ظن وگمان ہر گز کسی کوحق تک نہیں پہنچاتے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 22

یہ آ یات مشرکین کے عقیدہ کی نفی کے سلسلہ میں اسی طرح گزشتہ آ یات کے موضوع کوبیان کررہی ہیں ۔
پہلے فرماتاہے:وہ لوگ جوآخرت پرایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو(خدا کی ) بیٹیاں کہتے ہیں (انَِّ الَّذینَ لا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَیُسَمُّونَ الْمَلائِکَةَ تَسْمِیَةَ الْأُنْثی ) ۔
ہاں!یہ قبیح اور بے غیرتی کی گفتگو صرف انہیں لوگوں سے سرز د ہوتی ہے جوحساب وکتاب اورجزائے اعمال کاعقیدہ نہیں رکھتے کیونکہ اگروہ آخرت کاعقیدہ رکھتے تواس طرح دیدہ دلیر ی کے ساتھ گفتگو نہ کرتے ،ایسی گفتگو جس کے لیے کوئی معمولی سی دلیل بھی ان کے پاس نہیں ہے ،بلکہ عقلی دلائل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نہ تو خدا کے کوئی اولاد ہے اور نہ ہی فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں ۔
تَسْمِیَةَ الْأُنْثی کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے ،جوگزشتہ آ یات میں بیان ہوچکی ہے،کہ یہ باتیں بے معنی نام اور اسمائے بے مسمّٰی ہیں دوسرے لفظوں میں وہ برائے نام کی حد سے آگے کی کوئی بات نہیں یعنی ان میں کوئی واقعیت اورحقیقت نہیںہے ۔
اس کے بعداس نام رکھنے کے بطلان کی ایک واضح دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید ارشاد ہوتاہے: وہ اس بات کے بارے میں علم ویقین نہیں رکھتے ،بلکہ وہ بے بنیادظن کی پیروی کرتے ہیں، حالانکہ گمان ہرگز انسان کوحق سے بے نیاز نہیں کرتا اورکسی کوحق تک نہیں پہنچاتا (وَ ما لَہُمْ بِہِ مِنْ عِلْمٍ ِنْ یَتَّبِعُونَ ِلاَّ الظَّنَّ وَ ِنَّ الظَّنَّ لا یُغْنی مِنَ الْحَقِّ شَیْئاً ) ۔
یہ بات واضح ہے کہ ظن (گمان) کے دومختلف معانی ہیں ۔کبھی تویہ بے بنیاد گمانوں کے معنی میں آ تاہے جوگزشتہ آ یات کی تعبیروں کے مطابق ہوائے نفس اوراوہام وخرافات کے ہم پلہ وہم وزن ہے ،زیربحث آیات میں اس لفظ سے مراد یہی معنی ہے ۔
دوسرا معنی وہ گمان ہیں جو معقول اور پسندیدہ ہیں اوراکثر اوقات واقع کے مطابق اورروز مرہ کی زندگی میں عقلاء کے کاموں کی بنیاد ہوتے ہیں،مثلاً محکمہ عدالت میں گواہوں کی گواہی ،یااہل خبر ہ کاقول ،یا، ظاہری الفاظ اوراسی قسم کی دوسری باتیں کہ اگراس قسم کے گمانوں کونوع بشر کی زندگی سے نکال لیں ، اور صرف قطعی یقین پرہی تکیہ کریں تونظام زندگی کلی طورپر بکھر جائے گا ۔
اس میں شک نہیں کہ اس قسم کاظن وگمان ان آ یات میں مرادنہیں ہے، اورخودانہیں آیات میں اس معنی پر بہت سے شواہد موجود ہیں ،دوسرے لفظوں میںدوسری قسم حقیقت میں ایک قسم کاعرفی علم ہے نہ کہ گمان وظن ، تواس بناپرجولوگااس آ یت (انَّ الظَّنَّ لا یُغْنی مِنَ الْحَقِّ شَیْئاً) اسے اور اسی قسم کی دوسری آیات سے حجیت ظن کی کلی طورپر نفی کے لیے استد لال کرتے ہیں، وہ قابل قبول نہیں ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ فقہاء اور اصولیین کی اصطلاح میں ظن اعتقاد راحج کے معنی میں ہے ،(وہ اعتقاد جس میں احتمال کاایک پہلو انسان کی نظر میں ترجیح رکھتاہو) لیکن لغت میں اس کاایک وسیع مفہوم ہے یہاں تک کہ یہ وہم اورضعیف احتمالات پربھی بو لا جاتاہے ،اور بت پرستوں کاظن اسی طرح کاتھا، کوئی سی بیہودہ بات ایک ضعیف احتمال کی صورت میں ان کے دماغ میں ظاہر ہوتی تھی ، اس کے بعد ہوائے نفس اس پر عمل کرنے کے لیے کھڑی ہوجاتی تھی ،اوراس کوزینت دیتی تھی ، اور دوسرااحتمال جواس کے مقابلہ میں ہوتاتھاوہ زیادہ قوی ہوتاتھا، اس کوبھلا دیتے تھے ،اوروہ آ ہستہ آہستہ ایک راسخ عقیدہ کی صورت اختیار کرلیتاتھا ،حالانکہ اس کی کچھ بھی بنیاد نہیں ہوتی تھی ۔
اس کے بعد یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ یہ گروہ اہل استد لال ومنطق نہیں ہے ،اورحب ِ دنیااور خدا کی یاد کو بھلا دینے انہیں ان ان موہومات اورخرافات کی گندگی کے گڑھے میں دھکیل دیاہے ،مزیدکہتاہے ،: جب ایساہے توتم بھی ان لوگوں سے جنہوںنے ہماری یاد سے پہلوتہی کی ہے اوروہ دنیا کی مادی زندگی کے سوااور کسی چیزکے طالب نہیں ہیںمنہ پھیر لواور ان کی بالکل پروانہ کرو کیونکہ وہ گفتگو کرنے کے لائق ہی نہیں ہیں(فَأَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّی عَنْ ذِکْرِنا وَ لَمْ یُرِدْ ِلاَّ الْحَیاةَ الدُّنْیا) ۔
بعض مفسرین کے عقیدہ کے مطابق ذکر خدا سے مراد قرآن ہے ،اور کبھی یہ احتمال دیاگیاہے ،کہ اس سے مراد منطق اورعقلی دلائل ہیں، جوانسان کوخدا تک پہنچاتے ہیں ، یہ احتمال بھی دیاہے کہ اس سے مرا د وہی یادخدا ہے جوغفلت کانقطۂ مقابل ہے ۔
لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ تعبیر ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے ،جس میں خدا کی طرف ہرقسم کی توجہ شامل ہے چاہے وہ توجہ قرآن کے ذریعہ ہو ،یادلیل عقل سے ہو، چاہے سنّت کے طریق سے ہو، یاقیامت کی یاد کے ذریعہ ہو ۔
ضمنی طورپر یہ نکتہ بھی آ یت سے معلوم ہوتاہے کہ یاد خدا سے غفلت اورمادیات اور رز ق وبرق دنیا کی طرف متوجہ رہنے کے درمیان ایک رابط ہے اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے مقابل تاثیر ہے خداکی یاد سے غفلت انسان کودنیا پرستی کی طرف ہانک کرلے جاتی ہے،جیساکہ دنیا پرستی انسان کوخداکی یاد سے غافل کردیتی ہے ۔اوریہ دونوں ہواپرستی کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ اورطبعی طورسے وہ خرافات جوان کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں وہ انسان کی نظر میں جلوہ دکھاتے ہیں اورآہستہ آہستہ ایک عقیدہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
شاید یہ بات یاد دلانے کی ضرورت نہ ہو کہ اس گروہ سے منہ پھیرلینے کاحکم تبلیغ رسالت کے ساتھ جوپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاوظیفہ اصلی ہے ہرگز اختلاف نہیں رکھتا ، چونکہ انذار وتبلیغ وبشارت ایسے موقعوں کے ساتھ مخصوص ہیں جہاں اثر کرنے کا کچھ نہ کچھ احتمال ہو، جہاں اثر کے نہ ہونے کایقین ہووہاں اپنی توانانیوں کوفضول صرف نہیں کرناچاہیے،اوراتمام حجت کے بعد اعراض کر لیناچاہیے ۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ یہ حکم پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ،بلکہ یہ راہ حق کے تمام ندا دینے والوں کوشامل ہے تاکہ وہ اپنی قیمتی تبلیغ توانا ئیوں کوصرف ایسے مقام پرصرف کریں جہاں اثر کی اُمید ہو، لیکن مغرور وسیاہ دل دنیا پرست جن کی ہدایت کی کوئی امید نہ ہوان کواتمام حجت کے بعدان کی حالت پرچھوڑ دیناچاہیے ،تاکہ خداان کے بارے میں فیصلہ کرے ۔
آخری زیربحث آ یت میں ا س گروہ کے فکری انحطاط کوثابت کرنے کے لیے مزید کہتاہے ۔: یہ ہے ان کی معلومات کی آخری حد (ذلِکَ مَبْلَغُہُمْ مِنَ الْعِلْم) ۔
ہاں!ان کے افکار کی بلندی یہاں پرآکر ختم ہوجاتی ہے،کہ ملائکہ کے بارے میں خداکی بیٹیاں ہونے کا افسانہ گھڑیں ، اور اوہام وخرافات کی تاریکیوں میں ہاتھ پاؤں مارتے پھریں ، اور یہ ہے ان کی ہمت کاآخری نقط کہ خدا کوبھلا کردنیا کی طرف رخ کرلیں، اوراپنے تمام انسانی شرف اورحیثیت کودرھم ودینا ر کے بدلے میں فروخت کرڈالیں ۔
آخرمیں کہتاہے : تیرا پر وردگاران لوگوں کوجواس کے راستے سے گمراہ ہوگئے ہیں اچھی طرح سے پہچانتاہے ،اورہدایت یافتہ لوگوں کوبھی اچھی طرح سے جانتا ہے نَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبیلِہِ وَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اہْتَدی ) ۔
ذلِکَ مَبْلَغُہُمْ مِنَ الْعِلْم کاجملہ ہوسکتاہے کہ بت پرستی اور فرشتوں کوخدا کی بیٹیاں سمجھنے جیسی خرافات کی طرف اشارہ ہو،یعنی اس گروہ کی آخری آگاہی اور علم یہی موہومات ہیں ۔
یادنیاپرستی اوران کے مادیات کے چنگل میں اسیر ہونے کی طرف اشارہ ہو، یعنی ان کاانتہائی فہم اورشعور یہ ہے کہ انہوںنے خواب وخور،عیش ونو ش ،اورفانی وزود گذر متاع اورزرق وبرق دنیا پرقیانت کرلی ہے ۔
ایک مشہور دعامیں جوماہ شعبان کے اعمال میں پیغمبر گرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل ہوئی ہے یہ آ یاہے :
ولاتجعل الدنیا اکبرھمنا ولا مبلغ علمنا
خداوندا!دنیاکوہمارے لیے سب سے بڑی فکری مشغو لیت ،اورہمارے علم وآگا ہی کی انتہا قرار نہ دے (١) ۔
آ یت کااختتام اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ، کہ خداگمراہوں کوبھی اچھی طرح پہچانتاہے اورہدایت یافتہ لوگوں کوبھی ایک کواپنے غضب کامشمول بناتاہے اور دوسرے کواپنے لطف کامشمول قرار دیتاہے ،اورقیامت میں ہرایک کواس کے اعمال کے مطابق جزادے گا ۔
 ١۔یہ دعا اس اشارہ کے بغیر کہ یہ ماہ شعبان کے اعمال سے مربوط ہے ۔مجمع البیان اور بعض دوسری تفسیروں میں بھی زیربحث آیت کے ذیل میں آئی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma