حضرت موسٰی (علیه السلام) حضرت شعیب (علیه السلام) کے گھر میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16


اب حضرت موسٰی (علیه السلام) کی زندگی کے چھٹے دور کاذکر شروع ہوتاہے . حضرت موسٰی (علیه السلام) جناب شعیب (علیه السلام) کے گھر آگئے . یہ ایک سادہ ساد یہاتی مکان تھا ، مکان صاف ستھر اتھا . اورروحانیت سے معمور تھا . جب حضرت موسٰی (علیه السلام) نے جناب شعیب (علیه السلام) کو اپنی سرگزشت سنائی توان کی ایک لڑکی نے ایک مختصر مگر پر معنی عبارت میں اپنے والد کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ موسٰی (علیه السلام) کو بھیڑوں کی حفاظت کے لیے ملازم رکھ لیں . وہ الفاظ یہ تھے :
اے بابا ! آپ اس جوان کو ملازم رکھ لیں .کیونکہ ایک بہرین آدمی جسے آپ ملازم رکھ سکتے ہیں ، وہ ایساہوناچاہیئے جوقوی اور امین ہوا ور اس نے طاقت اور نیک خصلت دونوں کاامتحان دے دیا ہے :
( قالت احدا ھما یاابت استاجرہ ان خیر من استاجرت القوی الامین ) ۔
جس لڑکی نے ایک پیغمبرکے زیر سایہ تربیت پائی ہواسے ایسی ہی مئود بانہ اورسوچی سمجھی با ت کہنی چاہیئے نیز چاہیئے کہ مختصر الفاظ اور تھوڑی سی عبارت میں اپنا مطلب اداکردے ۔
اس لڑ کی کو کیسے معلوم تھا کہ یہ جوان طاقتور بھی ہے اورنیک خصلت بھی کیونکہ اس نے پہلی باز کنویں پر ہی اسے دیکھا تھا اوراس کی گزشتہ زندگی کے حالات سے وہ بے خبر تھے ؟
اس سوال کاجواب واضح ہے .اس لڑکی نے اس جوان کی قوت کو تواسی وقت سمجھ لیاتھا جب اس نے ان مظلوم لڑکیوں کاحق دلانے کے لیے چرواہوں کوکنویں سے ایک طرف ہٹا یاتھا . اوراس بھاری ڈول کواکیلے ہی کنویں سے کھینچ لیاتھا اوراس کی امانت اورنیک چلنی اس وقت معلوم ہوگئی تھی کہ حضرت شعیب (علیه السلام) کے گھر کی راہ میں اس نے یہ گوارانہ کیاکہ ایک جوان لڑکی اس کے آگے آگے چلے . کیونکہ ممکن تھا کہ تیز ہواسے اس کالباس جسم سے ہٹ جائے (۱)۔
علاوہ بریں اس نوجوان نے اپنی جوسرگزشت سنائی اس کے ضمن میں قبطیوں کے لڑائی کے ذکر میں اس کی قوت کاحال معلو م ہو گیا تھا . اوراس کی امانت و دیانت کی یہ شہادت کافی تھی کہ اس نے ظالموں کی ہم نوائی نہ کی اور ان کی ستم رانی پر اظہاررضامندی نہ کیا ۔
حضرت شعیب (علیه السلام) نے اپنی بیٹی کی تجوایز کو قبول کر لیا .انھوں نے موسٰی (علیه السلام) کی طرف رخ کرکے یوں کہا : میراارداہ ہے کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا تیرے ساتھ نکاح کردوں .اس شرط کے ساتھ کہ تو آٹھ سال تک میرے خدمت کرے :
( قال انی ارید ان انکحک احدی ابنتی ھا تین علی ان تاجرنی ثمنی حجج ) (۲)۔
اس کے بعد یہ اضافہ کیا ” اگر تو آٹھ سال کی بجا ئے یہ خدمت دس سال کردے تو یہ تیرااحساب ہوگا . مگر تجھ پرواجب نہیں ہے :
( فان اتممت عشر افمن عندک )
بہر حال میںیہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مشکل کام لوں .ان شاء اللہ جلد دیکھوگے کہ میں صالحین میں سے ہوں ، اپنے عہدو پیمان میں وفادار ہوں تیرے ساتھ ہرگز سخت گیری نہ کروں گا اور تیرے ساتھ خیراورنیکی کاسلوک کروں گا :
(وما ارید ان اشق علیک ستجد نی ان ساء اللہ من الصالحین ) ۔
حضرت شعیب (علیه السلام) کی طرف سے اس تجویز کے ضمن میں ، ازدواج ، مہر اوراس کی جملہ خصوصیات کے متعلق بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں ، جن پران شاء اللہ نکات کے ضمن میں بحث ہوگی ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) نے اس تجویز اورشرط سے موافقت کرتے ہوئے اور عقد کو قبو ل کرتے ہوئے کہا : ” میرے اور آپ کے درمیان یہ عہد ہے “ :
( قال ذلک بنی و بینک ) ۔
البتہ ان دومدّتوں میں سے ( آٹھ دس سال ) جس مدّت تک بھی خدمت کروں ، مجھے پر کوئی زیادتی نہ ہوگی اور میں اس کے انتخاب میں آزاد ہوں :
( ایما الاجلین قضیت فلا عدوان علی ) ۔
عہد کو بختہ اورخداکے نام سے طلب مدد کے لیے یہ اضافہ کیا : جوکچھ کہتے ہیں خدااس پر شاید ہے :
( واللہ علی ما نقول وکیل ) ۔


۱۔علاوہ بن ابراہیم کی تفسیر میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ جب حضرت شعیب(علیه السلام) نے اپنی بیٹی سے یہ سوال کیاکہ ا س جوان کی قوت کاحال تو کنویں سے بڑا ڈول کھینچنے سے معلوم ہوگیا ، تمہیں اس کی امانت کاحال کیسے معلوم ہوا تو لڑکی نے جواب دیا کہ اس نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ
عوتوں کی کمر پر بھی نگاہ ڈال لے . (تفسیر نورا ثقلین ، ج۲ ، ص ۱۲۳)۔
۲۔” حجج “ جمع ” حجة “ کی جس کے معنی ہیں” ایک سال “ عربوں کامعمول یہ تھا کہ ہرسال کے بعد ایک حج کرتے تھے . یہ حضرت براہیم (علیه السلام) کے وقت سے چلی آتی تھی ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma