قیامت کے صیحہ (چیخ) کے ساتھ ہی سب زندہ ہوجائیں گے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22
یہ آ یات جوسُورئہ ق کی آخری آ یات ہیں اس سُورہ کی باقی آ یات کی طرح مسئلہ معاد و قیامت کو ہی بیان کرتی ہیں، اور پھر اس کے ایک اور گوشہ کوپیش کرتی ہیں،اور وہ مسئلہ نفخ صور اور مردوں کے قبروں سے اٹھنے کاہے ۔
فرماتاہے : کان دھر کے سُن اوراس دن کامنتظر رہ جس دن ایک ندا کر نے والانزدیک کے مکان سینداکریگا(وَ اسْتَمِعْ یَوْمَ یُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَکانٍ قَریبٍ) ۔
وہ دن جس میں قیامت کے صیحہ (چیخ ) کوحق کے ساتھ سنیں گے ، وہ دن خروج کا دن ہے(یَوْمَ یَسْمَعُونَ الصَّیْحَةَ بِالْحَقِّ ذلِکَ یَوْمُ الْخُرُوجِ ) ۔
استمع (کان دھرکے سُن)میں مخاطب اگرچہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی ذات ہے ،لیکن مسلمہ طورپر اس سے مراد تمام انسان ہیں ۔
کان دھرنے سے مراد، یاتوانتظار کرناہے،کیونکہ جولوگ کسی حادثہ کاانتظار کرتے ہیں، جوایک وحشتناک حادثہ سے شروع ہوگا وہ ہمیشہ کان کھڑے رکھتے ہیں، اورمنتظر رہتے ہیں،یاخدا کی اس گفتگو پرکان دھرنا مراد ہے،اورمعنی اس طرح ہوگا:
اس گفتگو کوسُن جوتیرا پر وردگارقیامت کے صیحہ (چیخ) کے بارے میں کررہاہے(١) ۔
لیکن یہ ندا دینے والا کون ہوگا؟ممکن ہے کہ خداکی ذات پاک ہو جویہ ندادے گی ،لیکن زیادہ قوی احتمال ہی کے وہ اسرافیل ہوگا،جو صور پھونکے گا، اورقرآن کی آ یات میں نام کے ساتھ تونہیں ،لیکن دوسری تعبیروں کے ساتھ اس کی طرف اشارہ ہواہے ۔
مکان قریبکی تعبیر اس بات کی طرف اشار ہ ہے،کہ یہ صدااس طرح فضا میں پھیل جائے گی ،کہ گو یا ہرایک کے کان کی جڑ میں ہے اور سب کے سب اس کو قریب سے سنیں گے ، موجودہ زمانہ میں ہم مختلف وسائل سے کہنے والوں کی باتوں کوجودُنیاکے کہیں دُور دراز مقام پرکررہا ہوتاہے،قریب سے سُن سکتے ہیں، گویا وہ بالکل ہمارے قریب ہی بیٹھاہواہے اور ہم سے بات کر رہاہے ، لیکن اس دن سب لوگ ان وسائل کی احتیاج کے بغیر ، منادی حق کی آواز کو، قیامت کی صدا بلند کررہا ہوگااپنے قریب سے سنیں گے (٢) ۔
بہرحال یہ صیحہ ، وہ پہلا صیحہ نہیں ہے جواس جہاں کے ختم کرنے کے لیے ہوگا ، بلکہ یہ دوسرا صیحہ ہے ،یعنی وہی قیام وحشر کاصیحہ، اورحقیقت میں دوسری آیت پہلی آیت کی توضیح و تفسیر ہے : کہتاہے:
وہ دن جس میں صیحہ کوحق کے ساتھ سنیں گے، قبروںسے نکلنے اور زمین کی مٹی سے باہر آ نے کادن ہے ۔
اور اس غرض سے کہ یہ بات واضح ہوجائے کہ اس عظیم داد گاہ اور عدالت میں حاکم کون ہے ؟ مزید کہتاہے:ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں، اور سب لوگ ہماری ہی طرف لوٹ کرآئیں گے(انَّا نَحْنُ نُحْیی وَ نُمیتُ وَ ِلَیْنَا الْمَصیرُ)۔
احیاء سے مراد وہی دُنیامیں پہلی مرتبہ زندہ کرناہے، اور مارنے سے مراد عمر کے آخر میں مرناہے ،اور ِلَیْنَا الْمَصیر کاجُملہ قیامت میں زندہ ہونے کی طرف اشار ہے ۔
درحقیقت آیت اس نکتہ کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ جس طرح پہلی موت وحیات ہمارے ہاتھ میں ہے، اسی طرح پھردوبارہ زندگی کی طرف لوٹانا، اورقیام قیامت بھی ہمارے ہی ہاتھ میںہے ، اورہماری ہی طرف ہے ۔
اس کے بعد مزید وضاحت کے لیے فرماتاہے،: ان کی بازگشت ہماری طرف اس دن ہوگی جب زمین ان کے اُوپرسے شگافتہ ہو جائے گی اور وہ زندہ ہوجائیں گے اورسرعت کے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے (یَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْہُمْ سِراعاً )( ٣) ۔
آیت کے آخر میں مزید کہتاہے:قیامت میں لوگوں کایہ حشر اور جمع کرناہمارے لیے سہل اور آسان ہے (ذلِکَ حَشْر عَلَیْنا یَسیر) ۔
حشر جمع کرنے اور ہرطرف سے اکھٹا کرنے کے معنی میں ہے ۔
یہ واضح ہے کہ وہ خدا جو آسمانوںاور زمین کااور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے، پیدا کرنے والاہے ، اس کے لیے مردوں کاحشر ونشر توایک سادہ اور آسان کام ہے، اصولی طورپر مشکل و آسان تواس کے لیے ہوتاہے ، جس کی قدرت محدُود ہو، وہ ذات جس کی قدرت غیر محدُود ہے ، تمام چیزیںاس کے لیے یکساں اور آسان ہیں ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ بعض روایات میں یہ آ یاہے : پہلا شخص جوزندہ ہوگا، اورقبرسے باہر نکل کرمیدانِ محشر میںوارد ہوگاوہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں گے اور علی علیہ السلام ان کے ہمراہ ہوں گے ( ٤) ۔
آخری زیربحث آیت مین جواس سُورہ کی بھی آ خری آیت ہے ، باری تعالیٰ اپنے پیغمبرکوان کے سخت اورہٹ دھرم مخا لفین کے مقابل میں ایک بار پھر تسلی اور دلداری دے رہاہے اور فرماتاہے:جوکچھ وہ کہتے ہیں،ہم اس سے بخوبی آگاہ ہیں (نَحْنُ أَعْلَمُ بِما یَقُولُونَ ) ۔
اور تم انہیں ایمان کے لیے مجبور کرنے پرمامور نہیں ہوئے ہو، جوتم قہر اور جبر کے ساتھ انہیں اسلام کی طرف کھینچو(وَ ما أَنْتَ عَلَیْہِمْ بِجَبَّارٍ ) ۔
تمہاری ذمہ داری توصرف ابلاغِ رسالت ، حق کی طرف دعوت اور بشارت وانذار ہے جب ایساہے توان لوگوں کوجومیرے عذاب وعقاب سے ڈرتے ہیں، قرآن کے ذ ریعہ میری یاد دلاؤاورپندونصیحت کرو (فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ یَخافُ وَعید)(٥) ۔
تفسیر قرطبی میں آ یاہے کہ ابن ِ عباس کہتے ہیں :کچھ لوگوں نے عرض کیا، اے رسُول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ہمیں اندازِ کیجئے اور ڈ رایئے تو اوپر والی آیت نازل ہوئی ، اور کہا:فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ یَخافُ وَعید ( ٦) ۔
یہ اس بات کی طرف اشار ہ ہے کہ قرآن مومن افراد کوخوف دلانے اوربیدار کرنے کے لیے کافی ہے، اس کاہر صفحہ قیامت کی یاد دھانی کراتاہے ،اور اس کی مختلف آیات،گذشتہ لوگوں کی سرنوشت کوواضح کرتی ہے اور بہشت کی نعمتوں،دوزخ کے عذابوں کابیان اوران حوادث کی توصیفیں،جوقیا مت کے قریب اور داد گاہ عدلِ الہٰی میں واقع ہوں گے،سب کے سب بہترین پندونصیحت کی صُورت موجود ہیں ۔
واقعاً اس منظرکی یاد آوری ، کہ زمینیں پھٹ جائیں گی، اور مٹی میں جان پڑ جا ئے گی ، مُرد ے لباس حیات پہن لیں گے اور حرکت میں آجائیں گے ، قبروںسے باہر نکل کھڑے ہوںگے، درحالیکہ وحشت واضطراب سب کو سرتاپا گھیرے ہُوئے ہوگااورانہیں درگاہ عد ل الہٰی کی طرف ہانک کر لے جایاجائے گا، یہ ایک لرزہ خیز منظر ہوگا ۔
خصوصاً جبکہ زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ مختلف انسانوں کی قبریںایک قبربن چکی ہوگی ،اور بہت سے افراد کواس نے اپنے اندر جگہ دے رکھی ہوگی ، جن میںسے بعض صالح اور بعض غیر صالح ہوں گے ، اوربعض مومن اوربعض کافرہوں گے ، اوربقولِ شاعر:
رب قبر صارقبراً مراراً ضاحک من تزاحم الا ضداد
ود فین علی بقایاد فین فی طویل الاجال و الا ماد
کتنی بہت سی قبریں ایسی ہیں جوبار ہاقبریں بنی ہیں ایسی قبریں جوتزاحم اضدادے سے ہنستی ہیں ۔
اور کتنے بہت سے ایسے افراد ہیں جودوسرے انسانوں کے بقیہ حِصّوں میں دفن ہوئے ہیں،طول زمان اور قرون وا عصار میں ۔
پروردگار ا!ہمیں ایسے لوگوں میں سے قرار دے جو تیری وعید سے ڈرتے ہیں، اور تیرے قرآن سے نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔
خداوندا!اس دن جب وحشت واضطراب نے سب کوگھیرا ہواہوگا، ہمیں اپنی رحمت سے سُکون عنایت فرما ۔
بارالہٰا!زندگی کے دن توجتنے بھی ہوں بڑی تیزی سے گزر جائیں گے، لیکن جوہمیشہ ہمیشہ رہے گا، وہ تیرا آخرت کاگھر ہے ،ہمیںحسن عاقبت اور آخرت میں نجات مرحمت فر ما ۔
١۔پہلی تفسیر کے مطابق "" یوم "" "" استمع"" کامفعول ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق"" استمع""کامفعول محذوف ہے، اورتقدیر میں"" استمع حدیث ربّک""ہوگا .باقی رہا"" یوم "" کامنصوب ہونااس صُورت میں اس فعل کی وجہ سے ہے جویوم الخروج سے سمجھا جاتاہے، اورمعنی کے اعتبار سے اس طرح ہے "" یخزجون یوم ینادالمناد""۔
٢۔مفسرین کی ایک جماعت نے یہ احتمال دیاہے کہ "" مکان قریب""صخروبیت المقدس""ہے (وہی مخصوص پتھر جوبیت المقدس میں ہے، جس سے آسمان کی طرف پیغمبرکامعراج شروع ہوا تھا)منادی اس کے پاس کھڑا ہوجائے گا اور پکارے گا:( ایتھاالعظام البالیہ!والا وصال المنقطعة ،واللحوم المتمزقة، قومی لفصل القضائ، وما اعداللہ لکم من الجزائ!:
اے بوسیدہ ہڈیو!اوراے کٹی ہوئی رگو!اور اے بکھرے ہوئے گوشت فیصلہ اورجزاء کے لیے جوتمہارے لیے مقررہوچکی ہوئی ہے، اُٹھ کھڑے ہو،لیکن اس احتمال پرکوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے ۔
٣۔""سراع"" جمع ہے "" سریع"" کی ، جیساکہ "" کرام"" جمع ہے "" کریم "" کی اور یہاں حال ہے ،بخر جون کے فاعل کاجو محذوف ہے اور تقدیر میں اس طرح تھا"" بخرجون سراعاً ""بعض سراع کومصدر سمجھتے ہیںجوحال کی جگہ واقع ہوا ہے ۔
٤۔"" کتاب خصال "" مطابق نقل نورالثقلین ،جلد٥،صفحہ١١٩۔
٥۔ توجہ رکھیں کہ "" وعید"" اصل میں "" وعیدی "" تھا "" یائ"" حذف ہوگئی ہے ،اور کسرہ جواس پردلیل ہے باقی رہ گیاہے. اور وہ "" یخاف"" کامفعول ہے ۔
٦۔"" قرطبی "" جلد٩،صفحہ ٦١٩٨۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma