بے شرم گنا ہ گار :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16

اللہ تعالی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مختصر ساواقعہ بیان کرنے کے بعدان کے ہم عصرپیغمبر حضر ت لوط علیہ السلام کاکچھ قصّہ بیان کرتاہے ۔
چنانچہ فرماتاہے : ہم نے لوط کومبعوث کیا .اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بہت ہی براکام کرتے ہو . دنیامیں کسی نے بھی اس سے پہلے اس گناہ کاکام نہیں کیا : ( ولوط اذ قال لقومہ انکم لتا توالفاحشة ماسبقکم بھامن احد من العالمین (۱) ۔
” فاحشة “ کامادہ ”فحش “ہے . اس کے وضعی معنی ہر وہ کام یابات ہے جو نہایت ناز یبا اورناپسند دیدہ ہو .اس مقام پر ہم جنسی اور لو اطت کے لیے گنا کنایہ ہے ۔
” ماسبقکم بھامن احد من العالمین “ سے خوب واضح ہوتاہے کہ یہ گھٹیا اور شرمناک عمل عمومی اورقومی خصلت کی صورت میں اس سے قبل کسی قوم و ملّیت میں بھی موجود نہ تھا ۔
قوم لوط کے حلات میں موٴ رّ خین نے لکھا ہے کہ ان کے اس گناہ میں مبتلا ہو نے کا سبب یہ تھا کہ وہ لوگ نہایت نجیل تھے ۔چونکہ ان کے شہر ، شام کوجانے والے قافلوں کی راہ پرواقع تھے .انھوں نے بعض راہ گیروں او ر مہمانوں کے ساتھ یہ عمل انجام دینے کی وجہ سے انھیں اپنے آپ سے متنفّر کردیا . لیکن رفتہ رفتہ ہم جنسی کے میلانا ت خود ان ہی میں قوی ہو گئے اور وہ لواطت کی دلد ل میں پھنس گئے ۔
بہر حال وہ لوگ نہ صرف اپنے گناہ ہوں کا بار اٹھا ئیں گے بلکہ ان کے گناہوں کا بھی جو آئندہ ان کے عمل کی پیرو ی کریں گے ( اس کے بغیر کہ ان کے گناہ میں کوئی کمی ہو ) کیونکہ جو آدمی بھی کسی گندی اور پلید رسم کی بنیاد رکھتاہے ، وہ اپنے مقلّدین کی بد اعمالی میں حصّہ دار ہوتا ہے . اور وہ لوگ اس رسم بد کے بانی تھے ۔
حضر لوط نے اس کے بعد اپنے مقصد کو نہایت واضح الفاظ میں بیان کیا اور کہا کہ آیا تم مردوں کے پیچھے جاتے ہو : ( ائنکم لتاٴ تون الرجال ) ۔
اور کیاتم نسل انسانی کی مقاء کی راہ کو قطع کرتے ہو : ( وتقطعون السبیل ) (۲)۔
اور کیاتم اپنے ان مقامات پر جہاں تم جمع ہوتے ہو برے اعمال کے مرتکب ہوتے ہو : ( وتاٴتون فی دیکم المنکر) ۔
کلمہ ” نادی “ کامادہ ” ندا “ ہے اس کے معنی ہیں مجلس ِ عمومی. اور کبھی تفریح گاہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے . کیونکہ جب ایسے مقام پر لوگ جمع ہوتے ہیں توایک دوسرے کو آواز دیتے اور پکار تے ہیں ۔
قرآن میں اس کی کوئی تفصیل موجو د نہیں کہ وہ اپنی محفلوں میں کون سے برے اعمال کاارتکاب کرتے تھے . لیکن بدون اظہار ہی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کچھ ایسے کام تھے جو ا ن کی بدکاریوں سے تعلق رکھتے تھے ، جواء کھیلتے تھے . بچگانہ کھیلتے تھے .بالخصوص ایک دوسرے کواورراہ گیر وں کو سنگریز ے مارے تھے . آلات موسیقی بجاتے تھے اورسارے مجمع کے سامنے بر ہنہ ہو جاتے تھے (۳) ۔
جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے جس کی راوی ہانی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ” وتاٴ تون فی نا دیکم المنکر“ کا مفہوم پوچھا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کانو ایخذ فون من یمربھم و یسخرون منہ
جو کوئی ادھر سے گزرتا وہ اسے سنگریز ے مارے تھے اور اس سے مذاق کرتے تھے (۴) ۔
اب اس پرغور کیجئے کہ حضرت لوط علیہ السلام کے پیغام حق کے جواب میں اس گمراہ اور بے شرم قوم کاکیا جواب تھا ؟
قرآن میں یہ ذکر ہے کہ : . ان کے پاس بجز اس کے کوئی جواب نہ تھا ۔
اگرتوسچا ہے تو ہمار ے لیے خدا کا عذاب لے آ : ( فماکان جواب قومہ الا ان قالو ائتنا بعذاب اللہ ان کنت من الصادقین ) ۔
ان ہوس باز وں نے ( جو کہ عقل و شعور سے محروم تھے ) یہ بات حضرت لوط علیہ السلام کی معقول اورمدلل دعوت کے جواب بطور مذاق کہی تھی ۔
اس جواب سے یہ بھی مترشح ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام نے مد لل باتوں کے علاوہ انھیں یہ بھی تنبیہ کی تھی کہ اگر تم اسی باطل روش پرچلتے رہے توتم پرخدا کادرد ناک عذاب نازل ہوگا . لیکن انھوں نے راہ ہدایت کی باتوں کو تو چھوڑ دیااور صرف اسی آخری بات کا جواب دینے لگے .اوربھی استہزا اور تمسخر کے طور پر ۔
سورہ قمر کی آیت ۳۶ میں اس مفہوم کے مانند بیان ہے :
ولقد انذ رھم بطشتنا فتما روا بالنذر
لوط نے اپنی قوم کو ہمارے عذاب سے ڈرا یا . مگر وہ ڈرانے والوں سے لڑ نے گے .
اس گم راہ قوم کا یہ قول یہ ثابت کرتاہے .کہ وہ یہ چاہتے تھے ،عذاب نازل نہ ہونے کی صورت میں یہ ثابت کریں کہ حضرت لوط دورغ گوہیں .حالانکہ یہ خدا کی رحمت ہے کہ وہ گناہ ترین اقوم کوبھی تجدید نظر اوراپنی اصلاح کی مہلت دیتاہے ۔
یہ وہ مقام تھاکہ حضرت لوط علیہ السلام بالکل بے بس ہوگئے اور درگارہ الہٰی میں غم واندوہ سے بھر ے ہوئے دل کے ساتھ عرض کی : خدا یا ! تومجھے اس مفسدقوم پر فتح عنایت فرما : ( قال رب انصرنی علی القوم المفسدین ) ۔
یہ وہ قوم ہے جس نے زمین کوفساد اور تباہی سے بھر دیا ہے . انھوں نے اخلاق اورتقوی کو برباد کردیا .عفت اور پاکدامنی سے منہ موڑ لیا ہے .عدل اجتماعی کوروندڈالا ہے .شرک و بت پرستی میںفساد اخلاق اورظلم وستم بھی شامل کرلیا ہے . اور نسل انسانی کوفنا اور نیستی کی دھمکیان دے رہے ہیں . خدایا : توان مفسدین پر مجھے کامیابی عنایت مرما ۔
ہم جنسی کارجحان بدترین لعنت ہے :
ہم جنسی خواہ مردون کے درمیان ہو (لواطت ) یاعورتوں کے (مساحقہ ) وہ ان بدترین انحراف ِ اخلاقی میں س ے ہے جومعاشرے میںفاسد کاسر چشمہ ہیں۔
اصولا قدرت نے زن و مرد کے مزاج کواس طرح خلق کیاہے کہ انھین جنس مخالف سے تعلق پیدا کرنے میں آسود گی اورنفسیاتی سکون حاصل ہوتاہے . اس صورت کے علاوہ انسان میں چو بھی جنسی میلان پید ا ہوتاہے .وہ انسان کی طبع سلیم سے انحراف اور ایک قسم کی نفسیاتی بیماری ہے . اگراس میلان کوروکا نہ جائے تووہ روز بروز شدید تر ہوتا جاتا ہے . اوراس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ آدمی کواپنی جنس مخالف کی طرف میلان خاطرنہیں رہتا اور وہ پھر جنس موافق ہی سے غیر فطری آسود گی حاصل کرنے لگتا ہے ۔
اس قسم کے باہمی نامشروع تعلقات انسان کے نظام جسمانی حتی کہ اس سلسلہ ٴ اعصاب اوراس کی نفسیاتی کیفیت کومتاثر کرتے ہیں اورجب یہ میلان عادت بن جاتاہے تومرد کوایک کامل مرد اورعورت کوایک کامل عورت بننے سے روک دیتاہے .اس طرح سے کہ اس قسم کے ہم جنس باز مرد یا عورتیں شدید ضعف جنسی کاشکار ہو جاتے ہیں اور اپنی اولاد کے لیے اچھے ماں باپ ثابت نہیں ہو تے اورکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان میں تولید نسل کی قابلیت ہی نہیں رہتی ۔
ہم جنسی کے میلان سے لوگوں میں بتدریج یہ نفسیاتی مرض پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ خلوت پسند ہو جاتے ہیں. مجمع سے گھبرانے لگتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی ذات سے بھی بیگانہ ہوجاتے ہیں .نیز یہ کہ ان میںنفسیاتی تضاد کامرض پیدا ہوجاتا ہے . اگریہ لوگ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہوں تومختلف قسم کی جسمانی اورنفسیاتی امراض کاشکار ہو جاتے ہیں ۔
اسلام نے ان ہی اخلاقی اوراجتماعی دلائل کی بناء پر ہم جنسی کا ہر شکل اورہرصورت میں حرام کیاہے . اوراس کے لیے بڑی سخت سزا مقرر کی ہے ( جس کی حد کبھی موت تک پہنچتی ہے ) ۔
اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اس زمانے کی متمد ّ ن دنیا کی بے لگامی اور تنوع طلبی بہت سے لڑ کوں اور لڑ کیوں میںنفسیاتی فساد پید کردیتی ہے . لڑ کوں میں ناموزوں اورزنانہ لباس پہننے اورخود آرائی کاشوق پیدا ہوتاہے اورلڑ کیوں میں مردانہ لباس زیب تن کرنے کی خواہش ہوتی ہے . یہیں سے نفسیاتی انحراف اورمیلان ہم جنسی جنم لیتا ہے . یہاں تک کہ اس رجحان اورایسے قبیح ترین اعمال کوقانونی شکل دے دی جاتی ہے اور اسے ہر قسم کی سزا اور تعقیب سے بری سمجھتے ہیں .ان حالات کے شرح لکھتے ہوئے قلم کوشرم آتی ہے (۵) ۔
۱۔” لوطا “ ممکن ہے کہ یہ ” نوحا “پر عطف ہو. اس بناء پر ” ارسلنا “ کامفہوم ہوگا . بعض لوگوں نے لوطافعل مقدر ” اذکر “ کا مفعول سمجھا ہے ۔
۲ ۔ بعض مفسرین نے ” تقطعون السبیل “ کی تفسیر میں اور بھی احتمالات کاذکر کیا ہے . اس قوم کی تاریخ پرنظر کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس قوم نے قافلوں کاراستہ روک دیاتھا .کیونکہ اہل کاروان کے لیے اس قوم کے شر سے بچنے کے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہ تھا . کہ غیرمعروف راستے سے چلیں تا کہ ان کے ہاتھ میں گرفتار نہ ہو جائیں .بعض مفسرین نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ وہ قافلوں کولوٹتے تھے . لیکن ہم نے پہلے جوتفسیر بیان کی وہ مناسب تر ہے . کیونکہ تحریم لواطت کے مصالح میں س ے ایک یہ بھی ہے کہ نسل انسانی کے قطع ہوجانے کا خطرہ ہے ۔
۳ ۔ سفینة البحار ،جلد ۲ ، صفحہ ۵۱۷۔
۴ ۔تفسیر قرطبی ، زیربحث آیات کے ذیل میں ۔
۵ ۔ اسلام میںہم جنس پرستی کی حرمت اورفلسفہ ٴ حرمت کے سلسلے میں تفصیلی بحث تفسیر نمونہ کی نویں جلد میں س ورہ ہود کی آیت ۸۱ کے ذیل میں کی جاچکی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma