نمائش ثروت کاجنون :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16
عام طور پر دیکھا جاتاہے کہ مغرور دولت مندلوگ طرح کے جنون میں مبتلا ہوجاتے ہیں . ان میں س ے ایک نمائش ثروت جنون ہے . انھیں اس عمل سے خوشی حاصل ہوتی ہے کہ اپنی دولت کالوگوں پراظہار کریں. مثلا یہ کہ وہ اپنی گراں قیمت سواری پرسوار ہوکے نکلیں اور برہینہ پالوگوں کے درمیان گزریں.ان کے منہ پرگردغبار ڈالتے جائیں اوران کی تحقیرکرتے جائیں. انھیں اس عمل سے تسکین ہوتی ہے ۔
لیکن دولت کی یہی نمائش ان کے بلائے جان بن جاتی ہے . کیونکہ لوگوں کے دلوں میں ان کے خلاف کینہ پرورش پانے لگتا ہے اور جذبات نفرت پید اہوجاتے ہیں . اور اکثر ایسابھی ہوتاہے . کہ یہی شرمناک او ر مکروہ عمل ان کی زندگی کوختم کردیتا ہے یاان کی دولت کوبرباد کرتادیتاہے ۔
ممکن ہے کہ اس جنون آمیز عمل کانتیجہ کسی قسم کی تحریک ہو . مثلا لالچی افراد میں مزید دولت حاصل کرنے کی ہوس میں اضافہ ہو . اور سرکش لوگوں میں فر مانبر داری کے جذ بات پیدا ہوں . مگر اہل ثروت ، نمائش دولت کے عمل کواس تصور کے بغیر انجام دیتے ہیں . درحقیقت ان کاعمل بھی ایک قسم کی ہوس ہوتاہے . اس میں کسی سوجھ بوجھ کاکوئی دخل نہیں ہوتا ۔
بہرحال قارون بھی اس قانوں سے مستثنی نہ تھا . بلکہ جنون نمائش ثروت کاایک واضح نمونہ تھا . قرآن میں زیر بحث آیات میں ایک جملے کے اندر قارون کی اس کیفیت کو بیان کیاگیا ہے . قارون پوری زیب و زینت سے اپنی قوم کے سامنے نکلا :
( فخرج علی قومہ زینتہ) ۔
کلمہ ” فی زینتہ “ اس حقیقت کاآئینہ دار ہے کہ اس نے اپنی پوری قوت اور توانائی اس کام پر صرف کرد ی تھی کہ وہ اپنی تما م دولت و آرائش کی لوگوں کے سامنے نمائش کرے اور یہ بات محتاج ذکر نہیں کہ اتنی دولت کامالک شخص جب نمود حشمت کاارادہ کرے تو وہ کیا کچھ کرسکتاہے ۔
کتب تواریخ میں اس واقعے کے متعلق بہت سے افسانے اور داستانیں ذکر ہوئی ہیں . بعض مئو رخین نے لکھا ہے کہ قارون چار ہزار خادموں کی قطا ر کے ساتھ بنی اسرائیل کے درمیان سے گزرا . جبکہ یہ چار ہزا ر خادم گراں قیمت گھوڑوں پرسرخ پوشاک پہنے ہوئے سوا ر تھے . اس کے ساتھ خوش گل کنیز یں بھی تھیں جوسفید خچروں پر سوار تھیں . جن پرسنہری زین کے ہوئے تھے . ان کی پوشاکیں سرخ اور سب طلا کار تھیں ۔
بعض لوگوں نے اس کے خادموں کی تعدار ستر ہزار لکھی ہے اوراسی طرح کی اور باتیں بھی لکھی ہیں ۔
لیکن اگرہم تمام بیانات کومبالغہ آمیز بھی سمجھ لیں پھربھی ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ نمائش دولت کے لیے اس کے پاس بہت سازو سامان تھا ۔
جیساکہ دنیا کا معمول ہے قارون کی جاہ وحشمت کودیکھ کرلوگوں کے درگروہ ہوگئے .دنیا پرسب اکثر یت نے جب اس خیرہ کن منظر کودیکھا تو ان کے دل تمنا ئیں مچلنے لگیں . انھوں نے ٹھنڈی آہ بھری او ر کہنے لگے کہ کاش وہ بھی قارون جیسی دولت کے مالک ہوتے . خواہ ایک دن ، ایک ساعت یاایک لمحے ہی کے لیے یہ شکوہ نصیب ہوتا . آہ ! اس کی کیسی شیریں ، جذاب ، نشاط انگیز اور لذت بخش زندگی ہے !
چنانچہ قرآن میں فر مایاگیاہے : جولوگ دنیا وی زندگی کے طلب گار تھے . انھوں نے کہاکہ کاش ہمارے پاس بھی اتنی دولت ہوتی جتنی قارون کے پاس : ( قال الذین یریدون الحیوة الدنیایالیت لنامثل مااوتی قارون ) ۔
حقیقت میں اس کے پاس نودولت کافراواں حصہ ہے ( انہ لذو حظ عظیم ) آفرین ہے قارون پراور اس کی بے پناہ دولت پر ، واہ اس کاکیا جاہ و جلال ہے ، اور کتنے خادم اور نوکر چاکر ہیں ، تاریخ میں اس جیساکوئی شخص نہیں ہے . یہ عظمت اسے خدانے عنایت کی ہے . غرض لوگ اسی طرح کی باتیں کرتے تھے ۔
درحقیقت اس وقعے میں امتحان کی ایک بہت بڑی بھٹّی جل رہی تھی . اس بھٹّی کے بیچ قارون تھ. تاکہ وہ اپنی سرکشی اور غرور کاامتحان دے . دوسری طرف بنی اسرائیل کے دنیا پرست لوگ اس بھٹّی کے گردا گرد مقیم تھے ۔
لیکن قارون کے لیے ایک درد ناک عذاب تھا . ایسا عذاب جو ایسی نمائش کے بعد ہوتاہے . یہ عذاب اوج عظمت سے قعرزمین میں لے جاتا ہے ۔
لیکن اس دنیا طلب بڑی گروہ کے مقابلے میں ایک اقلیت اہل علم صاحبان فکر ، پرہیز گار اور با ایمان لوگوں کی بھی وہاں موجو د تھی جن کا افق فکر ان مسائل سے برتراور بالاتر تھا . یہ وہ لوگ تھے جن کے نزدیک احترام شخصیت کا پیمانہ زر اور زور نہ تھا . ان کے نزدیک انسان کی قدرکامعیار اس کے مادی و سائل نہ تھے . یہ وہ لو گ تھے کہ دولت و ثروت کی عارضی او ر مضحکہ انگیز نمود و نما ئش پر تمسخر آمیز طور پر مسکرادیتے تھے ، او ر اسے ایک بے مغز اور غیر حقیقی شے سمجھتے تھے ۔
چنانچہ قرآن میں مذکور ہے کہ : وہ لوگ جنہیں علم و معرفت عطاہوئی تھی . انھوں نے کہاتم پرافسوس ہے ! یہ تم کیا کہہ دہے ہو ؟
ان لوگوں کے لیے جوایمان لائے ہیں اورعمل صالح کرتے ہیں ، خدا کی طرف سے ثواب اور جزا بہتر ہے : ( وقال الذین اوتو العلم و یلکم ثواب اللہ خیر امن و عمل صالحا ) ۔
ان الفاظ پرانھوں نے یہ اضافہ کیاکہ یہ ثواب الہٰی صرف ان لوگوں کانصیب ہے جوصابرین ہیں : ( ولا یلقاھاالا الصابرون ) ۔
اس ثواب الہٰی کے مستحق وہ لوگ ہیں جو دنیا کی زینتوں اور اس کے ہیجان انگیز فرو شکوہ کے مقابلے میں مستقیم المزاج رہتے ہیں . جو نعمات دنیا کی محرو میت کو مردانہ وار استقلال سے برداشت کرتے ہیں . جوناکس لوگوں کے سامنے کبھی سرنہیں جھکاتے او رجو دنیا مین مال و دولت اور خوف و مصیبت کی آزمائش کے مقابلے میں پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہے ہیں ۔
مسلمان ... اس مقام پر ” الذین اوتو االعلم “ مراد بنی اسرائیل کے اہل علم مومنین ہیں . ان میں یوشع جیسے بزرگ افراد بھی تھے ۔
اس مقام پر قابل غور امر یہ ہے کہ ” الذین یریدون الحیوة الدنیا “ ( یہ جملہ گروہ اول کے متعلق آیاہے ) کے مقابلے میں ” الذین یرید و ن الحیوة الا خرة ) نہیں کہاگیا ہے . بلکہ صفت علم کی تخصیص کی گئی ہے . کیونکہ علم ہی وہ اصل ہے جس سے ایما ن و استقامت ، حصول ثواب الہٰی اور دار آخرت میں اجر کاجزبہ پیدا ہوتاہے ۔
” الذین اوتو العلم “ میں ایک ایساابہام بھی ہے کہ یہ قارون کے اس فخر کاجواب ناطق ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالم سمجھتے تھا . قرآن کاجواب یہ ہے کہ : حقیقی عالم یہ لوگ ہیں کہ جن کاافق فکر اس حد تک بلند ہے نہ کہ توخیرہ سراور مغرور ۔
اس جواب میں ہمارے لیے یہ درس بھی ہے کہ علم و دانش ہی جملہ خیرات و برکات کی بنیاد ہے ۔
قارون نے سرکشی اورخدا کی نافرمانی کرکے اپنے آپ کوبہت بڑا سمجھ لیاتھا . مگر تواریخ اور روایات میں اس کے متعلق کچھ اور ہی واقعہ بیان ہواہے جو قارون کی انتہائی بے شرمی کی علامت ہے . اور وہ ماجرایہ ہے کہ : ۔
ایک رو ز حضرت موسٰی علیہ السلام نے قارون سے کہا کہ خدانے مجھے یہ حکم دیاہے کہ تیرے مال میں سے زکوٰة لو ں جو محتاجوں کاحق ہے . جب قارون زکوٰة کی آدائیگی کے اصول سے مطلع ہوا اور اس نے حساب لگایا کہ اسے کتنی کثیر رقم دینا پڑے گی تواس نے انکار کردیا اور پنے آپ کو بچانے کے لیے حضرت موسٰی علیہ السلا م کی مخالفت پر آمادہ ہو گیا . وہ بنی اسرائیل کے دولت مندوں کی ایک جماعت کے سامنے کھڑا ہوا اور کہا :
” اے لوگو! موسٰی چاہتاہے کہ وہ تمہای دولت خود ہضم کرلے . اس نے تمہیں نماز کاحکم دیا تم نے قبول کیا . اس کے دوسرے احکامات بھی تم نے مان لیے . کیاتم یہ بات بھی برداشت کرلوگے کہ اپنی دولت اسے دے دو ! ؟
ان سب نے کہاکہ نہیں . مگر اس سے کس طرح مقابلہ کیاجاسکتاہے ؟
اس وقت قارون کے ذہن میں ایک شیطانی کا خیال آیا .اس نے کہا کہ میں نے ایک بہت اچھی تدبیر سوچی ہے . میرا خیال ہے کہ اس کے خلاف ایک منافی عصمت سازش کرنی چاہیئے . ہمیں چاہیئے کہ بنی اسرائیل میں س ے ایک فاحشہ عورت کو تلاش کرکے موسٰی کے پاس بھیج دیں ، تاکہ وہ اس پر شرمناک تہمت لگادے . بنی اسرائیل نے اس تجویز کو پسند کیا . انھوں نے ایک بدکار عورت کو تلاش کیااور اس کہا کہ :
” تو جو کچھ مانگے گی تجھے دیں گے بشر طیکہ تو یہ گواہی دے کہ موسٰی کاتجھ سے نامشروع تعلق تھا ۔
اس عورت نے بھی اس تجویز کومنظور کرلیا . ایک طرف تویہ سازش ہوئی . دوسری طرف قارون حضرت موسٰی علیہ السلام کے پاس گیا اور ان سے کہاکہ : ۔
” بہتر ہے کہ آپ بنی اسرائیل کوجمع کریں اور انھیں الہٰی احکامات سنائیں “
حضرت موسٰی علیہ السلام نے یہ پیش کش منظور کرلی اور بنی اسرائیل کو جمع کیا ۔
جب لوگ جمع ہوگئے تو انھوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہا کہ : ” آپ ہمیں خدا کے احکام سنائیں “
حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ ’ ’ بجز اس کے کسی کی پرستش نہ کرو “ . صلہ رحم بجالاؤ ، ایسا کرو اور ویسا کرو . زناکار آدمی کے لیے اخدانے یہ حکم دیاہے کہ اگروہ زنائے محضہ کرتاہے تو اسے سنگسار کیاجائے ۔
اس مقام پران بے شرموں نے ، بے ادبی اور گستاخی کی حد کردی اور کہا کہ :
’ ’ ہم جانتے ہیں کہ توخود اس فعل کامرتکب ہواہے . اور فلا ں بد کار عورت سے تیرا تعلق رہا ہے “ ۔
پھرانھوں نے اس عورت کو بلایااور اس سے کہاکہ تو شہادت دے . حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس عورت کی طرف رخ کیا اور کہاکہ ” میں تجھے خداکی قسم دیتاہوں کہ تواصل حال بیان کر“ ۔
جب اس بد کار عورت نے یہ بات سنی تو کانپ گی ٴ ،اس کی حالت بد ل گیٴ اور اس نے کہا :
” جب آپ مجھ سے سچ پوچھتے ہیں تو میں حقیقت حال بیان کرتی ہوں . وہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے مجھے اس بات پر آمادہ کیاتھا کہ میں آ پ کو متہم کرو ، اس کے بدلے میں انھوں نے مجھے ایک کثیررقم دینے کا و عدہ کیا تھا . مگرمیں گواہی دیتی ہوں کہ آپ باعفت ہیں اور اللہ کے رسول ہیں “ ۔
ایک دوسری روایت میں مذکورہ ہے کہ اس عورت نے یہ بھی کہاکہ :۔
لعنت ہومجھ پر ، میں نے اپنی زندگی میں بہت گناہ کیے ہیں مگر کسی پیغمبرپر تہمت نہ لگائی تھی ۔
اس کے بعد اس نے دولت کے دو تھیلے جو ان سازشیوں نے اسے دیے تھے نکال کرسامنے رکھ دیے اور مذکورہ باتیں کیں ۔
حضرت موسٰی علیہ السلام سجدے میں گرگئے اور رونے لگے . اس موقع پر بدسیرت ، سازشی قارون پر عذاب نازل ہوا۔
اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ خدانے قارون کے غرق زمین کرنے کا حضرت موسٰی علیہ السلام کو اختیار دتاتھا (۱) ۔
اس مقام پر قرآن مجید کے الفاظ یہ ہیں کہ : ہم نے اسے اوراس کے گھر کو زمین میںغرق کردیا : ( فخسفنا بہ و بد ار ہ الارض ) ۔
یہ درست ہے کہ جب منکرین کاطغیان اور سرکشی اوران کی جانب سے تہی دست مومنین کی تحقیر و تذ الیل ، اور پیمبرا لہٰی کے خلاف سازش اپنی انتہائی کوپہنچ جاتی ہے تواس وقت دست قدرت الہٰی وارز ہوتاہے اور ان متکبرگستاخوں کی زندگیوں کوختم کردیتاہے ، اور انھیں ایسی سزدیتاہے کہ ان کی افتاد سب لوگوں کے لیے سبب عبرت بن جاتی ہے ۔
کلمہ ” خسف “ اس مقام پرزمین میںگڑ جانے اور زمین میں پوشیدہ ہوجانے کے معنٰی میں استعمال ہوا ہے . انسان کی پوری تاریخ میں ایسے واقعات بارہا پیش آئے ہیں کہ سخت زلزلہ آیااور زمین شگافتہ ہو گئی اور اس نے شہریا آبادیوں کو نکل لیا . مگر اس مقام پر جس حادثہ خسف کا ذکر ہے ، یہ مختلف نوعیت کاہے . اس میں فقط قارون اور اس کے خزانے ہی لقمہ ٴ زمین ہوئے ۔
کیا عجب واقعات ہیں کہ فرعون تودریا ئے نیل کو مو جو ں میںغرق ہوجاتاہے اور قارون شکم زمین میں س ماجاتاہے . اس مقام پردیرنی یہ امر ہے کہ پانی جو مایہ ٴ حیات ہے ، و ہ فرعون اور اس کے ہمکاروں کو نابود کرنے پر مامور ہوتاہے . اور زمین جوانسان کے لیے جائے راحت وہ قارون اوراس کے ساتھیوں کے لیے گورستان بن جاتی ہے ۔
یہ مسلم ہے کہ قارون اپنے گھر میں تنہانہ تھا . وہ اور اس کے اہل خاندان ، اس کے ہم خیال ، اور اس کے ظالم او ر ستمگر دوست سب کے سب شکم زمین میں س ماگئے . لیکن اس وقت اس کی مدد کے لیے کوئی جماعت نہ تھی جو اسے عذاب الہٰی سے بچاسکتی اور وہ خود بھی اپنی کوئی مدد نہ کرسکتاتھا : ( فماکان لہ من فئة ینصرونہ من دون اللہ و ماکان من المنتصرین ) . نہ تواس کے دستر خوان کے مفت خور ، نہ اس کے ولی دوست ، نہ اس کامال و دولت ، ان میں سے کوئی شے بھی اسے عذاب الہٰی سے نہ بچاسکی اور وہ سب کے سب قعرزمین میں سماگئے ۔
آیات زیر نظر میں سے آخری آیت میں چنانچہ فرمایاگیاہے . جولو گ گزشتہ رو ز یہ آرزو گررہے تھے کہ ” کاش ہم اس کی (قارون کی ) جگہ ہوتے جب انھوں نے اسے ( قارون ) اور اس کی دولت کو زمین میں دھسنتے ہوئے دیکھاتو کہنے لگے کہ ہمارے خیالات پرافسوس ہے ( حق یہ ہے کہ ) خدااپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے روزی کو فراخ کردیتاہے اور جس کے لیے چاہتاہے تنگ کردیتاہے . کلید رزق صر ف اسی کے ہاتھ میں ہے ” ( واصبح الذین تمنوا مکانہ بالا مس یقول و یکا ن اللہ یبسط الرزق لمن یشاء من عبادہ و یقد ر ) ۔
( انھوں نے کہا) آج یہ بات ہم پر ثابت ہوگئی کہ جس آدمی کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی کوشش کانتیجہ نہیں ہے بلکہ وہ خدا کی دین ہے . اس کی عطاکا انحصار اس امر پر نہیں کہ وہ کسی سے راضی او ر خوش ہے . اور نہ کسی کی محرومی اس وجہ سے ہے کہ وہ شخص اللہ کی جناب میں بے قدر ہے . اللہ افراد اور اقوام کو دولت دے کر ان کا امتحان لیتاہے اوران کی سیرت اور فطرت کو آشکار کرتاہے ۔
اس کے بعد وہ (رشک کرنے والے ) سوچنے لگے کہ اگر گزشتہ رو ز خدا ان کی دعاقبول کرلیتااور انھیں بھی قارو ن جیسا ہی بنادیتا تو ان کا کیسا عبرت ناک انجام ہوت. لہذا انھوں نے خداکی اس نعمت کا شکر ادا کیا او کہا کہ اگرخدا ہم پر احسان نہ کرتاتو وہ ہمیں بھی زمین میں غرق کردیتا: ( لو لا ان من اللہ علینا الخسفابنا ) ۔
او ر ... گویا کہ کافر ہر گز نجات نہیں پائیں گے : ( و یکادٴ نہ لایفلح الکافرون ) ۔
اب ہم حقیقت کی نظر سے غرور و غفلت اور کفر و ہوس دنیا کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں نیز ہم یہ سمجھ گئے ہیں کہ یہ نمایٴشی زندگیاں جن کا منظر نہایت دل فریب ہوتاہے ا ن کی حقیقت کتنی خوفناک ہے ۔
اس ماجرے کے انجام سے یہ امر بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ آخرکار مغرور کا فراور بے ایمان قارون دنیا سے رخصت ہوا . ہر چند کہ اس کا شمار بنی اسرائیل کے دانشمندوں اور تورات کے تلاوت کرنے والوں میں ہوتاتھا . نیز وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کا رشتہ دار بھی تھا ۔
 ۱۔ وسائل شیعہ ، جلد ۱۲ ، ص ۱۹ ( حدیث ۲ از باب ۷ از ابواب مقدمات التجارة ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma