حرم امن خدا کی طرف باز گشت کا وعدہ :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16
یہ سورہ ٴ قصص کی آخری آیات ہیں . ان میں پیغمبرالسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیاگیا ہے . موسٰی بن عمران کی زندگی کے بعض گوشوں اور فرعون اوراس سکے رفقا ء سے جنگ کے حالا ت بیا ن کرنے کے بعد ان میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوبشارت دی گئی ہے نیز انھین نہایت مستحکم دستور العمل دے گئے ہیں ۔
جیساکہ ہم نے سطور بالامیں ذکر کیا ... ان آیات میں سے پہلی آیت (جیسا کہ مشہور ہے ) مقام حجفہ پراس وقت نازل ہوئی ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینے کی طرف سفر کر رہے تھے ۔
ان کاارادہ تھا کہ یثرب جائیں اور اس بستی کو ” مدینة الرسول “ بنادیں . اس مقام پر اسلامی حوکومت کی بنیاد کی پہلی اینٹ رکھیں تاکہ پیام اسلام میں جو انقلابی صلاحیتیں ہیں ، انہیں عمل میں لائیں اوراس مقام کووسیع حکومت الہٰی اوراس کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مرکز قرار دیں ۔
اس عظیم منصوبے کے باوجود آپ کو مکہ سے جودل بستگی تھی وہ رنج وغم کاباعث بنی راہتی تھی اور آپ کواس حرم امن الہٰی سے دور ی سخت ناگوار تھی ۔
ا ن حالات میں آپ کے قلب مطہر پرنور وحی کی تابش ہوتی ہے اورآپ کووطن مالوف کی طرف پاز گشت کی بشارت ددی جاتی ہے ” باین الفاظ “ کہ : وہی ذات جس نے تم پر قرآن کوفرض کیا ، وہ تمہیں تمہارے وطن و مولد ِ کوواپس کردے گی :(ان الذین فرض علیک القرآن لرادک الی معاد ) ۔
تم رنجیدہ خاطرنہ ہو ... وہی خدا جس نے عالم طفولیت میں موسٰی علیہ السلام کو اس کے ماں کے پاس لوتادیا ،وہی خدا جس نے مصر سے دس سال کی جلاوطنی کے بعد اسے ،اس کے وطن کوواپس کردیاتا کہ و ہ چراغ توحید روشن کرے اور مستضعفین کی حکومت قائم کر ے . اور منکرین خدا فرعو نیوں کی طاقت کو بر باد کردے . وہی تم کو بھی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ مکہ کو لوٹادے گا . اور تمہارے ہاتھ سے اس مقدس سرزمین میں چراغ توحید روشن کرائے گا ۔
وہی خدا جس نے تم پر قرآن نازل کیا ،اس کی تبلیغ فرض کی اور تم پراس کے احکامو کو واجب کیا . اس زمین و آسمان کے مالک قادر مطلق خدا کے لیے یہ امور آسان ہیں ۔
اس کے بعد اس مطلب کااضافہ ہے کہ : ان سر پھرے اور متکبر مخالفین سے کہہ دو کہ میر ا خدا ہی بہتر جانتاہے کہ اس کی طرف سے کون ہدایت لایا ہے او ر کون شخص گمراہی میں ہے : (قل ربی اعلم من جاء بالھدی ومن ھو فی ضلا ل مبین ) مقصد یہ ہے کہ راہ ہدایت روشن ہے اور مشرکین کی گمراہی آشکار ہے . یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں عبث ہے خداان کے افعال سے خوب آگاہ ہے اور حق طلب قلوب بھی حقیقت کوخوب جانتے ہیں ۔
اس آیت کی واضح تفسیر یہی ہے کہ جو ہم نے سطور بالامیں بیا ن کی ہے بہت سے مفسرین نے کلمہ ” معاد “ کے متعلق دوسرے احتمالات کی طرف بھی روجو ع کیا ہے . ان کے خیالات یہ ہیں کہ : ۔
” معاد “ سے مراد حیات بعد از موت ہے ، یاسرزمین محشر ، یا خود موت ، یا مقام شفاعت کبرای ، یابہشت یابیت المقدس ( جہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پرگئے تھے ) نیز اس طرح کے بہت سے خیالات ظاہر کیے گئے ہیں . لیکن آیت کے کلیة مطالعے اور سر گزشت مو سٰی علیہ السلام اور بنی اسرائیل پرغور کرنے کے بعد ، اور مذ کورہ شان نزول کے علم کے بعد یہ تمام معانی حقیقت سے بعید نظر آتے ہیں . اس لیے کلمہ ” معاد “ کی تفسیر (بمعنی مقام باز گشت ) سر زمین مکہ ہی درست ہے ۔
علاوہ بریں ، یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ اگر کلمہ” معاد “ کے معنی روز قیامت لیے جائیں تو وہ روز صرف پیمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی سے رو مخصوص نہیں ہے جب کہ آیت کارو ئے سخن صرف جناب پیمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف ہے . نیز یہ کہ ماقبل آیت ( ۸۴ ) میں بروز قیامت اعمال کی جزا اور سزا کا بیان ہے اور یہ اس کے بعد ہے ، اس لیے بھی کلمہ معادہ کا وہ مفہوم نہیں ہو سکتا ہے . بلکہ اس کے برعکس مطلب کاقوی امکان ہے . کیونکہ آیت ماقبل ( ۸۴ ) میں س رائے آخرت میں جزائے ا عمال کاذکر ہے .تو سیاق ِ معانی کاتقاضا یہ ہے کہ اس آیت میں اس دنیا کی کا مرانیوں کاذکر ہو ۔
آیت مابعد (۸۶ ) میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کی طرف سے ایک عظیم ترین نعمت کے عطاہونے کاذکر ہے . چنانچہ فرمایا گیا ہے :
” تمہیں ہرگز امید نہ تھی کہ یہ عظیم آسمانی کتاب تمہیں القاکی جائے گی لیکن یہ تمہارے رب کی رحمت کاتقاضاتھا “ :
)وما کنت تر جواان یلقی الیک الکتاب الارحمة من ربک ) (۲)۔
اس وقت بہت سے لوگوں نے نئے دین کی آمد کی خوش خبری سن رکھی تھی . نیز ، شاید اہل کتاب میں س ے کچھ لوگ اس عنایت الہٰی کے منتظر تھے کہ وحی ان پر نازل ہوگی اورخداانھیںیہ ذمہ داری سپرد کرے گا لیکن اے پیغمبر تمہیں اس کا گما ن بھی نہ تھا .مگر خدانے تمہیں اس کام کے لیے سب سے زیادہ اہل سمجھا کہ یہ دین تمہارے ذریعے سے دنیا میں پھیلے بعض بزرگ مفسرین نے اس آیت کوان آیات سے مربوط سمجھا ہے جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے داستان ِ موسٰی کے بارے میں خطاب کیاگیا ہے . وہ آیات یہ ہیں ۔
وما کنت بجانب الغربی اذ قضیناالی موسی الامر ... ( قصص ، ۴۴) ۔
وماکنت ثاو یافی اھل مدین ...( قصص ،۴۵) ۔
و ماکنت بجانب الطور اذ نادینا ولکن رحمة من ربک ...
(قصص ، ۴۶) ۔
اے رسول تم ہر گز وادی ٴ طور میں موجود نہ تھے اس وقت بھی موجو نہ تھے جہاں ہم نے موسی پر وحی نازل کی تھی...
تم نے اہل مدین میں زندگی نہیں گزاری ...
اور جب ہم نے طور پر موسٰی کووحی کی تھی اس وقت سبھی مود نہ تھے . مگر یہ تمہا رے رب کی رحمت ہے کہ اس نے تمہیں ان حالات کی خبر دی ...
اس تفسیر کے مطابق ” کتاب “ سے مراد سر گزشتِ انبیا ئے ماسبق ہے ۔
مگراس تفسیر اور تفسیر ماسبق میں کوئی تضاد نہیں ہے . بلکہ اسے اس تفسیر کا ایک حصہ ہی سمجھنا چاہیئے .
اس کے بعد ان الفاظ کااضافہ ہے کہ :
اب اس عظیم نعمت کاشکریہ یہ ہے کہ کافروں کی ہرگز مدد نہ کرنا : ( فلاتکونن ظھیرا الکافرین ) ۔
یہ حکم اس مطلب سے ہم آہنگ ہے جسے ہم آیات ماسبق میں حضرت موسٰی علیہ السلامکے متعلق پڑ ھ آئے ہیں کہ موسٰی نے کہا :
”پرورد گار ا ! ا نعمات کی وجہ سے جوتونے مجھے دی ہیں “
میں ہر گز مجرمین کامد د گار نہ بنوں گا ۔
ظالموں کی مدد کرنے کے بارے میں ، ہم نے سورہٴ قصص کی آیت ۱۷ کے تحت مفصل بحث کی ہے ۔
اس سورہ کے آخر میں مختلف استد لالا ت اور تعبیر ات کے ساتھ توحید کوواضح کیاگیا ہے . وہ توحید جو جملہ دینی مسائل کی اصل بنیاد ہے ، وہ توحید جو اصل بھی ہے اور فرع بھی ،جو کل بھی ہے اور جز بھی ۔
ا ن دو آیات میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چار احکامات دیئے گئے ہیں اور خدا کی چار صفات بیان کی گئی ہیں . نیز اس سورة میں جتنے بھی موضو عات پر بحث ہوئی ہے ، یہ آیات ان سب کا تکملہ ہیں :
(ولا یصدنک عک ایات اللہ بعد اذ انزلت الیک ) ۔
اس آیت میں اگر چہ حرف نہی کامرجع کفا رہیں .لیکناس کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ا ن کی ساز شوں اور خلل اندازیوں سے متنبہ رہی جیسے کہ ہم کسی سے کہتے ہیں کہ : کوئی آدمی تمہیں بہکانے نہ پائے . اور مراد یہ ہوتی ہے کہ ان کے دھوکے میںنہ آجانا ۔
اس کے بعد جناب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوحکم دیاجاتاہے کہ جب کہ تم پر آیات الہٰی نازل ہوگئی ہیں توان احکامات پر باستقلال قائم رہو اور کسی قسم کے تردد اور شک کو دل میں نہ آنے دو . امراللہ کی تبلیغ میں جو رکا وٹیں بھی پیش آ ئیں انھیں راستے سے ہٹا دو اور محکم قدموں کے ساتھ مقصد کی طرف بڑھو کیونکہ خدا تمہارے ساتھ ہے اور تمہارا مدد گار ہے ۔
مفسرمعروف ابن عباس کے قول کے مطابق ،اس آیت کی مخاطب توذات پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے لیکن مراد ہیں عام لوگ جیسے کہ ایک عربی ضرب المثل ہے ” ایاک اعنی واسمعی یاجارہ “ میری مراد تو ہے مگر اے ہمسائی تو بھی سن لے . یہ حکم جو نفیکاپہلو رکھتاہے ، اس کے بعد اثباتی انداز سے حکم دیا ہے کہ اپنے پروردگار کی طرف دعوت دے ( وادع الی ربکہ ) ۔
وہ خدا جو تیرامالک ہے ،توجس کے اختیار میں ہے ، وہی تیرا مربی اور تیر ی پر ورش کرنے والا بھی ہے . اس حکم کے بعد کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگو ں کو خدا کی طرف دعوت دین م ہر قسم کے شرک اور بت پرستی کی ممانعت کی گئی ہے . چنانچہ کہاگیا ہے کہ قطعا مشرکین میں س ے نہ ہونا . ( ولا یکونن من المشرکین ) ۔
یعنی راہ توحید قطعی آشکار ا اور نورانی ہے اور اس پر چلنے والے ہی راہ مستقیم پر ہیں ۔
بالا آخر چوتھا حکم ہر قسم کے شرک کی نفی پرایک تاکید مکرر ہے ، خدا فرماتاہے کہ خدا کے ساتھ بھی دوسرے معبود کومت پکار : ( ولا یدع مع اللہ الھا اخر ) ۔
الغرض یہ پے درپے احکام جن میں سے ہرایک دوسرے حکم کا موکد ہے ، اسلامی پروگرام میں عقیدہ ٴتوحید کی اہمیت کوروشن کرتے ہیں کیونکہ جب تک عقیدہ ٴ توحید پوری طرح دلنشین نہ ہو ،تمام عقائد و اعما ل بر باد ہیں ۔
قرآن میں ان چار احکامات کے ذکر کے بعد خداکی چار صفات کا ذکر ہے کہ وہ لوازم عقیدہ ٴ توحید میں س ے ہیں :
۱۔اول : یہ کہاگیا کہ ” اس کے سوا کوئی معبود نہیں ( لاالہ الا ھو ) ۔
۲۔دوسرے : اس کی ذات پاک کے علاوہ ہر چیز فانی اور نابود ہونے والی ہے : ( کل شیٴ ھالک الا وجھہ ۹ ۔
۳ ۔تیسرے : دنیا ئے تکوین و تشریع میں حکم اور حاکمیت اسی کی ذات سے مخصوص ہے :( لہ الحکم ) ۔
۴۔ چوتھے : آخر الامر ہم سب کی باز گشت اسی کی طرف ہے :( والیہ ترجعون ) ۔
اس امر کا امکان عقلی موجو د ہے کہ آخر ی تین صفات اثبات توحید اور ہر قسم کی اس بت پرستی کوترک کرنے کی دلیل ہو جس کا ذکر صفت اول میں کیاگیا ہے ۔
کیونکہ ... ہم سب فانی ہیں اور بقاصرف اسی کی ذات کے لیے ہے ۔
کیونکہ ... نظام ہستی کی تدبیر اور کا ئنات کی حاکمیت صرف اسی کے لیے ہے ۔
کیونکہ ... قیامت میںہم سب کی باز گشت اسی کی طرف ہوگی . اس کے مقابلے میں معبود ان مجازی کی بھلا کیا حقیقت ہے اور سوائے اس کے اور کونسی چیز قابل پرستش ہے ؟
” کل شی ء ھالک الا وجھہ “ کی تفسیر میں بڑ ے بڑے مفسرین نے گو ناں گوں خیالات کااظہا ر کیاہے . ا ن آرائے مختلف کامحور دوکلمات ” وجہ اور ھالک “ ہیں . کیونکہ لغوی اعتبار سے کلمہ ” وجہ “ انسان کے جسم کے اس احصہ کے لیے بولاجاتاہے جسے چہرہ کہتے ہیں یعنی انسانی صورت .لیکن جس وقت یہ کلمہ خدا کے لیے استعمال ہوتاہے تو اس سے مراد اس کی ذات ہوتی ہے ۔
کلمہ ” ھالک “ کامادہ ” ہلاک “ ہے جس کے معنی موت اور نابودی کے ہیں .ان معانی کے پیش نظر اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ذات الہٰی کے سوا موجو د ات میں س ے ہر شے فنا ہوجائے گی . یہ ” فنا “ کائنات کے اختتام پر منحصر نہیں ہے بلکہ بحالت موجودہ بھی اس کے مقابلے میں ہر شے فانی اور معدو م ہے ... کیونکہ جملہ ممکنا ت اپنے وجو دکے لیے اسی کی محتاج ہیں . اور لحاظہ بہ لحاظہ اسی سے فیض و جود حاصل کرتی رہتی ہیں . ان کاقیام بذات خود نہیں ہے ، بلکہ یہ ارادہٴ الہٰی ہے ۔
اگر نازی کند یکدم فرد ریزند قالبہا
اگر مشیت ایزدی مائل بہ فنائے ممکنات ہو تو وہ ایک لمحے میںفنا ہوجائیں ۔
علاوہ بریں ... کائنات میں تمام موجودات ہروقت متغیر ہورہی ہیں اور ا ن کی کیفیت بدلتی رہتی ہے . یہاں تک کہ ایٹمی نظر یے کے مطابق (یعنی حرکت جوہری ) ہرشے کی ماہیت تغیر اورحرکت ہی ہے . ہم جانتے ہیں کہ تغیر اورحرکت سے مراد ہے کہ پر شے ہر لمحہ فنا او ر وجو د تازہ مرحلے سے گزرتی رہتی ہے . یعنی موجودات جہاں ہر لحظہ مرتے اورزندہ ہوتے رہتے ہیں ۔
بنا بریں جملہ موجودات اپی کیفیت حالیہ میں بھی ” ھالک “ اورفانی ہیں .صرف ذات الہٰی وہ ہے جس میں تغیر وفنا کودخل نہیں ہے اور اس کی ذلت مقدس استقلال محض ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ جب اس دنیا کاوقت آخر آئے گا توہر موجود فنا اور نیستی کا تسلط ہوگا . جیساکہ قرآن میں فریایاگیا ہے :
کل من علیھافان ویبقی وجہ ربک ذو الجلال و الا کرام
زمین پررہنے ولاہر وجود فناہوجائے گا صرف خداکی ذات ذو الجلال ہی باقی رہ جائےگی(رحمن ،۲۶ ۲۷) ۔
صرف اہل زمین ہی نہیں بلکہ اہل آسمان بھی فنا ہوجائیں گے :
ونفخ فی الصو ر فصعق من فی السموات ومن فی الارض
اور جس وقت صور پھونک جائے گا تو وہ سب کہ جو آسمان میں زمین میں ہیں مرجائیں گے ( زمر ۔ ۶۸) ۔
یہ تفسیر اس آیت اور دیگر آیات کے ظاہر ی معنٰی سے ہم آہنگ ہے لیکن بعض مفسرین نے اس آیت کی اور تفاسیر بھی لکھی ہیں .ان میں سے بعض یہ ہیں : ۔
کسی نے کہا ہے کہ”وجہ “ سے مراد عمل صالح ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ :
انسان کے تمام اعمال ” اس عمل کے سواجو لوجہ اللہ کیاگیاہو “ضائع ہوجائیں گے ۔
بعض دیگر حضرات نے کہا ہے ” وجہ “ نہ معنی ٴ دین ہے . اہل اعتبار سے آیت کامفہوم یہ ہے کہ بروز قیامت جملہ شریعتیں باطل اور فنا ہوجائیں گی .بجز اللہ کے دین کے اور آیت میں کلمہ ” لہ الحکم “ کے معنی حاکمیت تشریعی سمجھے ہیں اور اسے اس مفہوم کے لیے کلمہ تاکید شمار کیاہے . اسی طرح جملہ ” وا لیہ ترجعون “ سے اخذ شریعت میں خد ا کی طرف رجوع کرنا مراد لیاہے اور یہ سمجھا ہے کہ یہ جملہ ا ن معنی پرایک مکرر تاکید ہے (۳) ۔
ہم نے اس آیت کی تفسیر میں ، سطور مافوق میں جو کچھ کہاتھا ، یہ تفاسیر جن کا ہم نے بعد میں ذکر کیااس کے منافی نہیںہیں کیونکہ جب ہمیںیہ علم ہوگیا کہ اس عالم جو چیز باقی رہ جائے گی وہ صرف ذات الہٰی ہوگی . تواس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ جو شے کسی طرح بھی اس کی ذات سے متعلق ہے وہ بھی کیفیت بقا و ابدیت اختیار کرلے گی ۔
رہبر ان الہٰی ابھی بذات خدا مر بوط ہیں اس لیے وہ بھی جاو دانی ہیں . خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شے بھی جوذات الہٰی سے تعلق اور ربط رکھتی ہے وہ فنا اور ہلاکت سے محفوظ رہے گی . ( یہ مقام غور فکر ہے )

۱۔تفسیر مجمع البیان، تفسیر کبیر فخررازی ،تفسیر قرطبی ،تفسیر مجمع البیان اور دیگر تفاسیر ۔
۲ ۔ بعد مفسرین نے اس مقام پر کلمہ ” الا “ کواستثنی کے معنی میں س مجھا ہے . اس بناء پر وہ مستثنی منہ کے حذف اور مقدر ہونے کے قائل ہوئے ہیں . دوسرے گروہ نے کہاہے کہ ” الا “ اس مقام پر ” لکن “کے معنی میں ہے اوران معنی میں استدراک کا پہلو نکلتا ہے اور یہ معنی سیاق کے قریب ترہیں ۔
۳ ۔تفسیر نور ا ثقلین میں اس آیت کے ذیل میں متعدد روایات کا ذکر ہے .ان میں سے بعض میں ”وجہ “ سے مراد دین خدا ہے اور بعض میں مراد رہبر ان الہٰی اور بعض میں وہ چیزیں جو خدا سے منسوب ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma