ہٹ دھرم منکرین اپنے کام میں سرگردان ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22
یہاں پر ہمیں اس سُورہ کی ابتداء میں پھر بعض حروف مقطعہ کاسامناہے اور حرف ق ہے، اور... جیساکہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں، حروف مقطعہ کی ایک قابل توجہ تفسیر یہ ہے ...
کہ قرآن اپنی عظمت کے باوجود الف با جیسے ایک عام مادہ سے بناہے ، اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتاہے، کہ قرآن مجید کاایجاد کرنے والا اورنازل کرنے والابے انتہاعلم وقدرت کامالک ہے، جس نے ان عام اور سادہ آلات سے اس قسم کی اعلیٰ ترکیب تخلیق کی ہے ۔
البتہ حروفِ مقطعات کے لیے اور دوسری تفسیر یں بھی ہیں، جن کاآپ سُورئہ بقرہ، آل عمران، عراف، اورحٰم کے سوروں کی ابتداء میں مطالعہ کرسکتے ہیں ۔
بعض مفسرین نے ق کوخدا کے بعض اسماء کی طرف اشارہ سمجھاہے ( جیسے قادرو قیوم) ۔
بہت سی تفسیروں میں یہ بھی بیان ہواہے، کہ ق ایک بہت بڑے پہاڑ کانام ہے ، جو پورے کرّہ ارض کومحیط ہے ،اب یہ بات کہ یہ کونساپہاڑ ہے جوکرّہ زمین یاسارے جہان کااحاطہ کیے ہُوئے ہے؟ اوراس سے کیامراد ہے ؟ یہاں اس پربحث کامقام نہیں ہے، اس جگہ ہم جس چیز کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیںوہ یہ ہے کہ : یہاںق کا کوہ قاف کی طرف اشارہ بہت بعید نظر آ تاہے. کیونکہ نہ صرف یہ کہ یہ بات اس سُورہ کے مباحث کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتی ، بلکہ یہاں حرف ق ان تمام دوسرے حروف مقطعہ کی طرح ہے جو قرآن کی سُورتوں کے ابتداء میں آ ئے ہیں، علاوہ ازیں اگراس سے دمراد کرہ قاف ہوتا، تواسے ، واؤ قسم کے ساتھ ہوناچاہیئے تھا والطور وغیرہ کی طرح سے، اورایک لفظ کوذکرکرنا بغیر مبتداء وخبر کے یاواؤ قسم کے کوئی مفہوم نہیں رکھتا ۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر تمام قر آنوں کارسم الخط یہ ہے کہ ق مفرد صورت میں لکھاہواہے،حالانکہ کوہ قاف کو قاف کی صُورت میں لکھتے ہیں ۔
منجملہ ان امور کے ، جو اس کی گواہی دیتے ہیں، کہ حروف مقطعات میں سے اس حرف کاذکر ،قرآن کی عظمت کے بیان کے لیے ہے، یہ ہے کہ اس کے بعدبلا فاصلہ قرآن مجید کی قسم کھاتے ہُوئے فرماتاہے ۔
قسم ہے قرآن مجید کی (ق وَ الْقُرْآنِ الْمَجید) ۔
مجید مجد کے مادہ سے وسیع شرافت کے میں ہے ، اور چونکہ قرآن بے انتہاعظمت وشرافت رکھتاہے لہٰذا اس کے لیے لفظ مجید ہرلحاظ سے سز اوار ہے ، اس کاظاہر زیبا اورخوبُصورت ہے ،اس کے مضامین ومطالب عظیم ہیں، اس کے احکام اعلیٰ ہیں اوراس کے پروگرام تربیتی اورحیات بخش ہیں ۔
اس بارے میں کہ یہ قسم کس مقصد کے لیے ذکر ہوئی ہے اوراصطلاح کے مطابق مقسم لہ کیاہے؟ مفسرین نے بہت سے احتمالات دیئے ہیں، لیکن بعد والی آ یات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے ایسادکھائی دیتاہے کہ جوابِ قسم وہی پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نبوت یا موت کے بعد انسانوں کادوبارہ زندہ ہو کراٹھنا اور معاد کامسئلہ ہے ( ١) ۔
اس کے بعد کفارومشرکین عرب کے چند بے بنیاد اعتراضات کو بیان کرتے ہُوئے ، ان میں سے دواعتراضات کی طرف اشارہ کرتاہے ۔
پہلے کہتاہے: بلکہ انہوں نے اس بات پر تعجب کیاکہ ایک ڈرانے والاپیغمبرخود انہیں میں سے آ یاہے ، کافروں نے کہا: یہ تو ایک عجیب چیزہے(بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاء َہُمْ مُنْذِر مِنْہُمْ فَقالَ الْکافِرُونَ ہذا شَیْء عَجیب) ۔
یہ ایک ایسااعتراض ہے کہ قرآن نے بار ہا اس کی طرف اوراس کے جواب کی طرف اشارہ کیاہے، اوراس کوبار بار دھرانا، اوراس کی تکرار اس بات کی نشاندہی کرتی ہے، کہ یہ کفار کے اصل اور بنیادی اعتراضات میں سے تھا، جس کاوہ ہمیشہ تکرار کرتے تھے ۔
نہ صرف پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بلکہ تمام پیغمبروں پران کا یہی اعتراض تھا، کبھی کہتے ۔: ( انْ أَنْتُمْ ِلاَّ بَشَر مِثْلُنا تُریدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا کانَ یَعْبُدُ آباؤُنا) تم تو ہم ہی جیسے انسان ہو اور یہ چاہتے ہو کہ ہمیں اس چیز سے جس کی ہمارے آباؤ اجداد پرستش کیاکرتے تھے ،باز رکھو( ابراہیم ۔١٠) ۔
اور کبھی کہتے،: ما ہذا ِلاَّ بَشَر مِثْلُکُمْ یَأْکُلُ مِمَّا تَأْکُلُونَ مِنْہُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُون: یہ تو تمہاری طر ح ہی ایک بشر ہے ، جو تم کھاتے وہی یہ کھاتاہے، اور جو تم ہووہی یہ پیتاہے(مؤ منون۔٣٣) ۔
اور کبھی اس بات کااضافہ کرتے : لَوْ لا أُنْزِلَ ِلَیْہِ مَلَک فَیَکُونَ مَعَہُ نَذیرااس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہی نازل ہوا، تاکہ وہ اس کے ساتھ مل کر دراتا؟!(فرقان ۔٧) ۔
لیکن یہ سب حق کوتسلیم نہ کرنے کے لیے بہانے تھے ۔
قرآن زیربحث آیت میں اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں دیتا، کیونکہ وہ اس کا بار ہا جواب دے چکاہے، کہ اگر بالفرض ہم کسی فر شتے کوبھی بھیج دیتے تو اس کو بھی بشر کی صورت میں بھیجتے ، یعنی انسان کارہبرورہنماصرف انسان ہی ہوسکتاہے ، تاکہ وہ اس کے تمام دردوں،حاجتوں ،میلانوں،خواہشوں اور مسائل زندگی سے باخبر ہو اور دوسری طرف سے عملی پہلوؤںسے وہ ان کے لیے نمونہ بن سکے اوروہ یہ نہ کہنے پائیں کہ اگر وہ ہمارا ہم جنس ہوتا توکبھی بھی پاک و پاکیزہ رہ سکتا،کیونکہ
قاضی ار باما نشیندبرفشاند دست را
محتسب گرمی خور دمعذ ور دار ومست را
اگرقاضی ہمارے ساتھ بیٹھتا تواپنے ہاتھوں کوجھاڑتارہتا،محتسب اگر شراب پی لیتا تومست کومعذ ور سمجھتالہٰذا اس کے پرو گرام صرف اسی کے لیے مفید ہیں نہ کہ نوع بشر کے لیئے ۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پراس اعتراض کے بعد اور یہ کہ وہ کس طرح نوح بشر سے ہے ؟انہیں ایک دوسرااعتراض جو پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی دعوت کے مضمون پر تھا، وہ ایک ایسے مسئلہ پرتھاجوان کے لیے ہر لحاظ سے عجیب و غریب تھا، وہ کہتے تھے : جب ہم مرجائیںگے اورخاک ہوئیں گے توکیا پھر زندہ ہوجائیں گے ،جیساکہ وہ کہتاہے، یہ بازگشت توایک بعید بات ہے (أَ ِذا مِتْنا وَ کُنَّا تُراباً ذلِکَ رَجْع بَعید )(٢) ۔
بہرحال وہ دو بارہ زندہ ہوجانے کو عقل سے دور ایک مسئلہ خیال کرتے تھے، بلکہ بعض اوقات تواسے محال سمجھتے تھے، اور اس کے ادعا کوکہنے والے کے جنون کی دلیل قرار دیتے تھے ، جیساکہ سورۂ سباکی آیت٧و ٨میں بیان ہوا ہے : وَ قالَ الَّذینَ کَفَرُوا ہَلْ نَدُلُّکُمْ عَلی رَجُلٍ یُنَبِّئُکُمْ ِذا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ ِنَّکُمْ لَفی خَلْقٍ جَدیدٍ،أَفْتَری عَلَی اللَّہِ کَذِباً أَمْ بِہِ جِنَّة کافروں نے کہا، آور ہم تمہیں ایک ایساآدمی دکھائیں جو یہ کہتاہے کہ جب ہم کامل طورسے منتشراورپراگندہ ہو جائیں گے توپھردوبارہ نئے سرے سے زندہ ہوکر لوٹ آئیں گے ، کیااس نے خداپر بہتان باندھاہے؟ یااُسے جنون ہوگیاہے؟!
صرف یہی ایک مقام نہیں ہے کہ جہاں انہوں نے پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر یہ اعتراض کیا، بلکہ انہوں نے بار ہایہی کہا، اور بار ہااس کاجواب سُنا اورپھر ہٹ دھرمی کرتے ہُوئے اس کا تکرار کیا ۔
بہرحال قرآن مجید یہاں چند ایک طریق سے اس کاجواب دیتاہے ۔
سب سے پہلے خداکے غیر متنا ہی علم کا طرف اشارہ کرتے ہُوئے فرماتاہے:ہم جانتے ہیں جو کچھ زمین ان کے بدن میں سے کرے گی اور ہمارے پاس ایک ایسی کتاب ہے،جس میں ہرچیزمحفوظ ہے (قَدْ عَلِمْنا ما تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْہُمْ وَ عِنْدَنا کِتاب حَفیظ) ۔
اگرتمہارااعتراض اس بناء پر ہے کہ انسان کی ہڈ ہاں بوسیدہ ہوجائیں گی،اوراس کاگوشت مٹی ہوجائے گا، اور وہ زمین میں مل جائے گااوراس کے ذ رات، بخارات اور گیسوں میں تبدیل ہو کر، ہوا میں پھیل جائیں گے ، تو انہیں کون اکٹھا کرسکتاہے ؟اوراصلاً کون ایساہے جوان سے باخبر ہو؟
تواس کا جواب معلوم ہے،دہی خداجس کاعلم تمام اشیاء کااحاطہ کیے ہُو ئے ہے ،وہ ان تمام ذرات کوپہچانتاہے اور بوقت ضرورت وہ ان سب کواسی طرح سے جمع کرے گا، جس طرح مٹی کے ایک ٹیلے کے درمیان سے مقناطیس کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ لوہے کے بکھرے ہُو ئے ذرات کوجمع کیاجاسکتاہے ، ہرانسان کے پراگندہ ذرات کی جمع آوری خداکے لیے اس سے بھی زیادہ آسان ہے ۔
اوراگران کااعتراض یہ ہے ، کہ انسان کے اعمال کاحساب کتاب معاد و قیامت کے لیے کون محفوظ رکھے گا، توا س کاجواب یہ ہے کہ یہ سب لوح محفوظ میں ثبت ہیں اوراصولی طور پر کوئی چیزاس عالم میں گم نہیں ہوتی یہاں تک کہ تمہارے اعمال بھی باقی رہتے ہیں، اگرچہ ان کی شکل بدل جاتی ہے ۔
کتاب حفیظاس کتاب کے معنی میں ہے جو تمام انسانوںاور ان کے غیر کے اعمال کی محافظ ہے،اور یہ لوحِ محفوظ کی طرف اشارہ ہے، جس کی تشریح وتفصیل ہم سورۂ رعدکی آیت ٣٩کے ذیل میں پیش کرچکے ہیں(جلد٥، تفسیرنمونہ ) ۔
اس کے بعددوسرے جواب کی طرف رُخ کرتاہے، جوزیادہ تر نفسیاتی پہلورکھتاہے، کہتاہے: لیکن جب حق ان کے پاس آ یاتوانہوں نے اس کی تکذیب کی (بَلْ کَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جاء َہُمْ ) ۔
یعنی وہ جان بوجھ کرحق کا انکار کرتے ہیں، ورنہ حق کے چہر ے پرکوئی گرد وغبار نہیں ہے ، اورجیساکہ بعد والی آ یات میں آ ئے گا،وہ اسی دُنیامیں خوداپنی آنکھوں سے بار بار معاد کا منظر دیکھتے ہیں، اوراس میں کوئی شک نہیں کرتے ۔
لہٰذا آیت کے آخر میں مزید کہتاہے:چونکہ وہ جھٹلا نے پرتلے ہُوئے ہیں، لہٰذا ہمیشہ الٹی سیدھی ہانکتے ہیں خود اپنے کام میں حیران ہیں اوراُلٹے پلٹے کاموں میں گرفتار ہیں(فَہُمْ فی أَمْرٍ مَریج) ۔
کبھی وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو مجنون کہتے ہیں، کبھی کاہن اورکبھی شاعر۔
کبھی کہتے ہیں : اس کی باتیں اساطیر الاوّلینگزشتہ لوگوں کی کہانیاں ہیں۔
کبھی کہتے ہیں: کوئی بشراُسے تعلیم دیتاہے۔
کبھی اس کے کلمات کے نفوذ واثر کو جادو کی ایک قسم کہتے ہیں اورکبھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بھی اس کے مانند آ یات لاتے ہیںیہ اُلٹی سیدھی باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ انہوں نے حق کوپہچان تولیاہے، لیکن بہانہ باز میں لگے ہُوئے ہیں اسی لیے ایک بات پر نہیں ٹکتے ۔
مریج مرج کے مادہ سے ( جوحرج کے وزن پر ہے ) مختلف،مشوش اور مشتبہ امر کے معنی میں ہے، اوراسی لیے اس زمین کو جس مین مختلف قسم کی بکثرت گھاس اُگی ہوئی ہو، مرج (چراگاہ )کہاجاتاہے ۔
١۔ اور تقدیر میں اس طرح ہے : والقراٰن المجید انک رسواللہ۔ یا ۔ ان البعث حق۔
٢۔""اذا "" کاجواب محذوف ہے اوروہ بعد والے جُملے سے سمجھ میں آ تاہے، اورتقدیر میں اس طرح ہے ، اء اذا متنا و کنا تراباًنرجع ونرد حیا ذالک رجع بعید""۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma