رات اوردن کا وجود عظیم نعمت ہے:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16


زیربحث آیات نعمات الہٰی کے ایک عظیم حصّے کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں . یہ نعمات توحید اور نفی شرک پر بھی دلالت کرتی ہیں .اس لحاظ سے زیربحث آیات گزشتہ آیات کی بحث کو ہی مکمل کرتی ہیں .ان آیات میں مذکورہ نعمات ان نعمات الہٰی کاایک نمونہ بھی ہیں جن کی وجہ سے خدا لائق حمد ستائش ہے ، وہی حمد و ستائش جس کاذکر گزشتہ آیات میں آیاہے نیز یہ نعمات نظام آفرینش اور جہان کی تدبیر میں خدا کے مختار ہونے پر بھی شاہد ہیں ۔
پہلے دن کی عظیم نعمت یعنی روشنی کی طرف اشارہ کیاگیاہے ، وہی روشنی کہ جو ہر جنبش و حرکت کاسر چشمہ ہے . ارشاد ہوتاہے : کہہ دو مجھے بتاؤ اگرخدا روز قیامت تک دن رات کو طویل کردیتاتوکیا اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے جو تمہارے لیے روشنی لے آتا ؟ کیاسنتے نہیں ہو ؟ ( قل ارء یتم ان جعل اللہ علیکم اللیل سرمد ا الی یوم القیامة من الہ غیر اللہ یاتیکم بضیاء افلا تسمعون(۱) ۔
یہاں لفظ ” ضیاء “ (روشنی ) استعمال کیا گیا ہے کیونکہ دن کا اصلی بنیادی مقصد روشنی ہی ہے . وہی روشنی کہ جس سے تمام موجودات ِ زندہ کی حیات وابستہ ہے .اگر سورج نہ ہوتا تو نہ درخت اگتے ، نہ پھول کھلتے ، نہ پرندے پرواز کرتے ، نہ انسانوں کی حیات ہوتی اور نہ بارش کاکوئی قطرہ برستا ۔
” سرمد“ دائم اور ہمیشگی کے معنی میں ہے . بعض نے اسے ”سرد “ کے ماد ہ سے سمجھا ہے اوراس کا معنٰی ” پے در پے “ کیاہے . اس کی میم کوانہوں نے زائد قرار دیاہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ مادہ خود دائم اور ہمیشگی کے معنی میں ہے (۲) ۔
۲اگلی آیت ” تاریکی “ کی نعمت کاذکر کرتی ہے .ارشاد ہوتاہے : کہہ دو : مجھے بتاؤ اگر خدا روز میامت تک دن کو طویل کردیتاتواللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے جو تمہارے لیے رات لے آتا تاکہ تم اس میں آرام کرپاتے ؟ کیادیکھتے نہیں ہو ؟
( قل ارء یتم ان جعل اللہ علیکم النھار سرمد الی یوم القیامة من الہ غیراللہ یاتیکم بلیل تسکنون فیہ افلا تبصرون ) ۔
تیسری آیت جو در حقیقت گزشتہ دو آیتوں کانتیجہ ہے اس میں فرمایاگیاہے : یہ امر رحمت الہٰی میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے ہیں تاکہ تم آرام بھی کرسکو اور دوسری طرف اپنی زندگی کی خاطر فضل خدا سے فائد ہ اٹھا نے کی کوشش کرسکو اور شاید تم اس کی نعمت کاشکر ادا کرو .( ومن رحمة جعل لکم الیل والنھار لتسکنوا فیہ و لتبتغو امن فضلہ ولعلکم تشکرون ) ۔
جی ہاں ، رحمت الہٰی کی وسعت کاتقاضاہے .کہ وہ تمہیں زندگی کے تمام وسائل مہیا کرے . ایک طرف توتمہیں کام کاج اور جنبش وحرکت کی ضرورت ہے کہ جو دن کی روشنی کے بغیر ممکن نہیں اور دوسری طرف تمہیں راحت و آرام کی ضرور ت ہے ،کہ جو شب کی تاریکی کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔
دور حاضر میں سائنس نے ثابت کردیاہے کہ روشنی کی موجود گی میں انسانی جسم کی تمام مشینریاں حرکت میں ر ہتی ہیں .خون کی گردش ،سانس لینے کی مشینری ،حرکت قلب وغیرہ . اگر روشنی ضرورت سے زیادہ پڑے یاایک خاص مقدار سے بڑ ھ جائے تو خلیے ( cells) تھک جاتے ہیں او ر نشاط و اطمینان کی جگہ فرسود گی سی چھاجاتی ہے .اس کے برعکس رات کی تاریکی میں بدن کی مشینر یاں ایک گہرے آرام و سکون میں ڈوب جاتی ہیں .ایسے قویٰ ایک نشاط تازہ حاصل کرتے ہیں (۳) ۔
یہ بات جاذب توجہ ہے کہ قرآ ن جس وقت دائمی رات کاذکر کرتاہے تو آیت کے آخر میں فر ماتاہے : ” کیاسنتے نہیں ہو ؟ “
اور جس وقت دائمی دن کے بارے میں بات کرتاہے .تو فرماتاہے :” کیادیکھتے نہیں ہو ؟ “
تعبیر کایہ فرق ہوسکتاہے اس بنا ء پر ہوکہ رات سے مناسب رکھنے والی حس قوت شنوائی ہے جب کہ دن کے ساتھ مناسبت رکھنے والی بنیائی ہے .اس سے ظاہر ہوتاہے کہ قرآن نے اپنی تعبیرات میں کس حد تک باریک بینی سے کام لیا ہے ۔
یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ اس سلسلہٴ کلام کے آخر میں ” شکر “ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے . نور و ظلمت کاایسا جچاتلانظام عطاہونے پر شکر ... ایسا شکرجو بہر صورت انسان کومعرفت منعم پرآمادہ کرتاہے اور ایسا شکر جو افزائش ایمان کاباعث بنتاہے ۔
توحید اور نفی شرک کے بارے میں کچھ دلائل ذکر کرنے کے بعد قرآن پھراسی سوال کی طر ف لوٹتاہے جوگزشتہ آیات میں زیربحث تھا . فرماتاہے : ا س دن کاسوچو کہ جب خدا ا نہیں پکارے گا اور کہے گا :
کہاں ہیں وہ جوبزعم خو د تم نے شریک قرار دے رکھے تھے .( ویوم ینادیھم فیقول این شرکاء ی الذین کنتم تزعمون ) ۔
یہ آیت بعینہ اسی سورہ کی آیت ۶۲ ہے . ہوسکتا ہے یہ تکرار اس بناء پر ہو کہ روز قیامت پہلے مرحلے میں ان سے ایک انفرادی سوال ہوگا تاکہ ان کاضمیر بیدار ہوجائے اور وہ شرمندہ ہوں . جب کہ دوسرے مرحلے میں سب لوگوں اور گواہوں کی موجود گی میں سوال کیاجائے گا تاکہ وہ شرمسار ہوں اور دوسری آیت میں اسی مرحلے کی مناسبت سے سوال آیاہے . لہذا بعد والی آیت میں فرمایاگیا ہے : اس روز ہم ہرامت میں سے گواہ چنیں گے . ( ونزعنامن کل امة شھیدا ) (۴)۔
۴اس کے بعد ” بے خبر اور گمراہ مشرکین سے ہم کہیں گے کہ اپنے شرک پرکوئی دلیل پیش کرو “ (فقلنا ھاتوا برھانکم ) ۔
یہ وہ منزل ہے جہاں تمام مسائل روز روشن کی طر ح واضح ہوجائیں گے .” اور وہ جان لیں گے کہ حق خدا کے لیے ہے “ ( فعلموا ان الحق اللہ ) ۔
اور جو کچھ وہ افتر ا ء باندھتے تھے سب ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور گم ہوجائے گا . ( وضل عنھم ماکانو یفترون ) ۔
ہرامت میں س ے گواہ سے کیا مراد ہے َ اس سلسلے میں اگرقرآن کی دیگر آیات کو ملحوظ رکھاجائے تو اوضح ہو جاتاہے کہ ہر پیغمبر اپنی امت پر گوا ہ ہوگا جب کہ پیغمبراسلام خاتم انبیاء ہیں . آپ تمام انبیاء .علیہ السلام  اور تمام امتوں پرگواہ ہیں ۔
چنانچہ سورہ نساء کی آیت ۴۱ میں فرمایاگیاہے :
فیکف اذ ا جئنا من کل امة بشھید و جئنا مک علیٰ ھوٴ لاء شھیدا
اس دن ان کی کیاحالت ہوگی جب ہم ہرامت کے اعمال کاگواہ طلب کریں گے اور تجھے ا ن پر گواہ قرار دیں گے اس طرح گویا نبیاء کے حضور ایک مجلس منعقد ہوگی اور ان کوردل ہٹ دھرم مشرکوں سے اس مجلس میں باز پرس ہوگی . اس موقع پر انہیں احساس ہوگا کہ شرک کی مصیبت کتنی بڑی ہے .اب وہ پروردگار کی حقانیت اور بتوں کی لغویت واضح طور پر دیکھیں گے ۔
یہ بات جاذب ِ توجہ ہے کہ قرآن یہاں پرکہہ رہاہے :
ضل عنھم ماکانو ا یفترون
یعنی بتوں کے بارے میں ان کے بے بنیاد تصوّرات و خیالات سب ان کی نظروں سے غائب ہوجائیں گے کیونکہ میدان قیامت مقام حق ہے ، وہاں باطل کے لیے کوئی گنجائش نہیں لہذا باطل غائب او ر محور ہوجائے گا .اس دنیامیں اگر باطل حق کالباس پین لیتاہے اور چند دن فریب کاری میں مشغول رہتاہے تو وہاں فریب کے پردے سب ہٹ جائیں گے اور حق کے علاو ہ کچھ باقی نہ رہے گا ۔
ایک روایت میں امام محمد باقرعلیہ السلام ” ونزعناعن کل امة شھیدا ) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ومن ھذہ الا مة امامھا
اس امت سے بھی اس کے امام کو چناجائے گا (۵) ۔
یہ بات اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ ہرزمانے میں امت کے لیے ایک معصوم شاہد ضرو ری ہے اور مندرجہ بالا حدیث اس کے ایک مصداق کی طرف اشارہ ہے ۔

۱ ۔ ” ارء یتم “ کاعام طور پر ” اخبرونی “ ( مجھے بتاؤ ) معنی کیاجاتاہے .لیکن کہ ہم ہیں کبھی یہ لفظ ” ھل علمتم “ ( کیاتم جانتے ہو ؟ ) کے معنی میں بھی آتاہے ۔
۲ ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ارباب ِ لغت نے تصریخ کی ہے کہ ” سرمدی “ ایسے موجود کوکہاجاتاہے کہ جس کانہ آغاز اور نہ انجام جب کہ ” ازلی “ اسے کہتے ہیں جس کا آغاز نہ ہو اور ” ابدی “ اس ے کہتے ہیں جس کاانجام نہ ہو ۔
۳۔ تفسیر نمونہ کی آٹھویں اور بارہویں جلد میں اس مسئلے کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے ۔
۴ ۔ نزع کے مادہ سے نزعناکی تعبیر کسی چیز کواس کی جگہ سے جذب کرنے کے معنی میں ہے اور یہاں ہرگروہ سے ایک گواہ لایاجانا مراد ہے ۔
۵۔تفسیر المیزان ، ج ۱۶، ص ۲۰۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma