مؤ منین کے دلوں پرنزول سکینہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22

گذشتہ آ یات میں جو کچھ بیان ہُوا ہے ، وہ اتنی عظیم نعمتیں تھیں جوخدانے فتح مبین (صلح حد یبیہ ) کے سایے میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوعطا فرمائی تھیں ،لیکن زیر بحث آ یت میں اس عظیم نعمت کے بارے میں بحث کررہا ہے جواس نے تمام مومنین کومرحمت فرمائی ہے،فر ماتاہے : وہی توہے ،جس نے مومنین کے دلوں میں سکون اوراطمینان نازل کیا، تاکہ ان کے ایمان میں مزید ایمان کااضافہ کرے (ہُوَ الَّذی أَنْزَلَ السَّکینَةَ فی قُلُوبِ الْمُؤْمِنینَ لِیَزْدادُوا یماناً مَعَ یمانِہِمْ ) ۔
اورسکون واطمیان ان کے ذیل دلوں پرنازل کیوں نہ ہو ، در آ نحالیکہ آسما نوں اور زمین کے لشکر خدا(وَ لِلَّہِ جُنُودُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ کانَ اللَّہُ عَلیماً حَکیماً) ۔
یہ سکینہ کیاتھا ؟
ضروری ہے کہ ہم پھر صلح حدیبیہ کی داستان کی طرف لوٹیں اوراپنے آپ کو صلح حدیبیہ کوفضا میں اس فضاء میں جوصلح کے بعد پیدا ہوئی ، تصورکریں تاکہ آ یت کے مفہوم کی گہرائی سے آشنا ہوسکیں ۔
پیغمبر( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خواب دیکھاتھا ، ایک رؤ یا ئے الہٰی ورحمانی کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد الرام میں داخل ہورہے ہیں. اور اس کے بعد خانہ ٔ خداکی زیارت کے عزم کے ساتھ چل پڑے زیادہ ترصحابہ یہی خیال کرتے تھے کہ اس خواب اوررؤ یائے صالحہ کی تعبیر اس سفر میں واقع ہوگی ، حالا نکہ مقدر میں ایک دوسری چیز تھی . یہ بات تو ایک ہوئی ۔
دوسری طرف مسلمانوں نے احرام باندھا ہواتھا ، اور وہ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے ،لیکن ان کی توقع کے برخلاف خانہ ٔ خدا کی زیارت کی سعادت تک نصیب نہ ہوئی ، اورپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دے دیا کہ مقام ِ حدیبیہ میں ہی قربانی کے اونٹوں کونحر کردیں . کیونکہ ان کے آداب وسنن کابھی اوراسلامی احکام ودستور کا بھی یہی تقاضا تھاکہ جب تک مناسک عمرہ کوانجام نہ دے لیں احرام سے باہر نہ نکلیں ۔
تیسری طرف حدیبیہ کے صلح نامہ میں کچھ ایسے امور تھے جن کے مطالب کوقبول کرنابہت ہی دشوار تھا، منجملہ ان کے یہ کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہوجائے اور مدینہ میں پناہ لے لے تومسلمان اُسے اس کے گھر والوں کے سپرد کردیں گے ،لیکن اس کے برعکس لازم نہیں تھا ۔
چوتھی طرف صلح نامہ کی تحریر کے موقع پر قریش اس بات پرتیار نہ ہُوئے کہ لفظ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کے ساتھ لکھاجائے ، اورقریش کے نما ئندسے سہیل نے اصرار کرکے اسے حذف کرایا ، یہاں تک کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے لکھنے کی بھی موافقت نہ کی ، اوروہ یہی اصرار کرتارہا کہ اس کے بجائے بسمک اللّٰھم لکھاجائے ،جواہل مکہ کی عادت اور طریقہ کے مطابق تھا، واضح رہے کہ ان امور میں سے ہر ایک علیٰحدہ علیٰحدہ ایک نا گوار امر تھا ، چہ جائیکہ وہ سب کے سب مجموعی طورپر سے .اسی لیے ضعیف الایمان لوگوں کے دل ڈ گمگاگئے ، یہاں تک کہ جب سورہ فتح نازل ہوئی تو بعض نے تعجب کے ساتھ پوچھا: کونسی فتح ؟ !
یہی وہ موقع ہے جب نصرت الہٰی کومسلمانوں کے شامل حال ہونا چاہئے تھا، اور سکون و اطمینان ان کے دلوں میں داخل ہوتا تھا. نہ یہ کہ کوئی فتور اورکمزور ی ان میں پیدا ہوتی تھی ، بلکہ لِیَزْدادُوا یماناً مَعَ یمانِہِمْ کے مصداق ان کی قدرت ِ ایمانی میں اضافہ ہوناچاہیئے تھا .اوپر والی آ یت ایسے حالات میں نازل ہوئی ۔
سکینہ اصل میں سکون کے مادہ سے ولی آ رام واطمینان کے معنی میں ہے ،جوہرقسم کے شک و تردد اور وحشت کوانساب سے زائل کردیتاہے ،اور اس کو طوفان حووادث میں ثابت قدم رکھتاہے ۔
ممکن ہے اس سکون میں اعتقادی پہلو ہو ،اور وہ اعتقاد میں ڈ گمگانے سے بچا ئے ،یااس میں عملی پہلو ہواس طرح سے کہ وہ انسان کوثبات قدم ، مقا ومت اورصبر وشکیبائی بخشے ، البتہ گذشتہ مباحث کی مناسبت سے اور خود آ یت کی تعبیر یںیہایں زیادہ ترپہلے معنی کی طرف نظر جاتی ہے ،جبکہ سورۂ بقرہ کی آ یہ ٢٤٨ داستان طالوت و جالوت میں زیادہ ترعملی پہلوئوںپرتکیہ کرتی ہے ۔
مفسرین کی ایک جماعت نے سکینہ کے لیے کچھ اورمعنی بھی ذکر کیے ہیں ، جن کی بازگشت آخر کار اسی تفسیر کی طرف ہے ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ بعض روایات میں سکینہ کی ایمان کے ساتھ تفسیر ہوئی ( ١) اور بعض دوسری روایات میں نسیم جنت سے جوایک خاص صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور مومنین کوسکون وآرام بخشتی ہے ( ٢) ۔
جوکُچھ بیان ہوا ہے ،یہ بھی ان کے لیے ایک تائید ہے ،کیونکہ سکینہ ایمان کی پیدا وار ہے ، اور نسیم بہشتی کی طرح آرام بخشش ہوتی ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابل ِتوجہ ہے ،کہ سکینہ کے بارے میں انزال ( نازل کرنے )کی تعبیر ہوئی ، اورجیساکہ ہم جانتے ہیں . یہ تعبیر قرآن مجید میں بعض اوقات ،ایجاد ، وخلقت اوربخشش کے معنی میں آ تی ہے ، اور چونکہ ایک عالی مقام سے ایک پست مقام کی طرف سے اس لیے اس تعبیر کی خوبی واضح ہے ۔
١۔تفسیر برہان ،جلد ٢،صفحہ ١١٤۔
٢۔تفسیر برہان ،جلد ٢،صفحہ ١١٤۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma