موسٰی (علیه السلام) کی مخفیانہ مدین کی طرف روانگی :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16


ان آیات میں سے اس پر حوادث سرگز شت کاچوتھا حصّہ بیا ن کیاگیا ہے فرعونیوں میں سے ایک آدمی کے قتل کی خبر شہر میں بڑی تیزی سے پھیل گئی .قرائن سے شاید لوگ یہ سمجھ گئے تھے کہ اس کا قاتل ایک بنی اسرائیل ہے اور شاید اس سلسلے میںلوگ موسٰی (علیه السلام) کا نام بھی لیتے تھے ۔
البتہ یہ قتل کوئی معمولی بات نہ تھی .اسے انقلاب کی ایک چنگاری یا اس اس کامقدمہ شمار کیاجاتاتھا . اور حکومت کی مشینری اسے ایک معمولی واقعہ سمجھ کر اسے چھوڑنے والی نہ تھی کہ بنی اسرائیل کے غلام اپنے آقاؤں کی جان لینے کا ارادہ کرنے لگین ۔
لہذا ہم زیر بحث پہلی ہی آیت میںیہ پڑھتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد موسٰی شہر میں ڈر رہے تھے اور ہر لحظ انہیں کسی حادثے کاکھٹکا تھا اور وہ نئی خبروں کی جستجومیںتھے :
( فاصبح فی المدینة خائفا یتر قب ) (۱) ۔
ناگہاں انہیں ایک معاملہ پیش آیا . آپ نے دیکھا کہ وہی بنی اسرائیل جس نے گزشتہ روز ان سے مدد طلب کی تھ یانھیں پھر پکار رہا تھا اور مدد طلب کررہا تھا ( وہ ایک اور قبطی سے لڑرہاتھا ) :
( فاذاالذی استنصرہ بالا مس یستصرخہ ) (۲)۔
لیکن حضرت موسٰی (علیه السلام) نے اس سے کہا کہ تو آشکارا طور پر ایک جاہل اور گمراہ شخص ہے :
(قال لہ موسٰی انک لغوی مبین ) ۔
تو ہر روز کسی نہ کسی سے جھگڑ پڑتاہے اور اپنے لیے مصیبت پیداکرلیتاہے اورایسے کام شروع کردیتاہے ، جن کا ابھی موقع ہی نہیں ہے .کل جو کچھ گزری ہے میں تو ابھی اس کے عواقب کا انتظار کر رہاہوں .اور تو نے وہی کام ازسرنو شروع کردیاہے ۔
بہر حا ل وہ ایک مظلوم تھاجو ایک ظالم کے پنجے میں پھنسا ہواتھا ( خواہ ابتداء اس سے کچھ قصور ہواہو یانہ ہواہو ) اس لیے حضرت موسٰی (علیه السلام) کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کی مدد کریں اوراسے قبطی کے رحم و کرم پر چھوڑدیں .لیکن جیسے ہی حضرت موسٰی (علیه السلام) نے یہ ارادہ کیا کہ اس قبطی آدمی کو (جو دونوں کاشمن تھا ) پکڑ کراس بنی اسرائیل سے جد ا کریں :قبطی چلّایا ،اس نے کہا : اے موسٰی ! کیا تو مجھے بھی اسی طرح قتل کرناچہاتا ہے جس طرح تونے کل ایک شخص کو قتل کیاتھا :
( فلما ان اراد ان یبطش بالذی ھو عدو قال یاموسٰی اترید ، ان تقتلنی کماقتلت نفسا بالامس ) ۔
تیری حرکات سے تو ایساظاہرہوتاہے کہ تو زمین پرایک ظالم بن کررہے گا اور یہ نہیں چاہتاکہ مصلحین میں سے ہو :
(ان ترید الاان تکون جبا ر فی الارض وما ترید ان تکون من المصلحین ) (۳)۔
اس جملے سے یہ معلوم ہوتاہے ک حضرت موسٰی (علیه السلام) نے فرعون کے محل اوراس کے باہر ہر دوجگہ اپنے مصلحا نہ خیالات کا اظہار شروع کردیاتھ. بعض رویات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس موضوع پران کے فرعون سے اختلاتات بھی پیداہوگئے تھے .اسی لیے تواسی قبطی آدمی نے یہ کہا :
یہ کیسی اصلاح طلبی ہے کہ تو ہر روز ایک آدمی کو قتل کرتاہے ۔؟
حالانکہ اگر حضرت موسٰی (علیه السلام) کا یہ ارادہ ہوتاکہ اس ظالم کوبھی قتل کردیں تو یہ بھی راہ احلاح میں ایک قدم ہوتا ۔
بہر کیف حضرت موسٰی (علیه السلام) کو یہ احساس ہواکہ گزشتہ روز کا واقعہ طشت ازبام ہوگاہے اوراس خوف سے کہ اور زیادہ مشکلات پیدانہ ہوں ، انھوں نے اس معاملے میں دخل نہ دیا ۔
اس واقعے کی فرعون اور اس کے اہل دربار کو اطلاع پینچ گئی .انھوں نے حضرت موسٰی (علیه السلام) سے اس عمل کے مکرّر سرزد ہونے کو اپنی شان سلطنت کنے لیے ایک تہدید سمجھا . وہ ہاہم مشورے کے لےے جمع ہوئے اورحضرت موسٰی (علیه السلام) کے قتل کاحکم صادر کردیا ۔
اس وقت ایک غیر متوقع واقعے نے حضرت موسٰی (علیه السلام) کوموت سے نجا ت بخشی .ہوایوں کہ ایک آدمی شہر کے دور دراز حصّے سے (جہاں فرعون اوراس کے اہل خانہ رہتے تھے ) تیزی کے ساتھ حضرت موسٰی (علیه السلام) کے پاس آیااور انھیں مطلع کیاکہ آپ کوقتل کرنے کا مشورہ ہورہاہے ‘ آپ فورا شہر سے نکل جائیں ، میں آپ کاخیر خواہ ہوں :
( وجاء رجل من اقصاالمدینة یسعی قال یاموسٰی ان الملایاتمرون یک لیقتلوک فاخرج انی لک من الناصحین ) ۔
یہ آدمی بظاہر وہی تھا جو بعد میں
” مومن آل فرعون “ کے نام سے مشہور ہوا . کہاجاتاہے کہ اس انام حزقیل تھا . وہ فرعون کے قریبی رشتہ دادرں میں سے تھا اور ان لوگوں سے اس کے ایسے قریبی روابط تھے کہ ایسے مشوروں میں شریک ہوتاتھا ۔
اسے فرعون کے جرائم اوراس کی کرتوتوں سے بڑا دکھ ہوتاتھا اور اس انتظام میںتھا کہ کوئی شخص اس کے خلاف بغاوت کرے اور وہ اس کا ر خیر میںشریک ہوجائے ۔
بظاہر وہ حضرت موسٰی (علیه السلام) سے یہ آس لگائے ہوئے تھا اور ان کی پیشانی میں من جانب اللہ ایک انقلابی ہستی کی علامات دیکھ رہاتھا اسی وجہ سے جیسے ہی اسے یہ احساس ہوا کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) خطرے میں ہیں ، نہایت سرعت سے ان کے پاس پہنچا اور انھیں خطرے سے بچالیا ۔
ہم بعد میںدیکھیں گے کہ وہ شخص صرف اسی واقعے میں نہیں ، بلکہ دیگر خطراناک مواقع پر بھی حضرت موسٰی (علیه السلام) کے لیے بااعتباد ہمدرد ثابت ہوا .فرعون کے محل میں وہ بنی اسرائیل کے لیے گویاایک دیدہ تیز بین تھا ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) نے اس خبر کوقطعی درست سمجھا اور اس ایماندار آدمی کی خیر خواہی کو بہ نگاہ قدردیکھا اور اس کی نصیحت کے مطابق شہر سے نکل گئے .اس وقت آپ خوف زدہ تھے اور ہر گھڑی انہیں کسی حادثے کاکھٹکاتھا
( فخرج منھا خائفا یترقب ) ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) نے نہایت خضوع قلب کے ساتھ متوجہ الی اللہ ہو کر اس بلا کو ٹالنے کے لیے اس کے لطف وکرم کی درخواست کی اے میرے پروردگار ! تو مجھے اس ظالم قوم سے رہائی بخش :
( قال ربی نجنی منی القوم الظالمین ) ۔
میںجانتاہوں کہ وہ ظالم او ر بے رحم میں تو مظلوموں کی مدافعت کرہاتھا اور ظالموں سے میراکچھ تعلق نہ تھا اور جس طرح سے میں نے اپنی توانائی کے مطابق مظلوموں کو ظالموں کے شرسے دور کیا ہے توبھی اے خدائے بزرگ ! ظالموں کے شر کو مجھ سے دور رکھ ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) نے پختہ ارادہ کر لیا وہ شہر مدین کو چلے جائیں . یہ شہر شام کے جنوب اور حجاب کے شمال میںتھا اور قلم رومصر اور فراعنہ کی حکومت میںشامل نہ تھا ۔
لیکن وہ جوان جومحل کے اندر نازو نعم میں پلاتھ. ایک ایسے سفر پر روان ہوارہاتھا جیساکہ سفر اسے کبھی زندگی بھر پیش نہ آیاتھا اس کے پاس نہ زاد راہ تھا ، نہ توشئہ سفر ، نہ کوئی سواری ، نہ رفیق راہ اور نہکوئی راستہ والاہر دم یہ خطرہ لاحق تھا کہ حکومت کے اہلکار مجھ تک پہنچ جائی اور پکڑ کے قتل کر دیں ا س حالت میں ظاہر ہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کاکیاحال ہوگا ۔
لیکن حضرت موسٰی (علیه السلام) کے لیے یہ مقدر ہوچکا تھا کہ وہ سختی اور شدّت کے دنوں کوپیچھے چھوڑدیں اور قصر فرعون انھیں جس جال میں پھنسا ناچاہتاتھااسے توڑکر باہر نکل آئیں اوردہ کمزور اور ستم دیدہ لوگوں کے پاس رہیں .ان کے دردوغم کایہ شدّت احساس کریں اور مستکبرین کے خلاف ان کی منفعت کے لیے بحکم لہٰی قیام فرمائیں ۔
اس طویل ، بے زاد و راحلہ ادربے رفیق و رہنماسفر میں ایک عظیم سرمایہ ان کے پاس تھا اور وہ تھا ایمان اور توّکل برخدا ۔
لہذا جب وہ مدین کی طرف چلے توکہا : خداسے امید ہے کہ وہ مجھے راہ راست کی طرف ہدایت کرے گا :
( ولما توجہ تلقاء مدین قال عسی ربی ان یھدینی سواء السبیل ) (۴)۔

۱۔” یتر قب “ کامادہ ” تر قب “ ہے اس کامعنی ہے ” انتظار کرنا “ اس مقام پر موسٰی (علیه السلام) اس حادثے کے نتائج کاانتظام کررہے تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ شہر میں کیا خبر ہے .یہ جملہ بلحاظ اعراب ایک خبرکے بعد خبر ہے اگر چہ بعض لوگوں کاخیال ہے کہ حال کے بعد حال ہے مگر یہ احتمال بہت بعید ہے ۔
۲۔” یستصر خ “ کامادہ ” استصراخ “ ہے جس کے معنی ہیں مدد کے لیے پکارنا .حقیقت میں اس کے معنی شور مچان کے ہیں اور شور مچانا مدد مانگنے کے لیے لازم ہے ۔
۳۔بعض مفسرین کاخیال ہے کہ یہ اس اسرائیل شخص کاجملہ ہے کہ جس نے گما ن کیاتھا . موسٰی (علیه السلام) اسے قتل کرنا چاہتے ہیں ‘ تاہم آیت میں ایسے اشارے موجود ہیںجو اس مفہوم کی نفی کرتے ہیں ۔
۴۔” تلقاء “ مصدر یااسم مکان ہے اوراس جگہ سمت یاجانب کے معنٰی میں آیاہے ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma