چند اہم نکات :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16

۱ ۔ مستضعفین کی عالمگیر حکومت : سطور بالامیں ہم نے کہاہے کہ آیات بالا میں خداکا پروگرام کوئی ہنگامی یاصرف بنی اسرائیل سے مخصوص نہیں ہے .بلکہ ان آیات میں ایک کلّی قانون بیان کیاگیا ہے جوتمام قرون واعصاراورجملہ اقوام اورجماعتوں کے لیے ہے چانچہ الفاظ یہ ہیں : ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ ستم رسیدہ اور مستضعف لوگوں کواپنی نعمات عطاکریں اورہم انھیں اقوام کاپیشوا اورزمین کی حکومت کاوارث قراردیں ۔
درحقیت یہ ایک بشارت ہے کہ
” حق “ باطل پرایمان ، کفرپرغالب ہوکے رہے گا “
نیز یہ کہ : یہ ان تمام آزاد لوگوں کے لیے بشارت ہے جویہ چاہتے ہیں کہ ظلم و جور کی بساط الٹ کر عدل وانصاف کی حکومت قائم ہو ۔
اس مشیت الہٰی کے بروئے کار آنے کاایک نمونہ خاندان فرعون کی حکومت کا زوال اوربنی اسرائیل کی حکومت کاقیام تھا . یہ حکومت ان پا برہنہ ، تہی دست ،مظلوم اور پاک دل مومنین کی تھی جوہمیشہ اپنے زمانے کے فرعون کی طرف سے ےحقیر اورتمسخر کانشانہ بنتے رہتے تھے اوران کے ظلم وستم برداشت کرتے رہتے تھے ۔
لیکن ایک دن بھی آیاکے خدانے اسی داماندہ اوران مستکبرین کی ناک زمین پررگڑدیا ۔
اس بشارت کاوسیع ترین نمونہ وہ مبنی برحق وعدالت حکومت ہوگی جواما م مہدی (علیه السلام) ( ہماری جانیں ان پرفداہوں ) کے اہاتھوں تمام روئے زمین پر برپاہوگی ۔
یہ آیات من جملہ ان آیات کے ہیں جن میں واضح طورپر حکومت کے ظہور کی خوش خبری دی گئی ہے . اسلامی روایات میں ہماری نظر سے وہ ارشاد ات گز رتے ہیںجو اس آیت کی تفسیر میں اس
” ظہور عظیم “ کے متعلق ہیں ۔
نہج البلاغہ میں امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب (علیه السلام) سے یوں منقول ہے :
لتعطفن الدینا علینا بعد شما سھا عظف الضروس علی ولدھا وتلی عقیب ذلک ونرید ان نمن اعلی الذین استضعفوافی الارض ...
دنیا اپنی لکزنی اورسرکشی کے بعد ” اس اونٹنی کی طر ح جودودھ دوھنے والے سے اپنے دودھ کواپنے بچّہ کے لیے بچالیتی ہے “ ہماری طرف رخ کردے گی ۔
اس کے بعد آپ نے آیت
” ونرید ان نمنّ “ کی تلاوت فرمائی (۱)۔
ایک اور حدیث میںجوامام علی علیہ اسلا م ہی سے مروی ہے ہم یوں پڑھتے ہیں کہ آیت فوق کی تفسیر میںفرمایا :
ھم ال محمد یبعث اللہ مھدیھم بعد ھم فیعذّ ھم و یذل عد وھم ۔
وہ آل محمد ہیں کہ ان زحمات ومصائب کے بعد جو ان پر وارد ہوگے ان میں سے خدامہدی کوپیداکرے گا . جوان کوعزّت دے گا اوران کے دشمنوں کوذلیل و خواار کردے گا ( ۲) ۔
ایک اورحدیث میں جو جناب امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے ، اور میں ہے :
والذی بعث محمد ا بالحق بشیر ا ونذیر ا ، ان الابرار منا اھل البیت وشیعتھم بمنزلةموسٰی وشیعتہ ، وان عدونا واشیاعھم بمنزلة فرعون واشیا عہ
قسم ہے اس خداکی جس نے محمد کوحق کے ساتھ بشیر و نزیر بنا کر مبعوث فرمایا کہ ہم اہلبیت میں ابرار اور ان کے پیر و مثل موسٰی کے ہیں اور ہمارے دشمن اوران کے پیرو فرعون اوراس کے مقلّدین کے سے ہیں (۳)۔
امام (علیه السلام) کامقصدیہ ہے کہ آخر کار ہم کامیاب اور فتح مندہوں گے اور ہمارے دشمن نابود ہوجائیں گے اور ہم ہی حق وعد ل پر مبنی حکومت قائم کریں گے ۔
البتہ حضرت مہدی علیہ السلام کی عالمگیر حکومت ان حکومتوں کے خلاف اور مانع نہ ہوگی جومظلوم لو گ ظالموں کے خلاف محدود علاقوں میںقائم کرلیں گے اور یہ مستضعف لوگ جس وقت مبنی برحق و عدل حکومت کی شرائط کوپورا کر یں گے تو خداکا حتمی وعدہ اوراس کی مشیت ان کے حق میںپوری ہوجائے گی او ر انھیں یہ کامیابی حاصل ہوجائے گی ۔
۲۔
” مستضعفین “ اور ” مستکبر ین “ کون ہیں ؟ ہم جانتے ہیں کہ کلمہ ” مستضعف “ مادہ ” ضعف “ سے مشتق ہے .لیکن چونکہ اس مادہ کو باب استفعال میں لے جایاگیا ہے ( لہذا خاصیت باب کی وجہ سے ) اس کے معنی ہیں وہ شخص جسے کمزور کردیاگیا ہو اوراسے پیڑیاں پہناکر قید کردیاگیا ہو ۔
ایک اور تعبیر کے مطابق
” مستضعف “ وہ نہیںہے کہ جسمانی لحاظ سے کمزور وناتواںہو ورکسی قسم کی طاقت نہ رکھتا ہو . اصطلاحا ” مستضعف “ وہ ہے کہ اس میں بالقوة اور بالفعل کام کرنے کی استعداد تو موجود ہو ، مگر وہ ظالموں کے ظلم اور جبر کے نیچے پساہواہے . لیکن بایںحال کہ اس کے دست و پاقید وبند میں گرفتار ہیں وہ اس حالت پرخاموش اورمطیع نہیں ہے .وہ ہمیشہ ایسے موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ غلامی کی زنجیر وں کوتوڑ کرآزاد ہوجائے .جابر وں اور ستمگروں کے ہاتھ کاٹ دے اوردنیا میں ایسا قانون نافذ کرے جوحق اور عدل پر مبنی ہو ۔
اللہ نے ایسے گروہ سے ان کی مدد کرنے اورانھیں زمین کی حکومت عطاکرنے کاوعدہ کیا ہے .خداکایہ وعدہ ان بے دست وپابزدل اورڈر پوک لوگوں کے لیے نہیں ہے جو ظلم کے خلاف فریاد کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں . بھلا ،ان سے اس بات کی کیاتوقع ہوسکتی ہے کہ وہ میدان نبر د میں آئیں اور قربانی دیں ۔
بنی اسرائیل بھی فرعونوں کی حکومت کے وارث اس وقت ہوسکتے ہیں جب وہ اپنے رہبر حضرت موسٰی (علیه السلام) کے حلقئہ اطاعت میں آگئے اپنے وسائل کو جمع کیا اور سب کے سب من حیث القوم ایک مرکز پر اکٹھے ہوگئے .وہ ایمان اثر ات جو انھیں حضرت ابراہیم (علیه السلام) سے ورثے میں ملے تھے ، حضرت موسٰی (علیه السلام) کی تبلیغ و تعلیم نے انھیں تازہ اور مکمل کیا، خرافات کواپنے ذہن سے نکال دیا اور جنگ کے لیے تیار ہوگئے ۔
البتہ
” مستضعف “ بھی کئی قسم کے ہیں مثلا مسنضعف فکر وعلمی و ادبی ،مستضعف اقتصادی ، مستضعف اخلاقی اورمستضعف سیاسی ،قرآن ،مجید میں یہ کلمہ عام طور پر مستضعفین سیا سی و اخلاقی کے لیے استعمال ہوا ہے ۔
اس میںشک نہیں کہ جب آمرطبع ظالم مسلّط ہیں تو وہ سب سے پہلے اپنی تسلط پسند انہ سیاست کو مستحکم کرنے کی کوشش ، کرتے ہیں .وہ اپنے محکوموں کے علوم و تہذیب کو تباہ اوران کی فکر کو ضعیف کردیتے ہیں.اس کے بعد وہ .ان کی اقتصادی حالت کو کمزور کردیتے ہیں تاکہ ان میں یہ قوّت نہ رہے کہ و ہ کبھی یہ سوچ سکیں کہ بغاوت کرکے مستکبر و ظالم ، آمر ک ہاتھ سے عنان حکومت چھین لی جائے ۔
قرآن مجید میںپانچ مقامات پر
” مستضعفین “ کا ذکر آیاہے ، ان سب مقامات پراس کلمہ سے مراد مومنین ہیںجو ظالموں کے جبر کے نیچے دبے ہوئے تھے ۔
قرآن مجید میں ایک مقام پر مومنین کو یہ وعوت دی گئی ہے کہ وہ خداکی راہ میں اورمستضعفین کی نجات کے لیے جہاد کریں چنانچہ فریاماگیا ہے :
تم خداکی راہ میں اوران لوگوں کی نجات کے لیے جو قہر و ستم کاشکار ہیں ،جہاد کیوں نہیں کرتے ؟ جب کہ یہ ستم دیدہ لوگ کہتے ہیں :
اے خدا ! تو ہمیں اس شہر (مکّہ ) سے جس کے باسندے ستم گرہیں باہر لے جا .اورایک مدد گار مقرر کر (نساء ، آیت ۷۵)۔
قرآن میں صرف ایک جگہ ان لوگوں کاذکر آیاہے جوظالم ہیں اورکافروں سے میل جول رکھتے ہیں اور ریاکاری سے اپنے کو
” مستضعفین “ کہتے ہیں . قرآن نے ان کے اس ادعاکی نفی کی ہے اور کہاہے :
” تم یہ کرسکتے تھے کہ کفر و فساد کے علاقے سے ہجرت کرکے ان ظالموں کے پنجے سے رہا ئی حاصل کرلیتے .مگر ،چونکہ تم نے ایسا نہیں کیا اس لیے تمہاری جگہ دوزح میں ہے --“ ۔
تاہم ،قرآن مجید میں ہرمقام پر مستضعفین کی حمایت کی گئی ہے اوران کاذکر بھلائی کے ساتھ کیاگیا ہے اورانھیں ایسے مومنین شمار کیاگیا ہے جوزیر تسلط پس رہے ہیں . یہ مومن مجاہد او ر دین خداکے لیے سعی و کوشش کرنے والے ہیں اور لطف خداوندی ان کے شامل حال ہے ۔
۳۔ مستکبر کی عام روش : صرف یہ فرعون کی خصوصیت نہ تھی کہ وہ بنی اسرائیل کواسیر رکھنے کے لیے ان کے مردوں کو قتل کرتاتھا اوران کی عوتوں کو اپنی خدمت کے لیے زندہ رکھتاتھا . تاریخ گواہ ہے کہ تمام جابروں کایہی وطیر ہ رہاہے کہ وہ اپنے محکوموں کی عملی قوتوں کی ختم کرتے ہیں رہے ہیں ۔
ان میںسے جوجابر حکمران مردوں کوقتل نہ کرسکتے تھے وہ ان کے جوہر مردانگی کو قتل کردیتے تھے .و ہ لوگ برائی کے وسائل کے ذریعہ لہوولعب کوپھیلا کر، منشیات کاعادی بنا کرفحشیا ت کو عام کرکے ، جنسی لذائذ کو بے لگام کر کے ، شراب اورجوئے بازی کوجائز کرکے اور طرح طرح کے غیر صحت مندانہ مشاغل کی ترغیب دلاکر کے اپنی محکومت قوم کی غیر ت و حمیت ،دلادی ،جنگی روح اورقوّت ایمانی کا گلا گھونٹ دیتے تھے .تاکہ باکل مطمئن ہوکراپنی استحصالی حکومت کو دوام دے سکیں ۔
لیکن .پیمبران الہٰی ،بالخصوص پیمبر اسلام نے یہ کوشش کی کہ جو انوں کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کریں .یہاں تک کہ عورتوں کوبھی بہاردی کا سبق سکھائیں اور انھیں مستکبر ین کے مقابلے میں مردوں کی صف میں لاکھٹرا کریں ۔
ان دونوں چیزوں کے شواہد گزشتہ تاریخ میں زما نئہ حال میںتمام اسلامی ملکوں میں اچھی طرح نمایا ں ہیں . ہم اس مقام پران کے ذکر کی ضرورت نہیںسمجھتے ۔
۱۔ نہج البلا غہ کلمات قصار ۲۰۹۔
۲۔ ” غیبت شیخ طوسی “ مطابق نقل تفسیر نورا ثقلین ، ج ۴ ، ص ۱۱۰ ۔
۳۔ ” مجمع البیان “ زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma