موسٰی (علیه السلام) مظلوم کے مدد گار کے طور پر :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16


اب ہم حضرت موسٰی (علیه السلام) کی بھر پورزندگی کے تیسرے دور سے دوچار ہوتے ہیں ۔
اس دور میں ا نکے وہ واقعات ہی جو بدوران بلوغ اور مصر سے مدین کوسفر کرنے سے پہلے پیش آئے اور یہ وہ اسباب ہیں جو ان کی ہجرت کاباعث ہوئے ۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ اس سلسلے میںپہلی بات تو یہ فرماتاہے : موسٰی جب طاقتور اورکامل ہوگئے توہم نے انھیں حکمت اورعلم عطاکیااور ہم نیکوکار وں کو ا س طرح جزا دیتے ہیں :( ولما بلغ اشدّہ واستوی اتیناہ حکما وعلما وکذالک نجزی المحسنین ) ۔
” اشد ّ “ کامادہ ” شدّت “ ہے بمعنی طاقتور ہونا ۔ ” استوی “ کاماد ہ ” استواء “ ہے بمعنی کمال خلقت اوراس کااعتدال ۔
ان دونوں الفاظ کے مفہوم میں کیا فرق ہے ؟ اس پر مفسرین میں اختلاف ہے ۔
بعض نے کہا ہے کہ
” بلوغ اشد “ وہ ہے کہ انسان قوّائے جسمانی کے لحاظ سے سرحد کمال پہنچ جائے . غالبااٹھا رہ سال کی عمر میں ایسا ہوتاہے ۔
اور
” استواء “ زندگی میں استقرار اوراعتدال کو کہتے ہیں . یہ کیفیّت جسمانی طاقت کے کمال بعد پیداہوتی ہے ۔
بعض دیگر مفسّرین
” بلوغ اشد “ کے معنی ” کمال جسمانی “ اور ” استواء “ کے معنٰی ” کمال عقلی و فکری “ سمجھتے ہیں۔
کتاب معانی الاخبار میں امام جعفرصادق (علیه السلام) سے ایک حدیث منقول ہے کہ
” اشد ‘ ‘ اٹھارہ سال کی عمر ہے اور ” استواء “ عمرکا وہ حصّہ ہے جب داڈی مونجھ نمودار ہوجا ئے ۔
ان تعبیرات بالامیں کچھ بہت زیادہ فرق نہیں ہے اوران دونوں کے لغوی معنٰی پرتوجہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ ان کے معنٰی جسمانی ، فکر ی اور روحانی طاقتیں ہیں ۔
” حکم “ اور ”علم“ میں ممکن ہے کہ یہ فرق ہو کہ ” حکم “ سے مراد عقل وفہم اورصحیح فیصلہ کرنے کی استعداد ہے اورعلم کے معنٰی ایسی آگاہ ہی اور دانش ہے جس میںجہل کاشائبہ نہ ہو ۔
” کذالک نجزی المحسنین “ کے الفاظ اس امر کے شاہد ہیں کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) میں اپنے تقویٰ اورطہارت قلب اور پاکیزہ اعمال کے سبب یہ استحقاق پیداہو گیا تھا کہ خدا انھیں بطو ر جزاعلم وحکمت عطافرمائے اوربدیہی ہے کہ اس علم وحکمت سے مراد وحی اورنبوّت نہیں ہے .کیونکہ اس زمانے کے بعد حضرت موسٰی (علیه السلام) پروحی نازل ہوئی اور نبّور ملی ۔
بلکہ اس مقام پرعلم وحکمت سے مراد وہی آگاہی ، روشن بینی ، صحیح قوّت فیصلہ اوراسی قسم کے اوصاف ہیںجو خدانے موسٰی (علیه السلام) کوان کی پاک دامنی ، نیکی اورصالح زندگی کے صلہ میں عطاکیے تھے .اس صورت حال سے اجمالا یہ نتیجہ بھی برآمد ہوتاہے کہ اگر چہ موسٰی (علیه السلام) فرعون کے محل میں رہے مگر اس ماحول کے فضاسے قطعی متاثر نہیںہوئے .یہاں تک کہ ان سے جتنا بھی ہو سکتاتھا وہ احیا ء حق و عدالت میںسعی کرتے رہے . ہرچند کہ آپ کی مصروفیات کاحال تشریحا ہمیں معلوم نہیں ہے ۔
بہر حال حضرت موسٰی (علیه السلام) شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب تمام اہل شہر غافل تھے :
( ودخل المدینة علی حین غفلة ) ۔
یہ وضح نہیںہے کہ یہ کونسا شہرتھا . لیکن احتمال قوی یہ ہے کہ یہ مصر کاپائیہ تخت تھا . بعض لوگوں کاقول ہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کواس مخالفت کی وجہ سے جوان میںفرعون اوراس کے وزراء میںتھی اوربڑھتی جارہی تھی ،مصر کے پائیہ تخت سے نکال دیاگیاتھا . مگر جب لوگ غفلت میںتھے .حضرت موسٰی (علیه السلام) کوموقع مل گیا اوروہ شہر میں آگئے ۔
اس احتما ل کی بھی گنجائش ہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) فرعون کے محل سے نکل کر شہر میں آئے ہوں کیونکہ عا م طور پر فرعونو ں کے محلّات شہر کے ایک کنار ے پر ایسی جگہ بنائے جاتے تھے جہاں سے وہ شہر کی طرف آمدو رفت کے راستوں کی نگرانی کر سکیں ۔
” علی حین غفلة من اھلھا “ سے مراد ایساوقت ہے کہ شہر گے لوگ اپنے مشاغل معمول سے فارغ ہوچکے تھے اور کوئی بھی شہر کی حالت کی طرف متوجہ نہ تھا .مگر یہ کہ وہ وقت کونساتھا ؟ بعض کاخیال ہے کہ ” ابتدائے شب “ تھی جب کہ لوگ اپنے کارو بار سے فار غ ہوجاتے ہیں ‘ایسے میں کچھ تو اپنے اپنے گھروں کیراہ کرلیتے ہیں .کچھ تفریح اور رات کوبیٹھ کے باتیں کرنے لگتے ہیں .اس وقت کوبعض اسلامی روایات میں ” ساعت غفلت “ کہاگیا ہے .چنانچہ جناب ارسالت معاب سے ایک حدیث منقول ہے
” تنفلو ا فی ساعة الغفلة ولو بر کعتین خفیفتین “
ساعت غفلت میں نماز نافلہ پڑھو خواہ وہ دورکعت مختصرہی کیوں نہ ہو ۔
اس حدیث میں” جو ساعت غفلت “ کاکلمہ آیاہے اس کی یہ تعبیر کی گئی ہے :- ۔
” ساعت غفلت مغرب اورعشاء کے درمیان کاوقت ہے ( ۱)۔
حقیقت میں وہ وقت غفلت کاہوتاہے . بہت سے گناہ وں ،بد چلنیوں اورخلاقی انحرافات کااسی وقت یعنی آغاز شب ہی میں ارتکاب کیا جاتا ہے ۔
اس وقت لوگ نہ تو اپنے کسب و کار میں مشغول ہیں نہ بستر خوا ب واستراحت میںہوتے ہیں بلکہ شہروں پرمعمولا ایک عام غفلت کی حالت چھائی ہوئی ہوتی ہے . اوربد اخلاقی کے مرکز وں میں اسی وقت رونق ہوتی ہے ۔
بہر کیف حضرت موسٰی (علیه السلام) شہر میں آئے اوروہاں ایک ماجرے سے دو چا ہو ئے دیکھاکہ دو آدمی آپس میں بھڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کوماررہے ہیں .ان میںسے ایک حضرت موسٰی (علیه السلام) کاطرفدار اوران کاپیرو تھا اوردوسراان کا دشمن تھا :
( فوجد فیھا رجلین یقتتلان ھذا من شیعتہ وھذامن عبدہ ) ۔
کلمہ
” شیعتہ “ اس امر کا غما ر ہے کہ جناب اپنے مقلدین اور شیعوں کے گروہ کوفرعون کی جابرانہ حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے بطور ایک مرکز ی طاقت کے تیار کررہے تھے ۔
جس وقت بنی اسرائیل کے اس آدمی نے موسٰی (علیه السلام) کودیکھا تو ان سے اپنے دشمن کے مقابلہ میں امداد چاہی :
( فاستغاثہ الذی من شیعتہ علی الذی من عدوہ ) ۔حضرت موسٰی (علیه السلام) کی مدد کر نے کے لیے تیار ہوگئے تاکہ اسے اس ظالم کے ہاتھ سے نجات دلائیں . بعض علماء کاخیال ہے کہ وہ قبطی فرعون کایک باورچی تھا اور چہاتا تھا کہ اس بنی اسرائیل کو بیگار میں پکڑ کے اس سے لکڑیاں اٹھوائے . حضرت موسٰی (علیه السلام) نے اس فرعونی کے سینے پرایک مکّا مارا وہ ایک وہ ہی مکّے میں مرگیا اورزمین پر گر پڑا :( فوکزہ موسٰی فقضی علیہ ) ( ۲)۔
اس میںشک نہیں کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کااس فرعون کوجان سے ماردینے کاارادہ نہ تھا .آیات مابعد سے بھی یہ مطلب خوب واضح ہوجاتاہے .ایسااس لیے نہ تھا کہ وہ لوگ مستحق قتل نہ تھے بلکہ انھیں ان نتا ئج کاخیال تھا جوخود حضرت موسٰی (علیه السلام) اور بنی اسرائیل کوپیش آسکتے تھے ۔
لہذا حضرت موسٰی (علیه السلام) نے فورا کہاکہ یہ کام شیطان نے کرایاہے کیونکہ وہ انسانوں کادشمن اور واضح گمراہ کرنے والاہے :
( قال ھذا من عمل الشیطان انہ عدو مضل مبین ) ۔
اس واقعے کی دوسری تعبیر یہ ہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) چاہتے تھے کہ بنی اسرائیل کاگرینا ن ا س فرعونی کے ہاتھ سے چھڑ ادیں ہرچند کہ وابستگا ن فرعون اس سے زیادہ سخت سلوک کے مستحق تھے لیکن اس حالات میں سے ایسا کام کر بیٹھنا قرین مصلحت نہ تھا اور جیساکہ ہم آگے دیکھیں گے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) اسی عمل کے نتیجہ میںپھر مصر میں نہ ٹھہر سکے اور مدین چلے گئے ۔
پھر قرآن میںحضرت موسٰی (علیه السلام) کایہ قول نقل کیاگیا ہے . اس نے کہا : پروردگار : میں نے اپنے اوپر ظلم کی. تومجھے معاف کردے ‘ اورخدانے اسے مخش دیا . کیونکہ وہ غفور رحیم ہے :
( قال رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی لہ انہ ھوالغفور الر حیم ) ۔
یقینا حضرت موسٰی (علیه السلام) اس معاملے میں کسی گنا ہ کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ حقیقت میں ان سے تر ک اولی سرزد ہوا . کیونکہ انہیں ایسی بے احتیاطی نہیں کرنی چاہیئے تھی جس کے نتیجے میں وہ زحمت و تکلیف میں مبتلا ہو ں . حضرت موسٰی (علیه السلام) نے اسی ترک اولی کے لیے خداسے طلب عفوکیا اورخدانے بھی انھیں اپنے لطف و عنایت سے بہر و مند کیا ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) نے کہا : خداوند تیری اس احسان کے شکر انے میں کہ تونے میرے قصور کومعاف کردیا اور دشمنوں کے پنجے میں گرفتار نہ کیا اوران تما م نعمتوں کے شکر یے میں جومجھے ابتدء سے اب تک مرحمت کرتارہاہے ، میں عہد کرتاہوں کے کہ ہر گز مجرموں کی مدد نہ کروں گا اور ظالموں کاطرفدار نہ ہوں گا :
( قال رب بما انعمت علی فلن اکون ظھیرا المجرمین ) ۔
بلکہ ہمیشہ مظلومین اورستم دیدہ لوگوں کامدد کار رہوں گا ۔
اس جملہ سے حضرت موسٰی (علیه السلام) کامقصود یہ تھا : کہ میں آئندہ ہرگز مجرم اور گنہگار وابستگان فرعون کاشریک کار نہ ہوں گا . بلکہ ، میں بنی اسرائیل کے ستم دیدہ لوگوں کاہمدرد رہوں گا ۔
بعض لوگوں نے آیت میں کلمہ
” مجرمین “ سے وہ اسرائیل شخص مراد لیاہے جوقبطی سے لڑرہاتھا . یہ حقیقت سے بعید ہے ۔

12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma