٣۔ ہرچیزمیں اورہرجگہ انضباط اسلامی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22

مسئلہ مدیر یت و فر ماندہی نظم وضبط کی رعایت کے بغیر کبھی بھی درست نہیں . اگر وہ لوگ جوکسی مدیر ورہبر کے ماتحت ہوں خود سرانا عمل کریں توتمام کاموں کاشیرازہ بکھر جائے گا . چاہے رہبر کتناہی لائق وشائشتہ کیوں نہ ہو ۔
بہت سی شکستیں اورناکامیاں اورجوبہت سے گروہوں ، جمعیتوں یالشکروں کودامن گیرہوئی ہیں وہ سب اسی راہ گزر سے ہوئی ہیں اور مُسلمانوں نے بھی اس دستور سے تخلف کا تلخ مزہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اوراس کے بعد بارہا چکھاہے، جن میں سے سب سے زیادہ واضح جنگ، احد کی شکست ہے جوایک تھوڑے سے جنگجو گروہ کی بے قاعدہ گی کی وجہ سے ہو ئی تھی ۔
قرآن مجید نے اس حد سے زیادہ اہم مسئلہ کو، اوپروالی آ یات میں مختصر سی عبارتوں میں جامع اورپرکشش صُورت میں پیش کیاہے،اور کہتاہے: یاایھاالذین اٰمنو الا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ۔
جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں، آ یت کے مفہو م کی وسعت اس قدر زیادہ ہے کہ وہ ہرقسم کے تقدم و تاخر اورخوسرا نہ گفتار ورفتار کو رہبری کے دستور سے خارج ہو،شامل ہے ۔
ان حالات میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کی تاریخ میں زیادہ مواقع ایسے نظر آتے ہیں، کہ کچھ لوگوں نے آپ علیہ السلام کے فرمان پر سبقت کی ، یاپیچھے رہ گئے اورآپ کی اطاعت سے رُو گردانی کی، تو شدید ملامت وسرزنش کامحل قرار پائے ،منجملہ ان کے یہ ہے کہ :
١۔ جس وقت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے لیے روانہ ہُوئے (تواس وقت ہجرت کے آٹھویں سال کا) ماہ مبارک رمضان تھااور بہت زیادہ جمعیّت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھی، ایک گروہ سوار اورایک پیادہ تھا، جس وقت آپ کراع الغمیم کی منزل پرپہنچے توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے پانی کابرتن لایاگیا، اورحضرت نے نے اپنا روزہ افطار کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہیوں نے بھی افطار کیا، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک گروہ نے آپ (صلی اللہ علیہ ولہ وسلم)سے سبقت کی اور افطار کرنے پر تیار نہ ہُوا اور اپنے روزے پرقائم رہے ، تو پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں عصاة ( یعنی گنا ہ گاروں کاگروہ ) نام دیا(١) ۔
٢۔ دوسرانمونہ حجتہ الوداع کی داستان میں ہجرت کے دسویں سال میں واقع ہوا. پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم) نے منادی کو یہ ندا کرنے کا حُکم دیاکہ جوشخص قربانی کاجانور اپنے ساتھ نہیں لایاوہ پہلے عمرہ بجالائے اوراحرام سے خارج ہوجائے، اس کے بعد مراسم حج بجالائے، لیکن جولوگ قربانی کاجانور ساتھ لائے ہیں( اوران کاحج ، حج فراد ہے) وہ اپنے احرام پربر قرارر ہیں .اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید فرمایا، اگر میں قربانی کے اونٹ ہمراہ نہ لایاہوتا، تو میں عمرہ کی تکمیل کرتااور احرام سے خارج ہوجاتا، لیکن ایک گروہ نے اس حکم کوانجام دینے سے روگردانی کی اور یہ کہا کہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تواپنے احرام پرباقی رہے اور ہم احرام سے خارج ہوجائیں ؟ کیا یہ بُری بات نہیں ہے کہ ہم مراسم حج کی طرف عمرہ بجالانے کے بعد جائیں، جبکہ غسل ( جنابت) کے پانی کے قطرات ہم سے گررہے ہوں ۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس تخلف اور بے انضباطی سے سخت رنجیدہ ہُو ئے اور سختی کے ساتھ سرزنش کی ( ٢) ۔
٣۔ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وفات کے قریب لشکر اسامہ سے تخلف کی داستان مشہور ہے کہ آنحضرت نے مسلمانوں کوحکم دیاکہ اسامہ بن زید کی کمان میں رو میوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے آمادہ ہوں اورمہاجرین وانصار کے لیے یہ حکم تھاکہ وہ اس لشکر کے ساتھ جائیں ۔
شاید آپ کامنشاء یہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی رحلت کے وقت وہ مسائل جواہر خلافت میں واقع ہُوئے وہ نہ ہوں ، یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکرِ اسامہ سے تخلف کرنے والوں پرلعنت فرمائی، لیکن اس کے باوجود ایک گروہ نے جانے سے روگردانی کی اور بہانہ یہ کیا کہ ہم پیغمبر کوایسے حالات میں تنہانہیںچھوڑ سکتے( 3) ۔
پیغمبرگرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے آخری لمحات میں قلم ودوات کی داستان بھی مشہور اورہلادینے والی ہے،بہتریہ ہے کہ ہم صحیح مسلم کی اصل عبارت کی یہاں نقل کردیں ۔
لما حضوررسول اللہ وفی البیست وجال فیھم عمربن الخطاب فقال النبی(ص) ھلم اکتب لکم کتاباً تضلون بعدہ ، فقال عمر انّ رسو ل اللہ (ص) قد غلب علیہ الوجع! کم القراٰن ، حسبنا کتاب اللہ، فاختلف اھل البیت، فاختصموا ، فمنھم من یقول قربوا یکتب لکم رسو ل اللہ(ص) کتاباً لن تضلّو ابعدہ، و منھم من یقول ماقال عمر، فلما اکثر وا اللفووالا ختلاف عند رسول اللہ (ص) قال رسول اللہ قو موا! ۔
جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کاوقت قریب آ یاتو اس وقت ایک گروہ آپ کے پاس گھر میں موجود تھاجن میں عمر بن الخطاب بھی تھا، پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایاکہ غذ لے آ ؤ تاکہ میں تمہارے لیے ایسی چیز لکھ جاؤں جس کے بعدتم ہرگز ہرگمراہ نہ ہوگے، عمرنے کہا، بیماری نے پیغمبر پرغلبہ کیاہے....(العیاذ ُ اباللہ ناموزوں باتیں کررہے ہیں) ۔
قرآن تمہارے پاس ہے اور یہی خدا کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے. تو اس وقت گھر میں موجود لوگوں میں اختلاف پڑگیا، بعض نے کہا کہ لے آؤ تاکہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی تحریرلکھ دیں تاکہ تم ہرگز گمراہ نہیں نہ ہو، جبکہ بعض دوسرے عمر کی بات کاتکرار کررہے تھے، جس وقت ناموزوںباتیں اوراختلاف بڑھ گئے ، توپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: اُٹھ جاؤ ، اور مجھ سے دُور ہوجاؤ ( 4) ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ بعینہ یہی حدیث مختصر سے تفاوت اورفرق کے ساتھ بخاری نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیاہے( 5) ۔
یہ ماجرا تاریخِ اسلام کے اہم حوادث میں سے ہے، جس کے لیے بہت زیادہ تجز یہ اورتحلیل کی ضرورت ہے، اور یہاں اس کی تشریح کاموقع نہیں ہے ،لیکن بہرحال یہ واقعہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے خلاف ورزی کے واضح ترین مواقع اور زیربحث آ یتیاایھاالّذین اٰمنوالاتقدم موابین یدی اللہ ورسولہکی مخا لفت کے روشن ترین واقعات میں شمار ہوتاہے ۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس اسلامی اورالہٰی نظم وضبط کی رعایت کے لیے رہبرپرمحکم ایمان رکھنے ، اوراس کی زندگی کے تمام حالات میں اس کی رہبری کوقبول کرنے اوررہبری کوقبول کرنے اور رہبرکی اطاعت کرتے ہُوئے کامل طورپر سرتسلیم خم کرنے کی ضرورت ہے ۔
١۔اس حدیث کوبہت سے مؤ رخین اورمحدثین نے نقل کیاہے. منجملہ وسائل کی جلد ٧ ،صفحہ ١٢٥ (ابواب من یصح منہ الصو م )( تھوڑی سی تلخیص کے ساتھ) ۔
٢۔ "" بحارالانوار "" جلد ٢١ ،صفحہ ٣٨٦ تخلیص کے ساتھ ۔
3۔ اس ماجرے کوبہت سی کتب تواریخ اسلامی میں لکھاگیاہے اور یہ تاریخ ِ اسلام کے اہم حوادث میں سے ہے، (مزید اطلاع کے لیے المراجعات کے مراجعہ ٩٠ کی طرف رجوع کریں ۔
4۔ صحیح مسلم ،جلد٣،کتاب الوصیہ حدیث ٢٢ (صفحہ ١٢٥٩) ۔
5۔ صحیح بخاری جلد ٦،باب مرض الہٰی و وفاة صفحہ ١١۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma