زیر بحث آ یت میں یہ بیان ہُوا ہے کہ خدافر ماتاہے : فتح مبین کے سایے میں تیرے پہلے
گناہ بھی اورآیندہ کے گناہ بھی بخشش دیئے ہیں، اس بارے میں کہ متقدم اورمتأ خر
(پہلے اور آیندہ کے ) سے کیا مراد ہے ، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔
بعض نے ماتقد م کوآدم وحوا کے عصیان اورترکِ اولیٰ کی طرف اشارہ سمجھاہے ،اور
ماتأ خّر کو امت کے گناہوں کی طرف ۔
بعض دوسروں نے ما تقدم کونبوّت سے قبل کے مسائل سے مربُوط جاناہے ، اور
ماتأ خّر کونبوّت سے بعد کے ساتھ مربوط سمجھاہے ۔
بعض نے ماتقدم کو ان ( گناہوں ) سے جوصلح حدیبیہ سے پہلے ہُوئے تھے ، اور
ماتأ خّر کواُن سے جوصلح کے بعد ہُوئے ، مربُوط سمجھاہے ۔
لیکن اس تفسیر کی طرف توجہ کرتے ہُوئے ،جوہم نے آ یت کے اصل معنٰی کے ب ارے میں خاص
طور پر صلح حدیبیہ کے مسئلہ کے ربط میں . بیان کی ہے ، یہ واضح ہوجاتاہے کہ
اس سے مراد و ہ تمام ناروا نسبتیں اور گناہ ہیںجو وہ اپنے گمان کے مطابق پیغمبر
اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف گزشتہ زمانے میں منسُوب کرتے رہتے تھے
یاآیندہ کرتے ، اوراگریہ عظیم کامیابی نصیب نہ ہوئی ہوتی تو وہ ان تمام گناہوں
کوقطعی و یقینی خیال کرلیتے ، لیکن اس کامیابی کے حصول کے ساتھ گذشتہ نا روا نسبتیں
بھی ختم ہوگئیں ،اوروہ بھی جن کے بارے میں ممکن تھا کہ آ آ یندہ نسبت دیتے ۔
اس تفسیر کاایک دوسراشاہدوہ روایت ہے ، جوامام علی ابن مُوسیٰ الرضا علیہ السلام سے
منقول ہوئی ہے کہ مامون نے جس وقت اس آ یت کے متعلق سوال کیا توامام علیہ السلام نے
جواب میں فرمایا :
مشرکین مکّہ کے نزدیک کسی شخص کاگناہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے
زیادہ سنگین نہیں تھا، کیونکہ وہ ٣٣٠بتوں کی پرستش کیاکرتے تھے ، جس وقت
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں توحید کی طرف دعوت دی توان پر بہت گراں
گزرا ،اورانہوںنے کہا: کیااس نے ہمارے سب خدا ئوں کوایک خدامیں تبدیل کردیاہے ؟ یہ
تو ایک عجیب بات ہے ... ہم نے ہرگز اس قسم کی کوئی بات اپنے آبائو اجداد سے نہیں
سُنی ، یہ توایک بہت بڑا جُھوٹ ہے ۔
لیکن جس وقت خدانے (صلح حدیبیہ کے بعد ) اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے
لیے فتح کردیا ،توخدا نے فرمایا، اسے محمد ہم نے تیر ے لیے فتح مبین فراہم کی ہے
تاکہ توحید کی طرف دعوت دینے کی بناء پر مشرکین عرب کے نزدیک جتنے گناہ تونے پہلے
کیے تھے یا آ یندہ کرے گا ان سب کوبخش دیا،کیونکہ بعض مشرکین مکّہ تواس دن ایمان
لاچکے تھے ، اور بعض مکّہ سے باہر نکل گئے تھے .اورایمان نہیں لائے تھے ،لیکن ان
میں اب توحید کاانکار کرنے کی جرأ ت باقی نہیں رہی تھی، لہٰذاپیغمبر(صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ) کا گناہ ان کی نظر میں بھی کامیابی کی بناء پر بخشا گیا، جس وقت مامون
نے یہ سُنا تو کہا بارک اللہ ، اے ابوالحسن( ١) ۔
١۔ نورالثلقین ، جدل ٥،صفحہ ٥٦)۔