ہم اس دن خوف زدہ تھے اورآج انتہائی امن میں ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22

گذشتہ آ یات میں جنت کی نعمتوں میں سے نوحصوں کی طرف اشارہ ہواتھا ،اور زیربحث آ یات میں ان کوجاری رکھتے ہوئے دوسرے پانچ حصوں کی طرف اشارہ کررہاہے ،اس طرح ان سب کے مجموعہ سے بخوبی معلوم ہوجاتاہے ،کہ آرام وآسائش ولذت وسرد رو شادی کے لیے جوکچھ لازم وضروری ہے وہ سب کچھ ان کے لیے جنت میں فراہم ہوگا۔
پہلے بہشتیوں کی غذاؤں میں سے دوحصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر ماتاہے: ہمیشہ انواع واقسام کے پھلوں اور گوشت میں سے جس نوع کی طرف وہ مائل ہوں گے ہم اسے ان کے اختیار میں دے دیں گے (وَ أَمْدَدْناہُمْ بِفاکِہَةٍ وَ لَحْمٍ مِمَّا یَشْتَہُونَ) ۔
امددناھم امداد کے مادہ سے ادامہ و افزائش اور عطا کرنے کے معنی میں ہے، یعنی جنت کے پھل اورکھانے اس قسم کے نہیں ہیں کہ وہ کھانے سے کم ہوجائیں، یاوہ دنیا کے پھلوں کے مانند نہیں ہیں ۔ جوسال کی فصلوں میں بہت سی تبدیلیاں رکھتے ہیں ۔ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ ان میں ہمیشگی ،جاودانی اوراستمرار اورتسلسل ہے ۔
ممایشتھون (وہ جس میں چاہیں گے ) کی تعبیراس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بہشتی ان پھلوں اورغذاؤں کی نوع مقدار اورکیفیت کے انتخاب میں کامل طور سے آزاد ہوںگے وہ جوبھی چاہیں ان کے اختیار میںہے ۔
اس کے بعد بہشتیوں کے خوشگوار اورمزید ار مشروبات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے ،:وہ بہشت میں شراب طہورسے پرجان جن میںنہ تومستی ہوگی، اورنہ ہی بیہودہ گوئی اورنہ کوئی گناہ ایک دوسرے سے لیں گے (یَتَنازَعُونَ فیہا کَأْساً لا لَغْو فیہا وَ لا تَأْثیم ) ۔
بلکہ وہ ایسی شراب ہے جوخوشگوار ولذت بخش ہے ،نشاط آفرین اور روح پرور ہے ،اوراس میں کسی قسم کانشہ اورعقل کافساد اورخرابی نہیںہے ،اوراس کے پینے سے کسی قسم کی بیہودہ گوئی اور گناہ نہیں ہوگا، بلکہ اس میں سراسر ہوش اورجسمانی وروحانی لذت ہے ۔
یتنازعون تنازع کے مادہ سے ایک دوسرے لینے کے معنی میں ہے، اوربعض اوقات کھینچا تانی اورلڑائی جھگڑے کے معنی میں بھی آ تاہے ،لہذا بعض مفسر ین نے کہاہے : یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بہشتی شوخی ومزاح اور سروروانبساط کی فراوانی کے باعث شراب طہور کے جام ایک دوسرے کے ہاتھ سے چھین چھین کرپئیںگے ۔
لیکن جیساکہ بعض ارباب لغت نے کہاہے کہ : تنازع جب کسی موقع پر کاس (جام) کے لیے استعمال ہوتاہے توایک دوسرے سے لینے کے معنی میں ہوتاہے ،کشمکش اورکھینچا تانی کے معنی میں نہیں ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ کاس اس جام کو کہتے ہیں جوشراب سے پر ہو ،اورخالی برتن کو کاس نہیں کہتے ( ١) ۔
بہرحال چونکہ کاس کی تعبیر ، بعض اوقات دنیاکی نشہ دینے والی شرابوں کے معنی کی یاد دلاتی ہے ،لہٰذا مزید کہتاہے : اس شراب میں نہ تو لغو اور بے ہودہ گوئی ہے اونہ ہی گناہ ، کیونکہ وہ ہرگز انسان کی عقل وہوش کوزائل نہیں کرے گی، اس بناء پر وہ غیر موزوں باتیں اورقبیح اعمال جومستوں سے سرزد ہو تے ہیں،ہرگزان سے سرزد نہیں ہوں گے ۔ بلکہ اس بناپر کہ وہ شراب طہور ہے ،انہیں زیادہ خالص ، زیادہ پاک اور زیادہ ہوشیار کردے گا۔
اس کے بعد چوتھی نعمت کو جوبہشت میں خد مت گذاروں کے ہونے کی نعمت ہے پیش کرتے ہوئے کہتاہے ، ہمیشہ ان کے گرد اگرد نوجوان لڑ کے ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ،جوان موتیوں کی طرح ہوں گے جوصدف میں ہوتے ہیں (وَ یَطُوفُ عَلَیْہِمْ غِلْمان لَہُمْ کَأَنَّہُمْ لُؤْلُؤ مَکْنُون) ۔
مروارید صدف کے اندر اس قدر تازہ صاف شفاف اورخوبصورت ہوتے ہیں ،جس کی کوئی حد نہیں ہے ،اگرچہ صدف کے باہر بھی ان کی خوبصورتی جوں کی توں باقی رہتی ہے ، لیکن ہواکا گردوغبار ، اورہاتھوں کی آلودگی ، کچھ نہ کچھ اس کی صفائی میں کمی کردیتی ہے جنت کے خدمت گزاراس قدر خوبصورت ،سفید چہرہ اور باصفاہوں گے جیساکہ صدف کے اندر مروارید ہوتے ہیں ۔
یطوف علیھم (ان کے گردطواف)کی تعبیرخدمت کے لیے ان کی دائمی آمادگی کی طرف اشارہ ہے ۔
اگرچہ بہشت میں خد مت گار کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی اوروہ جوکچھ چاہیں گے ان کے اختیار میں ہوگا، لیکن یہ خود بہشتیوں کے زیادہ سے زیادہ احترام کے لیے ہوگا۔
ایک حدیث میں آ یاہے کہ رسو ل اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے لوگوں نے سوال کیاکہ اگر خد مت گذار صدف میں موجود مروارید کی طرح ہوں گے تو پھرمخدوم یعنی جنت کے مؤ منین کس طرح کے ہوں گے توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
والذی نفسی بیدہ فضل المخدوم علی الخادم کفضل القمر لیلة البدرعلی سائر الکواکب
مخدوم کی وہاں پر خادم پربرتری ایسی ہوگی جیسی کہ چود ہویں کے چاند کوباقی ستاروں پربرتری ہے (٢) ۔
لھم کی تعبیراس بات کی نشاندھی کرتی ہے کہ مو منین میں سے ہرایک کے لیے کچھ مخصوص خدمت گذار ہوں گے ،اور چونکہ جنت غم واندوہ کی جگہ نہیں ہے اس لیے وہ خد مت گذار بھی مومنین کی خدمت سے لذت حاصل کریں گے ۔
اوراس سلسلہ کی آ خری نعمت وہی مکمل سکون وآرام اورہرقسم کے عذاب وسزا سے دلی اطمینان ہے ۔ جیساکہ بعد والی آیت میں فرماتاہے:اس حالت میں جب کہ وہ ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوئے ہوں گے ،توگذرے ہوئے دنوں کے حالات کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کریں گے اوراس کاجنت کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے لذت حاصل کریں گے (وَ أَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلی بَعْضٍ یَتَساء َلُون) ۔
وہ کہیں گے ہم تواس سے پہلے اپنے گھر والوں میں خالف و ترساں رہتے تھے (قالُوا ِنَّا کُنَّا قَبْلُ فی أَہْلِنا مُشْفِقینَ) ۔
باوجود اس کے کہ ہم اپنے گھروالوں کے درمیان رہتے تھے لہذا ہمیں توامن وامان کااحساس کرنا چاہیئے تھامگر پھربھی ہم خائف ہی تھے ،ہمیں اس بات کاڈر لگارہتا تھا کہ ناگوارحوادث اورعذاب الہٰی کسی بھی لمحہ آن پہنچے گا، اورہمیں پکڑلے گا۔
ہم اس بات سے ڈر تے تھے کہ ہماری اولاد اورگھروالے غلط راستے پرچل پڑیں گے ،اور وادی ِ ضلالت میں گمراہ وسرگرداں پھریں گے ۔
اور ہمیں اس بات کا بھی خوف تھاکہ سنگدل دشمن ہمیں غفلت میں رکھ کرہم پر عرصۂ حیات تنگ کردیں گے ۔
لیکن خدانے ہم پراحسان کیا، اوراس کی رحمت واسعہ ہمارے شامل حال ہوئی ،اورہمیں ہلاک کرنے والے عذاب سے محفوظ رکھا (وَ أَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلی بَعْضٍ یَتَساء َلُون)۔
وہ کہیں گے ہم تواس سے پہلے اپنے گھر والوں میں خائف وترساں رہتے تھے (قالُوا ِنَّا کُنَّا قَبْلُ فی أَہْلِنا مُشْفِقینَ) ۔
باوجود اس کے کہ ہم اپنے گھروالوں کے درمیان رہتے تھے لہذاہمیں توامن وامان کا احساس کرناچاہیئے تھامگر پھربھی ہم خائف ہی تھے ، ہمیں اس بات کا ڈر لگارہتا تھاکہ ناگوار حوادث اورعذاب الہٰی کسی بھی لمحہ آن پہنچے گا، اور ہمیں پکڑے گا۔
ہم اس بات سے ڈرتے تھے کہ ہماری اولاد اور گھر والے غلط راستے پرچل پڑیں گے ،اور وادی ضلا لت میں گمراہ وسرگرداں پھریں گے ۔
اور ہمیں اس بات کا بھی خوف تھا کہ سنگدل دشمن ہمیں غفلت میں رکھ کرہم پرعرصۂ حیات تنگ کردیں گے ۔
لیکن خدانے ہم پراحسان کیا، اوراس کی رحمت واسعہ ہمارے شامل حال ہوئی ، اورہمیں ہلاک کرنے والے عذاب سے محفوظ رکھا (فَمَنَّ اللَّہُ عَلَیْنا وَ وَقانا عَذابَ السَّمُوم) ۔
ہاں!مہربان پروردگار نے ہمیں دنیا کے زندان سے اس کی تمام وحشتوں کے ساتھ نجات ،بخشی ،اوراپنی نعمتوں کے مرکز یعنی جنت میں ہمیں جگہ دی ۔
وہ جب اپنے ماضی کویادکرتے ہیں ،اوراس کے جزئیات اپنے حافظہ میں لاتے ہیں ،اورموجود حالات کے ساتھ ان کاموازنہ کرتے ہیں توخدا کی عظیم نعمتوں اوراس کے مواہب کی قدرو قیمت کوزیادہ سے زیادہ پاتے ہیں، اوریہ بات ان کے لیے اور بھی زیادہ لذت بخش اور دلچسپ ہوجاتی ہے ،کیونکہ اس مواز نہ کے ذ ریعہ ان کی قدر وقیمت کھل کرسامنے آجاتی ہے ۔
اہل جنت اس آخری گفتگو میں جوان کی طرف سے یہاں نقل ہوئی ہے ۔ اس حقیقت کااعتراف کرتے ہیں، کہ وہ خدا کے رحیم ہونے کو ،وہاں ہرزمانہ سے زیادہ محسوس کرتے ہیں،وہ کہیں گے : ہم پہلے سے خدا کوپکارتے تھے اوراُس کو نیک مطلوب اوررحیم کہہ کر تعریف کرتے تھے (انَّا کُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوہُ ِنَّہُ ہُوَ الْبَرُّ الرَّحیمُ) ۔
لیکن ہم یہاں ان صفات کی حقیقت کی تہ تک پہنچ جائیں گے، کہ اس نے ہمارے حقیر اعمال کے مقابلہ میں کتنی نیکیاں کی ہیں، اورہماری اس قدر لغزشوں کے باوجود ہمیں اپنی رحمت کامشمول کیاہے ۔
ہاں!قیامت کامنظر اورجنت کی نعمتیں خدا کے اسماء وصفات کی تجلی گاہ ہیں اور مومنین ان مناظر کامشاہدہ کرکے ہرزمانے سے زیادہ ان اسماء وصفات کی حقیقت سے آشنا ہوں گے، یہاں تک کہ دوزخ بھی اس کے صفات کوہی بیان کرتی ہے ،اوراس کی حکمت، عدالت اورقدرت کی نشاندہی کرتی ہے ۔
١۔"" راغب مفردات میں کہتاہے:الکأس الاناء بما فیہ من الشراب: مجمع البحرین"" میں بھی یہی تفسیر کأس کے بارے میں آئی ہے اوراگر شراب سے خالی ہوتو اسے "" قدح "" کہاجاتاہے ۔
٢۔"" مجمع البیان"" "" کشاف"" "" قرطبی"" "" روح البیان"" و"" ابوالفتوح رازی""۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma