ایک عجیب پیشین گوئی :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16
ہ سورہ ان انتیس سورتوں میں س ے ایک ہے جوصرف مقطعہ سے شروع ہوئی ہیں (الم ) .ہم ان حروف مقطعہ کے تفسیر کے بارے میں بار ہابحث کرچکے ہیں بالخصوص سورہ بقرہ ، سورہ آل عمران اورسورہ اعراف کی ابتداء میں ۔
اس مقا م پر جو چیز جاذب توجہ ہے وہ صرف یہ ہے کہ بہت سی ان سورتوں کے برخلاف جو حروف مقطعہ س شروع ہوتی ہیں اورمعابعد ازاں ان میں عظمت قرآن کاذکر شروع ہوجاتا ہے ۔
اس سورہ میںعظمت قرآن کی بحث نہیں ہے بلکہ ایرانیوں کے مقابلے میں اہل روم کی شکست اور پھر ان کی فتح کاذکر ہے . لیکن غور کرنے سے واضح ہوتاہے کہ یہ بحث بھی عظمت قرآن ہی کا بیان ہے . کیونکہ یہ غیبی خبر زمانہٴ مستقبل سے متعلق ہے ، ا س کتاب ِ آسمانی کی عظمت و اعجاز کے دلائل میں شمار ہوتی ہے ۔
خدواند عالم حروف مقطعہ کے ذکر کے بعد فرماتا ہے ، رومی مغلوب ہوگئے : ( غلبت الرّوم ) ۔
اور یہ شکست اس مقام پر ہونی ہے جوتم سے نزدیک ہے : ( فی ادنی الارض ) ۔
” اے ساکنان مکّہ “ تمہارے نزدیک کے علاقہ میں یہ واقعہ نمودار ہواہے . یعنی جزیرة العرب کے شمال سرزمین شام میں . اس علاقے میں جو بصری اور اذر عات کے درمیان واقع ہے ۔
اس مقام سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کلمہ ” روم “ سے مشرقی روم ( موجود ترکی ) مراد ہے نہ کہ مغربی ۔
بعض مفسرین ( مثلا .شیخ طوسی نے تبیان میں ) نے یہ خیال کیا ہے کہ ” ادنی الارض “ سے مراد ملک ایران ہے یعنی یہ شکست ایران اورروم کی سرحد پر واقع ہوئی (1) ۔
کلمہ ” الارض “ کی ابتداء میں الف و لام عہدکے پیش نظر پہلی تفسیر درست معلوم ہوتی ہے لیکن بعض جہات سے جن کا ذکر ہم کریں گے دوسری تفسیر زیادہ صحیح نظر آتی ہے ۔
کلمہ ” ادنی الارض “ سے ایک تیسرامفہوم بھی اخذ ہو سکتاہے جو باعتبار نتیجہ تفسیر دوم سے زیادہ مختلف نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ ” زمین “ سے مراد روم کاعلاقہ ہے یعنی اہل روم نے اپنی سرحد کے قریب ترین علاقے میں ایرانیوں سے شکست کھائی ۔
کلمہٴ ” ادنی“ سے اس شکت کی اہمیت کی طرف اشارہ ہے . کیونکہ اگرکسی فوج کو اس کے ملک کی سرحد سے دور دراز علاقے میں شکست ہوجائے تویہ امر اس قدر اہم نہیں ہے .اہم بات یہ ہے کہ کہ کسی فوج کو اس کے ملک کے قریبی علاقے میں جہاں اسے ہرطر ح کی کمک پہنچ سکتی ہے اور جو مضبوط علاقہ شمار ہو وہاں شکست ہوجائے ۔
اس بناء پر ” فی ادنی الارض “ کے مفہوم میں رومیوں کی شکست کی اہمیت شامل ہے . اس حالت میں مغلوب قوم کے لیے یہ پیش گوئی کہ انھیں آئندہ چند سال میں فتح حاصل ہوگی اور بھی زیادہ اہم ہے اور ایسی پیش گوئی طریق اعجاز کے علاوہ اور کسی طرح نہیں ہو سکتی ۔
اس شکست کے ذکر کے بعد یہ اضافہ کیاگیا ہے کہ رومی اس شکست کے بعد جلد ہی فتح یاب ہوں گے : ( وھم من بعد غلبھم سیغلبو ن ) ۔
صرف کلمہ ” سیغلبون “ ہی ( یعنی وہ جلد غالب ہوں گے ) بیان مقصود کے لیے کافی تھا مگر ” من بعد غلبھم ) کا اضافہ اس لیے کیاگیا ہے تاکہ فتح کی اہمیت زیادہ ہوجائے . کیونکہ ایک شکست خوردہ فوج کاایک قلیل مدّت میں پھر غالب آجاناغیرمتوقع ہے اور قرآن میں مستقبل میں اس کے وقوع کی خبر دی گئی ہے (2) ۔
۶۱۲. ء میں روم کے باد شا ہ قیصرماریس کوایک شخص مسمی فوکس نے قتل کردیا . خسرونے اس موقع سے فائدہ اٹھا کرروم کے خلاف جنگ شروع کردی . اس جنگ میں چو ۶۱۵ . ء تک جاری رہی ایرانی سپہ سالاروں نے الرّہا، الظاکیہ ، دمشق اور یرو شلم پر قبضہ کرلیا اور شمالی مصر کے بعض حصے بھی فتح کرلیے ” غلبت الروم “ اس واقعے کی طرف اشارہ ہے ۔
قیصر ماریس کے بعد ہرقل روم کابادشاہ بناء اس نے ۶۲۳ .۶۲۴عیسوی میں ایرانیوں سے نہ صرف مفتوحہ علاقے واپس لے لیے بلکہ وہ ایرانی حدود میں داخل ہو کہر شہر کنزک تک پہنچ گیا . ۶۲۸ ء میں وہ ایران کے دار السطنت تیسفون تک آپہنچا . خسرو وہاں سے فرار ہو گیا اور تھوڑی مدّت بعد ایک بغاوت میں مارا کیا . ” وھم من بعد غلبھم سیغلبون
رومیوں کی اس فتح کی پیش گوئی ہے ۔
اس کے بعد اس حادثے کے وقوع کی مدت بالفاظ(فی بضع سنین ) چند سال ہی میں بیان کی گئی ہے ۔
جب کلمہ ” بضع “ کہاجاتا ہے تواس سے کم از کم تین سال اورزیادہ سے زیادہ نوسال مدّت مراد ہوتی ہے (3) ۔
اگر خدا زمانہ ٴ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی خبردیتا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ چیز اورہر کام اسی کے اختیار میں ہے .خواہ کوئی بات اس شکست خوردہ قوم کی فتح سے پہلے ہو یا بعد میں : ( للہ الامرمن قبل ومن بعد ) ۔
یہ امر بدیہی ہے کہ کائنات میں ہونے والے ہرواقعے کا خدا کے حکم اوراس کے ارادے سے وقوع پذیرہونا ہمارے اختیار و آذادیٴ ارادہ اور پیش نظر مقاصد کے حاصل کرنے کے لیے اسعی و کوشش میں ر کا وٹ نہیں بنتا . بہ الفاظ دیگر یوں کہنا چاہیئے کہ اس عبار ت کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ وہ انسان سے اختیار کرسلب کرلے بلکہ یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ درحقیقت قادر بالذات اور” مالک علی الاطلاق “ وہی ہے اورکسی انسان کے پاس جو کچھ ہے اسی کا دیا ہواہے ۔
اس کے بعد ان الفاظ کااضافہ کیاگیا ہے کہ : آگر آج رومیوں کو شکست ہوگئی ہے اورمشرک اس سے خوش ہیں تو جب رومی غالب ہو ںگے تومومنین خوش ہوںگے : ( و یومئذ یفر ج المئو منون ) ۔
البتہ مومنین نصرت الہٰی سے خوش ہوں گے : ( بنصراللہ ) ۔
خداجس کی چاہتا ہے مدد کرتاہے : وہ شکست ناپذیر اورمہربان ہے :( ینصرمن یشاء وھوالعزیز الرحیم ) ۔
اس روز مسلمانوں کی خوشنودی سے کیا مراد ہے ؟
اس کے متعلق کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ رو میوں کی فتح سے خوش ہوں گے .ہرچند کہ ان کاشمار بھی کفار میں تھا . لیکن چونکہ وہ کتاب آسمانی کے حامل تھے اس لیے مشرک مجوسیوں پر ان کی فتح گویا شرک پر توحید کی فتح کاایک مرحلہ تھی ۔
اس مسئلے میں بعض حضرات کاخیال یہ ہے کہ مومنین اس وجہ سے خوش ہوئے کہ انھوں نے اس واقعے کوفال نیک سمجھا اور مشرکین پر اپنی فتح کی دلیل خیا ل کیا۔
یایہ ...ان کی خوشی کاباعث یہ تھا کہ اس وقعے سے اس روز قرآن کے عظمت اوراس کی پیش گوئی کی صداقت ظاہر ہوگئی . یہ بات بھی مسلمانوں کے لیے ایک اہم معنوی فتح خیال کی گئی ۔
یہ احتمال بھی بھی بعید نہیں ہے کہ رومیوں کی فتح مسلمانوں کی مشرین پر فتوحات میں سے ایک فتح کی ہم زمان تھی . بالخصوص بعض بزرگ مفسرین نے لکھا ہے کہ رومیوں کی یہ فتح مسلمانوں کی جنگ بد ر میں فتح یاصلح حدیبیہ کے ہم زمان تھی کہ وہ بھی اپنی حیثیت سے ایک بڑی فتح شمال ہوتی تھی . خاص طور پر کلمہ ” بنصراللہ “ اس مطلب سے مناسب رکھتا ہے ۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ مسلمان اس روز مختلف جہتوں سے خوش ہوئے ۔
اوّل تواس وجہ سے کہ اہل کتاب کومجوسیوں پرفتح حاصل ہوئی جو کہ خدا پرستی کی شرک پرفتح کی علامت تھی ۔
دوم : چونکہ قرآن کی معجزانہ پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی . اس لیے یہ بھی ایک معنوی فتح تھی ۔
سو م: اسی زمانے میں مسلمانوں کو دوسری فتوحات کے علاوہ ایک اورفتح حاصل ہوئی تھی ، وہ تھی صلح حدیبیہ ۔
پھر بطور تاکید مزید فرمایاگیا ہے : یہ وہ وعدہ ہے جو خدا نے کیا ہے : ( وعداللہ ) (4)۔
اور خدا ہر گز وعدہ خلافی نہ کرے گا ، اگرچہ اکثر آدمی نہیں جانتے : ( لا یخلف اللہ وعدہ ولکن اکثر الناس لایعلمون ) ۔
اورلوگوں کی لاعلمی کا باعث ہے کہ انھیں خدااوراس کے علم وقدرت کی معرفت حاصل نہیں ہے . درحقیقت انھوں نے خداکو پہچانا ہی نہیں . اس لیے وہ اس حقیقت سے کہ خدا کااپنے وعدے سے پھر جانامحال ہے ، آگاہ نہیں ہیں کہ کیونکہ وعدہ سے پھر جانا یاتو جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی وعدہ کرتے وقت کوئی بات نامعلوم تھی مگر جب بعد میں معلوم ہوئی تو رائے بدل گئی یاوعدہ خلافی ضعف و ناتوانی کی وجہ سے ہوتی ہے جس کے باعث وعدہ کرنے والااپنے رائے بد ل لیتا ہے کیونکہ اس میں اپنا وعدہ پورا کرنے کی قدرت نہیں ہوتی ۔
لیکن وہ خدا جو ہر کام کے انجا م سے باخبرہے اورا س کی قدرت جملہ اہل جہان کی قدرتوں پر توقیت رکھتی ہے ، ہرگز اپنے وعدے سے نہ پھر ے گا ۔
اس کے بعد یہ اضافہ کیاگیا ہے کہ : یہ کو تاہ بیں لوگ دنیا کی صرف ظاہری زندگی کودیکھتے ہیں اور آخر ت اورانجام کار سے بے خبرہیں :( یعلمون ظاھرا من الحیواة الدنیا وھم عن الاخرة ھم غافلون ) ۔
یہ لوگ صرف دنیا وی زندگی سے جو آگا ہ ہیں اورزندگی کی بھی صرف ظاہری حالت پر قناعت کیے ہوئے ہیں .ان لوگوں نے دنیا وی زندگی سے جو حاصل کیاہے وہ صرف چند مصروفیات ، لذّات ِ زور گزرا ورخواب و خیال ہیں اوراس زندگی کے ماحصل میں جو غرور اورغفلت پوشیدہ ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
اگروہ لوگ دنیا کی اس زندگی کے باطن اورمخفی کیفیت کوبھی جانتے ہوتے تویہی بات ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی کہ آخرت میں کیا ہوگا . کیونکہ اگراس حیات ناپائیدار پرغور کیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ یہ طویل زنجیرحیات کی ایک کڑی ہے اورطویل سفر کی ایک منزل ہے . بالکل اسی طرح جیسے شکم مادر میں بچے کی زندگی مقصود بالذّات نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک طویل زندگی کاابتدائی مرحلہ ہے ۔
ہاں ٹھیک ہے کہ وہ لوگ اس دنیا وی زندگی کے ظاہری کودیکھتے ہیں اوراس کی باطنی کیفیت اورمخفی حالت سے غافل ہیں ۔
اس موقع پر جاذب توجہ یہ امر ہے کہ آیت ہفتم میں ضمیر ” ھم “ مکرّ ر استعمال ہوئی ہے جواس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے . کہ اس غفلت وبے خبری کاباعث وہ خود ہیں . بالکل اسی طرح جیسے کوئی ہم سے کہے کہ : ”تونے مجھے اس کام سے غافل کردیا .“ اورہم اس کے جواب میں یہ کہیں کہ : توتو خود ہی غافل ہوگیا . یعنی توخود ہی اپنی غفلت کا باعث تھا ۔
1۔ تفسیر بیان ، جلد ۸ ،ص ۲۰۶۔
2 خسرو اول انو شیرواں کے بعد اس کا بیٹا ہرمز د اور اور ہر مزد کے قتل کے بعد پر ویزملقب . بہ خسرودوم تخت نشین ہو ا ۔
3 ۔کلمہ ” بضع “ سے اور معنی بھی مراد لیے گئے ہیں . مثلا یہ مدّت کم از کم تین سال اورزیادہ سے دس سال ہوتی ہے یاکم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ نو سال یاکم از کم چھ سال اورزیادہ سے زیادہ نوسال . مگر ہم نے جو کہاوہ زیادہ مشہور ہے ۔
4 ۔ ” وعداللہ “ بطور مفعول مطلق منصوب ہے اوراس کاحامل محذوف ہے اوراس کے ماقبل جملہ ” سیغلبون “ سے جو کہ وعدہٴ الہٰی کامصداق ہے ، معلوم ہوتاہے اور بحالت تقدیر پورا جملہ یوں ہے : ’( وعداللہ ذلک وعدا“ ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma