں نے اس مقدس سرزمین کے سنتی امن کو درہم برہم کردیا، لہٰذا پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پرخدا کی ایک عظیم نعمت یہ تھی کہ اس ماجر ے کے دوسال بعد فتح ہوگیااورہوا بھی کسی خون ریزی کے بغیر ۔
آخری زیربحث آ یت میں صلح حدیبیہ کے مسئلہ اوراس فلسفہ سے مربوط ایک دوسرے نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے فرماتاہے ۔
وہ ( تمہارے دشمن )ایسے لوگ ہیں جو کافر ہوگئے ہیں اورانہوںنے تمہیں مسجد حرام کی زیارت سے روک دیاہے، اور تمہاری قربانیوں کی قر بان گاہ کے مقام تک پہنچنے میں مانع ہُوئے ہیں : (ہُمُ الَّذینَ کَفَرُوا وَ صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ وَ الْہَدْیَ مَعْکُوفاً أَنْ یَبْلُغَ مَحِلَّہ)(٢) ۔
ان کا ایک گناہ توان کاکُفر تھا اوردوسراگناہ یہ کہ تمہیں انہوںنے مراسم عمرہ اورطواف خانہ خداسے روک دیا، اورتمہیں قربانی کے اونٹوں کوان کے محل یعنی مکہ میں قربانی کی جازت نہ دی ، (محل قربانی عمرہ کے لیے مکّہ میں اور حج کے لیے سرزمین معنی ) حالانکہ خانۂ خدا کوتمام اہل ایمان کے لیے آزاد ہوناچاہیئے اوراس سے روکنا بہت ہی بڑا گناہ ہے ،جیساکہ قرآن ایک دوسری جگہ پرکہتاہے (وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّہِ أَنْ یُذْکَرَ فیہَا اسْمُہُ ) اس سے بڑھ کرظالم اورکون ہوگا جولوگوں کوخدا کی مساجد میں خدا کانام لینے سے باز رکھے ! (بقرہ . ١١٤) ۔
ان گناہوں کاتقاضا یہ تھا کہ خدا انہیں تمہارے ہاتھ سے سزادیتا اورسخت عذاب کرتا ۔
لیکن ایسا کیونہ کیا ؟ آ یت کے متن نے اس کی دلیل کوواضح کردیاہے فرماتاہے : اگر یہ وجہ نہ ہوتی کہ صاحب ایمان مر داورعورتیں اسی دوران میں تمہاری لاعلمی اور بے خبری میں تمہارے رگڑے میںآ کر ہلاک ہوجاتے ، اوراس طریقہ سے بغیر اطلاع کے عیب وعار تمہارے دامن گیر ہوجاتا ،توخدا وند عالم ہرگزا س جنگ سے مانع نہ ہوتا ، اور تمہیں ان پر مسلط کردیتا تاکہ وہ اپنے اکیفرِ کردار کوپہنچ جائیں (وَ لَوْ لا رِجال مُؤْمِنُونَ وَ نِساء مُؤْمِنات لَمْ تَعْلَمُوہُمْ أَنْ تَطَؤُہُمْ فَتُصیبَکُمْ مِنْہُمْ مَعَرَّة بِغَیْرِ عِلْم)(٣) ۔
یہ آ یت مسلمان مردوں اورعورتوں کے اس گر وہ کی طرف اشارہ ہے ،جواسلام تولے آ یاتھا ،لیکن کئی ایک علل واسباب کی بناء پروہ ہجرت کرنے پر قادر ہُوئے تھے ، اورمکہ ہی میں رہ گئے تھے ۔
اگرمسلمان مکّہ پرحملہ کرتے تومسلمانوں کے اس کمزور گروہ کی جان مکّہ میں خطرے میںپڑ جاتی اور مشرکین کی زبان کُھل جاتی جاتی اوروہ یہ کہتے کہ لشکر اسلام نہ اپنے مخالفین پررحم کرتاہے اور نہ ہی اپنے پیرو کاروں اور موا فقت کرنے والوں پر، اور یہ ایک بہت بڑاعیب اور عار ہونا ۔
بعض نے یہ بھی کہاہے کہ اس عیب سے مراد کفّارہ اورقتل خطاء کی دیت کاواجب و لازم ہوتاہے ، لیکن پہلامعنی زیادہ مناسب نظر آ تاہے ۔
معرة عر (بروزن شر) کے مادہ سے اور عر ( بروزن حر ) اصل میں کھجلی اورخارش کی بیماری کے معنی میں ہے جوایک قسم کاجلد کاشدید عارضہ ہے ،جوانسان یاحوانات کوعارض ہوتاہے اس کے بعد اس کووسعت دے دی گئی ، اورہرقسم کے زیان وضرر پر، جوانسان کوپہنچتا ہے ،اس کااطلاق ہواہے ۔
اس کے بعد اس بات کی تکمیل کے لیے مزید کہتاہے ، مقصد یہ تھا کہ خدا جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے ( لِیُدْخِلَ اللَّہُ فی رَحْمَتِہِ مَنْ یَشاء ُ) ۔
ہاں ! خداچاہتا تھا کہ مکہ کے کمز ور و ناتواں مومنین کواپنی رحمت کامشمول کرے اورانہیں کوئی صدمہ نہ پہنچے ۔
یہ احتمال بھی دیاگیاہے ، کہ صلح حدیبیہ سے ایک مقصد یہ تھاکہ مشرکین کاایک گروہ جوہدایت کے قابل تھا ان کی ہدایت ہوجائے اوروہ رحمت خدامیں داخل ہوجائے ۔
من یشاء (جسے چاہے ) کی تعبیر ان لوگوں کے معنی میں ہے جوشائستگی اورلیاقت رکھتے ہیں ، کیونکہ مشیت الہٰی کاسرچشمہ ہمیشہ اس کی حکمت ہوتی ہے ، اورحکیم بغیر دلیل کے ارادہ نہیں کرتا، اوربغیر حساب کے کوئی کام انجام نہیں دیتا۔
اور آ یت کے آخر میں مزید تا کید کے لیے فر ماتاہے اگر مومنین کی صفیں مکّہ میں کفارسے جداہو جاتیں ،اور مکّہ کے مومنین کے ختم ہوجانے کا خوف نہ ہوتا ، تو ہم کفّار کو درد ناک عذاب کی سزا دیتے اورانہیں تمہارے ہاتھ سے سخت سزادیتے (لَوْ تَزَیَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذینَ کَفَرُوا مِنْہُمْ عَذاباً أَلیماً) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ خدا معجزانہ طورپر اس گروہ کو دوسروں سے جدا کرسکتاتھا، لیکن پروردگار کی سُنّت ،استثنائی موقعوں کے سوا کاموں کو عادی اسباب سے انجام دیناہے ۔
نز یّلوا زوال کے مادہ سے یہاں جُدا اورمتفرقہ ہونے کے معنی میں ہے ۔
متعددروایات سے جوشیعہ اوراہل سنّت کے طرق سے اس آ یت کے ذیل میں نقل ہوئی ہیں، معلوم ہوتاہے کہ اس سے مراد وہ صاحب ایمان افراد تھے جوکفّار کی صلب میں موجود تھے ،خدانے ان کی وجہ سے کفّار کو عذاب نہیں کیا۔
منجملہ ایک حدیث میں امام صادق علیہ اسلام سے منقول ہے ۔
کسی نے امام علیہ السلام سے سوال کیا ، کیاعلی علیہ السلام دین خدا میں قوی اوربا قدرت نہ تھے ، امام علی علیہ السلام نے فرمایا : ہاں قوی تھے ،اس نے عرض کیا :تو پھران ( بے ایمان اورمنافق ) اقوام پرمسلط ہوجانے کے باوجود انہیں نابود کیوں نہ کیا؟ اس میں کون سی چیز مانع تھی ؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: قرآن مجید کی ایک آ یت !
اس نے سوال کیا، کونسی آیت ؟
آپ علیہ السلام نے فر مایایہ آ یت جس میں خدا فرماتاہے :
لَوْ تَزَیَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذینَ کَفَرُوا مِنْہُمْ عَذاباً أَلیماً ۔
اگر وہ جدا ہوجاتے توہم کافروں کودرد ناک عذاب کرتے ۔
پھر آپ علیہ السلام نے مزید فرمایا:
انہ کان اللہ عزّو جل ودائع مؤ منون فی اصلاب قوم کافرین ومنافقین ،ولم یکن علی (علیہ السلام ) لیقتل الاباء حتی تخرج الود دانع ! ... وکذ الک قائمنا اھل البیت لن یظھر ابداحق تظھرو دائع اللہ عزّ و جل! ۔
خداکی کُچھ ایمان والی امانتیں کفار اورمنافقین کے صلبوں میں تھیں ، اور علی علیہ السلام ان آ باء قتل نہیں کرتے تھے جب تک کہ یہ امانتیں ظاہر نہ ہولیں ... اوراسی طرح ہم اہل بیت کے قائم ظاہر نہیں ہوں گے جب تک کہ یہ امانتیں ظاہر نہ ہوجائیں ( ٤) ۔
یعنی خداجانتا ہے کہ ان کی اولاد میں سے ایک گروہ اپنے اراد ہ واختیار سے ایمان قبول کرے گا اورانہیں کی وجہ سے ان کے باپ دادا کوجلد ی کے عذاب سے معاف کیے ہُوئے ہے ۔
اس معنی کو قرطبی نے ایک دوسری عبارت کے ساتھ اپنی تفسیر میں بیان کیاہے ۔
اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ اوپر والی آ یت مومنین مکّہ کے کفار سے اختلاط کے معنی میں بھی ہو اوران مومنین کے بارے میں بھی ہو جوان کی صلب میں موجود تھے ۔
١۔"" مجمع البیان "" جلد ٩،صفحہ ١٢٣ .اس شان ِ نزول کوتھوڑ ے سے فرق کے ساتھ "" قرطبی "" ابو الفتوح رازی """" آلوسی "" نے ""رُوح المعانی "" میں شیخ طوسی "" نے "" تبیان "" میں "" مراغی "" اور دوسروں نے بھی نقل کیاہے ۔
٢۔ "" معکوفا"" "" عکوف"" کے مادہ سے چلنے س منع کرنے اورایک محل میں رہنے کے معنی میں ہے ۔
٣۔ "" لو لا"" کاجواب اوپروالے جُملہ میںمحذوف ہے ، اور تقدیر میں اس طرح تھا : لمّا کف ایدیکم عنھم . یا. لوطئتم ر قاب المشرکین بنصر ناایاکم : ہماری نصرت سے تم مشرکین کی گر دنیں مروڑد یتے ۔
٤۔ تفسیر نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ٧٠ دیگر متعدد روایات بھی ۔

٢٦۔ِذْ جَعَلَ الَّذینَ کَفَرُوا فی قُلُوبِہِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجاہِلِیَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکینَتَہُ عَلی رَسُولِہِ وَ عَلَی الْمُؤْمِنینَ وَ أَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوی وَ کانُوا أَحَقَّ بِہا وَ أَہْلَہا وَ کانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلیماً ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma