وہ لوگ جو کامیابیوں میں شریک ہیں مگر مشکلات میں نہیں :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16
گزشتہ آیات میںصالح مومنین اور مشرکین کاذکر تھا .ان آیات زیر نظر میں ایک تیسرے گروہ ”منافقین“ کاذکر ہے .
چنانچہ مذکورہ ہے کہ :” بعض لوگ ایمان کااظہار کرتے ہیں . لیکن مخالفین کی سختیوں اور مظالم کے مقابلہ میں ان میں تحمل اور استقامت نہیں ہوتی .جس وقت راہ خدا میں انھین سختیاں پیش آتی ہیں تووہ ایمان سے روگردان ہوجاتے ہیں اور ان مصائب کو خداکاعذاب سمجھتے ہیں .اور گھبراجاتاے ہیں : ( ومن النا س من یقول امنا باللہ فاذ اوذی فی اللہ جعل فتنةالناس من کعذاب اللہ ) ۔
مگر کس وقت تجھے تہرے رب کی مدد پہنچتی ہے اورتم کامیاب ہوتے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ م تو تمہارے ہی ساتھ اور تمہاری کامیابیوں میں شریک ہیں : (او لیس اللہ باعلم بمافی صدور العالمین)
اس کے آیت میں” امنا “ جمع کاصیفہ استعمال ہوا ہے .جبکہ اس کے بعد ”جعل “ صیغہ ٴ مفرد استعمال ہواہے .شاید صیغہ ٴ جمع اس لیے آیاہوکہ یہ منافقین چاہتے ہوں کہ اپنے آپ کو مومنین میں شمار کرائیں اس لیے وہ آمنا کہتے ہیں . یعنی ہم بھی دوسرے تمام مومنین کی طرح ایمان لائے ہیں ۔
” اوذی فی اللہ“سے مراد ”اوذی فی سبیل اللہ “ہے یعنی وہ لوگ کبھی راہ خدا اور راہ ایمان میں دشمن کی طرف سے مورد آز ار ہوتے ہیں اسے ” فتنہ “ کہاگیاہے۔
آیت زیرنظر میں یہ واضح کیاگیاہے کہ اہل ایمان کو لوگون کی طرف جو آزار پہنچتا ہے وہ در حقیقت عذاب نہیں ہے . بلکہ آزمائش ہے اور یہ آزمائش ان کے تکامل کا وسیلہ ہوتی ہے . اس طرح یہ بھی بتایا گیاہے کہ لوگ ” عذاب “ اور” امتحان“ میں فر ق کرناسیکھیں اوراس بہانے سے کہ مخالفین انھیں س تاتے ہیں،ایمان سے دست پردار نہ ہو ں . کیونکہ مخالفین کی طرف سے ستایاجانا بھی خدا کی طرف سے دنیا ویامتحان کے پروگرام میں شامل ہے ۔
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ جملہ فوق ”شرطیہ “ ہے اور مسلم ہے کہ جملہ شرطیہ کے لیے ”وجود شرط “ لازمی نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر خدا آیندہ تم کو (اہلایمان کو ) کا میابی عطاکرے گا تو یہ کمزور ایمان منافقین ان میں اپنے آپ کو شریک سمجھیں گے ۔
علاو ہ بریں مکہ میں بھی مسلمانوں نے دشمنوں کے مقابلے میں کامیابیاں حاصل کی تھیں. اگر چہ وہ فوجی فتوحات نہ تھیں بلکہ وہ معنوی کا میابیاں تھیں مثلا اسلامی تبلیغات عمومی افکار میں نفوذ کررہی تھیں اورعوام میں السلام کی پیش رفت ہورہی تھی ۔
ان سب باتوں کے علاوہ مومنین کے لیے اذیت و آزارصرف زندگی ہی تک تھا .مدینہ کی زندگی میں اس قسمکی تکالیف کابہت ہی کم اتفاق ہوتاتھا ۔
اس آیت سے ضمنا یہ امر بھی واضح ہواکہ ”منافق “صرف وہی لوگ نہیں ہیں جن کے قلوب میں ایمان توہرگز نہیں ہوتامگر وہ ”ایمان “کا اظہار کرتے ہیں .بلکہ وہ کمزور ایمان لو گ بھی مخالفین کاظلم برداشت نہیں کر سکتے اس لیے جلد ہی اپنے عقیدے سے منحرف ہوجاتے ہیں، منافقین میں شمار ہوتے ہیں۔
اورآیت زیربحث میں بظاہر اسی قسم کے مناقفین کا ذکرہے . اور یہ تصریح موجو د ہے کہ خداان کی نیتوں سے آگاہ ہے ۔
اس آیت کے بعد کی آیت میں پھر مزید تاکید کے لیے یہ اضافہ ہے کہ یقینی طورپر خدامومنین کوپہچانتاہے اورحتمی طورپر وہ منافقین کوبھی پہچانتاہے : (ولیعلمن اللہ الذین امنو ولیعلمن المنافقین ) ۔
اگرسادہ لوح لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حقائق کو چھپاکر احاطہٴ علم الہٰی سے باہر رہ سکتے ہیں تو بہت ہی غلط فہمی میں مبتلاہیں۔
ہم بار دیگر بطورتکرار یہ کہتے ہیں کہ ” اس آیت میں کلمہ “ ” منافق “ کاوجود اس اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ یہ آیات مدینہ میں نازل ہوئی ہیں . یہ امر مسلم ہے کہ کسی جماعت میں نفاق اس وقت پیداہوتاہے جب وہ اقتدار میں آکر حکومت اپنے ہاتھ میںلے لے . اس وقت مخالفین باقتدار جماعت سے مخرف ہو کر زیرزمین جماعت سازی شروع کردیتے ہیں . مگر جیساکہ ہم نے سطور مافوق میں کہا ، نفاق کے بہت وسیع معنٰی .ان معنی میں وہ ضعیف الایمان لوگ بھی شامل ہیں جو تھوٹی سی تکلیف بھی پیش آنے پراپنا عقیدہ بدلیتے ہیں ۔
آیت مابعد میں مشرکین کاایک کمزور اورپوچ نقل کیاگیاہے . جبکہ ابھی تک مشرکین کی تعدادزیادہ تھی .فرمایاگیا ہے :
کافروں نے ایمان والوں س ے کہا : تم آؤ ! ہمارے مذہب کی پیروی کرو . اگراس راہ میں تمہاراکوئی گناہ ہوگا توہم اسے اپنے کاندھوں پر اٹھالیں گے :
(وقال الذین کفرو للذین امنو ااتبعو اسبیلنا ولنحمل خطایا کم ) (۱)۔
اس کا یہ جواب دیاگیاہے کہ یہ امر قضیہ کے حکم میں داخل ہے . یعنی پورا جملہ یوں ہے ” اگرتم ہمارا اتباع کرو تو ہم تمہارے گناہوں کو اتھالینگے مگر ہمارانظر یہ یہ ہے کہ اس امر میں کوئی مانع نہیں کہ انساناپنے آپ کو حکم دے .نیز یہ کہ آمر و مامور یہاں ایک ہی شخص ہے . لیکن دواعتبار سے ۔
ہم آج بھی بہت سے بداندیش لوگوں کودیکھتے ہیں کہ جب وہ کسی کوعمل بدپر آمادہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ، اگراس فعل میں کوئی گناہ ہے تووہ ہماری گردن پر حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ کوئی آدمی بھی کسی دوسرے شخص کاگناہ اپنے ذمّے نہیں لے سکتاہے اور یہ بات ہرگز معقول نہیں ہے . ( کیونکہ) خداعادل ہے وہ کسی کوبھی دوسرے آدمی کے جرم سزا نہیں دے گا . علاوہ بریں ان بے اساس باتوں سے کوئی آدمی بھی اعمال کی ذمّہ داری سے بری نہیں ہوجائے گا ۔
نیز جیساکہ بعض کوتاہ فکر لوگ خیال کرتے ہیں ، ان کی رائے کے برخلاف اس قسم کی بے سرو پاباتیں انسان کے گناہوں کی سز امیں سوئی کی نوک سے بھی کمی نہیں کرسکتیں. اس لیے کسی عدالت میں بھی اگر حج کے سامنے کوئی ایسی بات کہے کہ فلاں آدمی کا گناہ میں اپنے ذمّہ لیتاہوں تواس کی بات کوقبول نہیں کی جائے گی ۔
یہ درست ہے کہ گناہ پرآمادہ کرنے والاشخص بھی گناہ گار کے جرم میں شریک ہے مگر یہ شرکت اس گناہ گار کی ذمّہ داری کو کسی طرح کم نہیں کردیتی ۔
لہذا دوسری آیت میں بصراحت کہاگیاہے : وہ لوگ دوسروں کے گناہوں اور خطاؤں کو پر گز اپنے کاندھوں پر نہ لیں گے : ( عماھم بحاملین من خطایاھم من شی ء انھم لکاذبون ) ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ صدق و کذب جملہ خبریہ میں ہوتاہے .حالانکہ جس جملے پر بحث کررہے ہیں. وہ جملہ خبریہ نہیں بلکہ جملہ انشائیہ ہے (یعنی فعل امر ) اور ہم جانتے ہیں کہ جملہ انشائیہ میںصدق و کذب نہیں ہوتا .پس آقرن یہ کیوں کہتاہے کہ وہ”جھوٹ بولتے ہیں “؟ اس سوال کاجواب ،بیان سابق سے واضح ہوجاتاہے . وہ یہ کہ جملہ امر یہ اس مقام پر ایک جملہ شرطیہ خبریہ بن جاتاہے . جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگرتم ہمارے طرقے کی پیروی کرو تو ہم تمہارے گناہوں کی ذمّہ داری لیتے ہیں . اور ایسے جملے میں احتمال صدق وکذب ہے (۲) ۔
اور اس امر کے پیش نظر کے کہیں ایسانہ سمجھ لیاجائے کہ یہ کفر و شرک ،بت پرستی اورظلم کی طرف دعوت دینے والے لوگ اپنے اعمال کی کوئی سزانہیں پائیںگے ،اس لیے آیت مابعد میں یہ اضافہ کیاگیا: وہ لوگ اپنے گناہوں کاباراٹھائیں گے اوران کے بارپر دوسرے وزنی بار رکا بھی اضافہ ہوگا : ( ولیحملن الثقالھم واثقالھم) ۔
یہ اضافی ار لوگوں کوگمراہ اور دوسروں کو گناہ کی رغبت دلانے کاہوگا . یہ ویسا ہی بارگناہ ہوگا جیساکہ کسی رسم بدکی بنیاد ڈالنے کا ہوتاہے .جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا :
من سن سنةسیئةفعلیہ وزوھاووزر من عمل بھا من غیر ان ینقص من وزرہ شی ء
جو آدمی کسی رسم بد کی بنیاد رکھتاہے تواس رسم بد اور ان سب آدمیوں کاگناہ جواس پر عمل کرتے ہیں اس کی گردن پر ہے . بغیر اس کے ان پر عمل کرنے والوں کے گناہ میں سے ذرہ بھی کمی ہو (۳) ۔
آیت کے اخیر میں یہ اضافہ کیاگیاہے .کہ برو ز قیامت ان سے یقینی طور پر ان کے افتراٴ ت اور دروغ گوئیوں کے بارے میں سوال کیاجائے گااور انھیں ان کاجواب دیناہوگا : ( ولیسئلن یوم القیامة عماکانوا یفترون ) ۔
یہان ایک اورسوال بھی پیدا ہوتاہے کہ جس افتراٴ کاقیامت میں چو اب دینا ہوگا وہ کیاہے ؟
توممکن ہے اس افتراء کامطلب وہ دروغ گوئیاں ہوں جو یہ مشرکین خداکے متعلق کرتے تھے اور کہتے تھے کہ : خداہی نے ہمیں ان بتوں کی پرستش کاحکم دیاہے ۔
یااس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ جو یہ کہتے تھے کہ ”تمہارے گناہوں کوہم اپنی گردن پرلیتے ہیں “ اس قول سے ان کفار کی یہ مراد ہو کہ ”یہ اعمال ہرگز گناہ نہیں ہیں “ اور یہ ایک جھوٹ ہے جس کاانھیں جواب دینا ہوگا . یایہ کہ بروز قیامت ان سے کہاجائے گا کہ آؤ اوران لوگوں کے گناہ اتھاؤ ! تووہ لوگ انکار کردیں گے اورپنے جھوٹ کوظاہر کردیں گے ۔
یایہ مراد ہو سکتی ہے کہ ان کے اقول کا یہ مطلب تھا کہ ہر انسان دوسرے انسان کے گناہوں کا ذمّہ داری لے سکتاہے حالانکہ یہ بات بھی دورغ ہے .کیونکہ ہر آدمی صرف اپنے ہی اعمال کاذمہّ دار ہے ۔
۱۔جملہ ” ولنحمل“ فعل امر ہے . اس پربعض مفسرین نے اعتراض بھی کیاہے . کہ کیایہ ہو سکتاہے کہ انسان اپنے آپ ہی کو حکم دے ؟
۲۔ اس سوال کاجواب ایک اور طرح بھی دیاجاسکتاہے . کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جملہ انشائیہ میں صدق و کذب کاپہلو ہوتاہے اورعرف عام میں بھی دیکھا جاتاہے کہ جب کوئی آدمی کسی کام کاحکم دیتاہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آدمیاس کام سے دلچسپی رکھتاہے . اورجب ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولتاہے تومطلب یہ ہوتاہے کہ وہ حقیقت میں یہ نہیںچاہتا۔
۳۔ تفسیر فخرالدین رازی ، جلد ۲۵ ،ص 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma