۲۔ دوسروں کے دلوں میں نفوذ کاطریقہ :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16
دلوں کو مسخر کرنے اور دوسروں کے افکار میں کلمتہ الحق کے نفوذ کے لیے صر ف قومی اور مستحکم استدلال ہی کافی نہیں ہے . بلکہ مدّمقابل سے رو در رو ہونے اوراس سے گفتگوکرنے کے اسلوب کوبھی عمیق ترین اثر پیدا کرنے میں دخل ہے ۔
کیونکہ بہت سے لوگ ہیں جو نہایت دقیق او ر مو شگاف بحث کرسکتے ہیں اورمسائل علمی سے باخبراورماہر ہیں . لیکن چونکہ وہ بطور احسن اور نتیجہ بخش بحث کرنے کے اسلوب سے واقف نہیں ہیں . اس لیے ان کی گفتگو دوسروں کے دلوں میں بہت کم اثر کرتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ دوسرے کو قائل کرنے کے لیے صرف اس کی عقل و فکر کو مطمئن کرنا یا اسے لاجواب کردینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ کلمئہ ھق کے کسی کی شخصیت میں اتر نے کے لیے اس کی تسکین جذ بات ضرور ی ہے کیونکہ انسان نصف شخصیت کی تعمیرجذبات و احساسات سے ہوئی ہے ۔
اس بات کو دوسرے الفاظ میں بو ں کہاجاسکتا ہے کہ مطالب ِ گفتگو کاصرف کیفیت شعور میں اتر نا کافی نہیں ہے بلکہ انھیں نفس کے تحت شعور کا حصہ بن جانا چاہیئے ۔
ابنیا ء کراماوربالخصوص پیمبرا سلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ ہدیٰ کے حالات پر غور کرنے سے خوب واضح ہوتا ہے دکہ یہ بزرگوار اپنے تبلیغی اورتربیتّی مقاصد کو حاصل کرنے اور لوگوں کے قلوب میں کلمئہ حق کے نفوذ کے لیے اخلاق اجتماعی اور نفسیاتی اصولی کو پیش نظر رکھتے تھے . ان کالوگوں سے گفتگو کرنے کاطریقہ ایساتھاکہ وہ بہت جلد انہیں اپنے مقصد کی طرف متوجہ اورجذب کرلیتے تھے . اگر چہ بعض حضرات آئمہ کے ایسے اثرات کو معجزہ قرار دینا چاہتے ہیں . لیکن حقیقت یہ نہیں ہے . اگر ہم بھی لوگوں سے گفتگو کرنے میں ان ہی کے شیوئہ بحث اورسنّت و روش کو اختیار کریں تو بہت جلد انھیں متاثر کرسکتے ہیں اور ان کی روح گہرائی میںنفوذ کرسکتے ہیں ۔
پمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق قرآن میں بصراحت مذکور ہے ۔
فبما رحمة من اللہ لنت لھمولو کنت فظا غلیظا القلب لانفضو امن حوالک ۔
یہ رحمت الہٰی ہے کہ توان کے لیے نرم خوہے اگر تو سخت اور سنگدل ہوتا تو یہ لوگ تیرے پاس سے منتشر ہوجاتے ( آل عمرا ن . ۱۵۹) ۔
اکثر دیکھاگیا ہے کہ بعض لوگ گھنٹوں بحث اور گفتگو کے بعد نہ صرف یہ کہ اپنے مذاکرات میں کامیاب نہیں ہوتے بلکہ اس کے برعکس مدّ مقابل اپنے عقیدئہ باطل میں س خت تراور زیادہ متعصب ہو جاتا ہے .محض اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنی بحث میں ” روش احسن“ کو ملحوظ نہیں رکھا ۔
بحث میں س ختی ، اپنی برتری کااثبات ، دوسرے کی تحقیر ، اظہار کبرو غرور،دوسروں کے عقاید و خیالات کاعدم احترام اور بحث میں خلوص کافقدان یہ سب باتیں مباحثہ میں انسان کی شکست کا باعث ہوتی ہیں.لیکن اخلاق اسلامی کے مباحث میں ” جدال “ اور ” مرا“ کی تحریم کے تحت ایک بحث کاذکر آتا ہے .اس سے مراد ایسی بحث ہے جس میں حق جوئی اور حق طلبی کی نیت نہ ہو بلکہ اس کی عابت لفظی جنگ ،اپنی برتری کااثبات اوراپنی بات کی پچ ہو ۔
” جدال “اور ”مراء “ کی حرمت ان کے اخلاقی اور معنوی کے علاوہ اس لیے بھی ہے کہ اس قسم کے بحثوں سے فکر ی ارتقانہیں ہوتا۔
” جدال “ اور ”مراء “ کی حرمت تویکساں ہے .مگر علمائے اسلام نے دونوں میں فر ق کیاہے . انھوں نے ”مراء“ کو بمعنی اظہار فضل و کمال اور ”جدال “ کو ایسا و تیرہ کہاہے جو دوسرے کی تحقیر کے ہو .نیز ”جدال “ بحث میں ابتدائی حملے کو کہتے ہیں اور ”مراء “دفاعی حملے کوکہتے ہیں ۔
علاوہ ازیں ... علمی مسائل میں بحث کرنے کو ” جدال “ کہتے ہیں .اور ” مراء “ عام ہے خواہ بحث علمی ہو یا غیر علمی . البتہ” جدال ومراء “ کی ان تفاسیر میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔
بہر حال مخالفین سے بحث و مجادلہ کبھی تو ” جدال بہ احسن “ کے اصول پرکیاجاتا ہے .اوروہ ایسی بحث ہوتی ہے ،جس میں ان شرائط کو ملحوظ رکھا جاتاہے جن کاہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے اورکبھی وہ بحث ” غیراحسن “ ہوتی ہے . اوروہ ایسی بحث ہے جس میں شرائط مذکورہ کو فراموش کردیا جاتاہے ۔
اب ہم اس گفتگو کو چند آموز اور ناطق روایات لکھ کرختم کرتے ہیں ۔
جناب رسالت مآب صلی للہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے آپ علیہ اسلام فرماتے ہیں :
لایستکمل عبد حقیقة الایمان حتّی یدع المراء وان کان محقا ۔
کو ئی آدمی بھی بطور کمال حقیقت ایمان کو نہیں پاتا تاو قتیکہ وہ ” مراء “ کوترک نہ کرے خواہ وہ حق پر ہی ہو (1)۔
ایک اور روایت میں مذکورہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پیغمبرنے اپنے فرزندسے کہا :
” یابنّی ایاک و المر اء فانہ لیست فیہ منفعة وھو یھیج بین الا خوان العداوة “
اے میرے بیٹے ! تو”مراء “ سے پرہیز کر کیونکہ صر یہی نہیں کہ اس میں کوئی منفعت نہیں بلکہ وہ بھائیوں کے درمیان دشمنی کی آگ پھڑ کاتا ہے (2)۔
ماضل قوم بعدان ھداھم الا اوتو الجدال
کوئی قوم ہدایت یافتہ ہونے کے بعد گمراہ نہیں ہوئی .مگر یہ کہ وہ آپس میں جنگ جویانہ اوراثبات برتری کی ایسی بحثیں کرنے لگے جن میں کوئی حقیقت نہ ہو (3) ۔
1۔ سفینتہ البحار مادہ ” مراء “ ۔
2۔ احیاء العلوم۔
3۔ احیاء العلوم۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma