مفسرین نے پہلی آ یت کے لیے توبہت سی الگ شان ِ نزول بیان کی ہیں اور بعد والی آ
یات کے لیے دوسری شان ِ نزول ۔
ان میں سے پہلی آ یت کے لیے جوشان نزول بیان کی ہیں .یہ ہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ
وآ لہ وسلم ) خیبر کی طرف روانہ ہوتے وقت کسی کو مدینہ میں اپنی جگہ
متعین کرناچاہتے تھے ، لیکن عمر نے کسی دوسرے آدمی کو متعین کرنے کی تجو ویز پیش کی
اس پر اُوپر والی آ یت نازل ہوئی اور یہ حکم دیا کہ تم خدا اور پیغمبر سے آگے نہ
بڑھا کرو ( ١)
بعض دوسرے مفسرین نے یہ کہاہے کہ : مسلمانوں کی ایک جماعت کے لوگ کبھی کبھی یہ کیا
کرتے تھے کہ اگر اس قسم کامعنیٰ ہمارے بارے میں نازل ہوتا تو بہتر تھا ، اس پر اوپر
والی آ یت نازل ہوگئی ، اور کہا کہ تم خدا اوراس کے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) سے آگے نہ بڑھاکرو ( ٢) ۔
بعض دوسروں نے یہ کہاہے : یہ آ یت بعض مسلمانوں کے اعمال کی طرف اشارہ ہے . جنہوںنے
اپنی عبادت کے مراسم میں سے بعض کو وقت سے پہلے انجام دے دیاتھا تو اوپر والی آ یت
نازل ہوئی اورانہیں اس قسم کے کاموں سے منع کیا (٣) ۔
باقی رہی دوسری آ یت تواس کے بارے میں یہ کہاہے کہ قبیلہ بنی تمیم کاایک گروہ اوران
کے اشراف مدینہ میں وارد ہُوئے اور جب مسجد نبوی میں داخل ہُوئے تو بلند آ واز کے
ساتھ ، ان حجروں کے پیچھے سے ،جوپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رہائش گاہ تھے
، پکار پکار کرکہا : یامحمد اخرج الینا اے محمد ! باہر آ !
اس چیخ پکار ، اور غیر مودٔ بانہ تعبیروں سے پیغمبر کودُکھ ہوا ، جس وقت آپ باہر آ
ئے توانہوں نے کہا: ہم اس لیے آ ئے ہیں تاکہ اپنافخرتجھ پرظاہر کریں ،اجازت دے تاکہ
، ہمارا شاع اور خطیب بنی تمیم کے افتخارات بیاں کرے پیغمبر(صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دی ۔
پہلے ان کاخطیب کھرا ہوا ، اورقبیلہ بنی تمیم کے خیالی فضائل کی بہت سی باتیں بیان
کیں ۔
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثابت بن قیس سے فرمایا( ٤) تم ان کاجواب دو ،
وہ کھڑے ہوگئے اوران کے جواب میں ایک فصیح وبلیغ خطبہ پیش کیا ،جس نے ان کے خُطبہ
کے اثر کوختم کردیا ۔
اس کے بعد ان کا شاعر کھڑا ۂوا ، اوراس نے قبیلہ کی مدح میں کُچھ اشعار کہے
،جن کامشہور مُسلمان شاعِرحسان بن ثابت نے کافی وشافی جواب دیا ۔
اس وقت اس قبیلہ کے اشراف میں سے ایک نے جس کانام اقرع تھا ،کہا :اس شخص
کاخطیب ہمارے خطیب سے زیادہ توانا ہے اوراس کاشاعر ہمارے شاعر سے زیادہ لائق .
اوران کی آواز کی طرز بھی ہم سے برتر و بہتر ہے ۔
اس موقع پر پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ان کے دلوں کو مائل کرنے کے لیے حکم
دیاتواچھے ہدیے انہیں دیئے گئے ، ان تمام باتوں کاان پربہت اثرہُوا ،اورانہوں نے
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی نبوّت کااعتراف کرلیا ۔
زیربحث آ یات پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے گھرکے پیچھے انہیں کی چیخ پکار کے
بارے میں ہیں ۔
ایک دوسری شان ِنزول بھی بیان کی گئی ہے جوپہلی آ یت سے بھی مربو ط ہے ، اوربعد
والی آ یت سے بھی ، اور وہ یہ ہے کہ :
ہجرت کے نویں سال جو عام الوفود تھا . یعنی وہ سال جس میں قبائل کے قسم قسم کے
وفوداسلام قبول کرنے یاعہد و پیمان کرنے کے لیے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم)چنانچہ جس وقت بنی تمیم کے قبیلہ کے نمائندے پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم)کی خدمت میں آ ئے توابوبکر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے سامنے
تجویز پیش کی کہ تعقاع کو( جوان کے اشراف میں سے ایک تھا ) آپ کاامیر بنادیا
جائے اور عمرنے یہ تجویز پیش کی کہ اقرع بن حابس کواسی قبیلہ کاایک دوسراآدمی
امیر بنا یاجائے ۔
اس موقع پر ابوبکر نے عمر سے کہا ، کیاتم میری مخالفت کرناچاہتے ہو؟ عمرنے کہ
،میراہر گز مخالفت کاارادہ نہیں تھا ، اس وقت دونوں نے پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم)کے سامنے زور زور سے چیخنا چلانا شروع کر دیا، جس دپر اوپروالی آ یات
نازل ہوئیں ، یعنی نہ توکاموں میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے آگے بڑھو اور
نہ ہی پیغمبرکے گھر کے سامنے چیخ پکار کرو ( ٥) ۔
١۔ "" تفسیر قرطبی "" جلد ٩ صفحہ ٦١٢١۔
٢۔ "" تفسیر قرطبی "" جلد ٩ صفحہ ٦١٢١۔
٣۔ "" تفسیر قرطبی "" جلد ٩ صفحہ ٦١٢١۔
٤۔ثابت ابن قیس جناب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)وانصار کامشترکہ خطیب تھا ، جیساکہ حسان حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کاخطیب تھا (اسدالغابہ جلد١ ،صفحہ ٢٢٩) ۔
٥۔ "" تفسیر قرطبی "" جلد ٩،صفحہ ٦١٢١ و"" تفسیر فی ظلال القرآن جلد ٧ صفحہ ٥٢٤ وسیرة ابن ہشام جلد ٤ ،صفحہ ٢٠٦ سے آگے (کچھ فرق کے ساتھ ) یہ داستان نقل ہوئی ہے ( یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی آ ئی ہے . صحیح بخاری جز ٦ صفحہ ١٧٢ ،سورۂ حجرات کی تفسیر میں ۔